مجھ خطا کار کو طیبہ سے بلاوا آیا
للہ الحمد کہ جینے کا سہارا آیا
کرہء ارض پہ اترا تھا اندھیرا پہلے
آپ کی شکل میں پھر نور اجالا آیا
پہلے میں شہرِ محمد کی طرف نکلا تھا
پھر کہیں شہر خدا کا مجھے رستہ آیا
کوفہ و شام تھی منزل پہ رہِ منزل میں
ارضِ کربل کا تھا پھیلا ہوا صحرا آیا
جس میں ڈوبا ہوا پہنچا ہوں مدینے تک میں
میری راہوں میں وہ اک نور کا دریا آیا
فخر کرتا ہوا اتراتا ہوا پھرتا ہوں
دینِ احمد کا مرے حصے میں رستہ آیا
تھا مقدر جو مرا ان کی غلامی تنوؔیر
چل کے خود میری طرف میرا نصیبا آیا