مانا کہ ہے سفر کا تقاضہ سبک روی
پر تیز رو جنون ، تھکا جا رہا ہوں میں
اب کون سوچنے کی مشقت کرے بھلا
جاؤ مرے فنون ، تھکا جا رہا ہوں میں
کاندھوں پہ جو بنامِ محبت دھرا گیا
بھاری ہے وہ ستون ، تھکا جا رہا ہوں میں
اک عمر ہو چلی ہے کہ زخموں پہ ہاتھ ہے
رکتا نہیں ہے خون ، تھکا جا رہا ہوں میں
ہر گام تازیانہِ قسمت کا خوف ہے
غارت گرِ سکون ، تھکا جا رہا ہوں میں
زیرِ زمینِ خواب ، سرنگوں کا سلسلہ
اور اس کے اندرون ، تھکا جا رہا ہوں میں
ہر پرت کے تلے ہے نئی پرت کرب کی
کھلتے نہیں فسون ، تھکا جا رہا ہوں میں
ظاہر زبانِ حال سے ہر اک شکست ہے
ائے حالتِ زبون ، تھکا جا رہا ہوں میں