اردوئے معلیٰ

Search

لمعۂ عشقِ رسول ، عام ہے اَرزاں نہیں

منزلِ مدحِ نبی اتنی بھی آساں نہیں

 

دعویٔ حُبِّ نبی ، لاکھ ہو، سب بے دلیل

شمعِ عمل جب تلک دل میں فروزاں نہیں!

 

کوچۂ مرداں میں ہے خواجہ سراؤں کی بھیڑ

عشق کے آہنگ میں تابشِ بُرہاں نہیں!

 

عشق کے معمورے میں آج منارے بہت!

کوئی بھی اخلاص کی ضَو سے درخشاں نہیں!

 

حضرتِ رومیؒ رہے ایسے ہی غم میں ملول!

کہتے رہے شہر میں ایک بھی انساں نہیں!

 

مہر سے شب ہے نفور، روزِ سعادت ہے دور

پر بطفیل حضور ! دل یہ ہراساں نہیں!

 

صبحِ سعادت بھی اب آئے گی اس دہر میں!

صاحبِ حق الیقیں کوئی پریشاں نہیں!

 

اُسوۂ ختم الرسل سامنے رکھیں اگر

کشمکشِ زیست میں، مات کا امکاں نہیں!

 

شوق گرا دے مجھے آپ کی دہلیز پر

دیکھنے والے کہیں ’’اس میں تو اب جاں نہیں‘‘!

 

کاش درِ شاہ پر جان ہی دے دوں عزیزؔ

دل یہ پکارے کہ اب کوئی بھی ارماں نہیں!

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ