لہجے میں خوش دلی کی جگہ نم لگا مجھے
بحر رمل میں رکن کوئی کم لگا مجھے
وہ منسلک ہوا تھا کہاں میری ذات سے
اس نے کہا تو ہُممممممم تھا مگر ہَم لگا مجھے
تاثیر شاعری میں نمایاں دکھائی دی
صد شکر میرے دوست ترا غم لگا مجھے
حالانکہ اس کے درد کا میں ایک تھی سبب
وہ شخص پورے شہر سے برہم لگا مجھے
چہرے پہ اور رنگ تھا باتوں میں اور رنگ
اک بے مثال شعر میں کچھ ذم لگا مجھے
آنکھیں بھری ہوئی تھیں بچھڑتے سمے کوئی
کومل کسی کا قہقہہ ماتم لگا مجھے