اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کا یومِ پیدائش ہے۔

محشر بدایونی
(پیدائش: 4 مئی 1922ء – وفات: 9 نومبر 1994ء)
——
اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کا اصل نام فاروق احمد تھا اور وہ 4 مئی 1922ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے بدایوں سے ہی تعلیم حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان کے جریدے آہنگ سے منسلک ہوگئے۔ محشر بدایونی کا شمار پاکستان کے ممتاز شعرا میں ہوتا تھا۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن تھی۔ ان کی تصانیف میں شہر نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصل فردا، چراغ ہم نوا، حرف ثنا، شاعر نامہ، سائنس نامہ اور بین باجے کے نام شامل ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر شوکت علی خاں فانی بدایونی کا یوم پیدائش
——
نومبر 1994ء کو محشر بدایونی کراچی میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
——
اقتباس از شہرِ نوا
——
محشر بدایونی کی شاعری نہ تو جنسی محبت کی ہے اور نہ متصوف عشق کی ، وہ ان دونوں سعادتوں سے محروم رہے ۔ لیکن ان سے محروم رہ کر انہوں نے جو کچھ کھویا اس سے کہیں زیادہ غمِ زمانہ کے شعور سے حاصل کر لیا ہے ۔ ان کا شعورِ غم اس قدر گہرا ہے کہ اس میں ہر غم کی کیفیت دیکھی جا سکتی ہے ۔
غمِ محبت اور غمِ زمانہ میں فرق جہاں ایک کیفیاتی ہے وہاں ایک کمیاتی بھی ہے ۔ غمِ محبت دو دلوں کی آویزش اور غمِ زمانہ ہزاروں دلوں کی آویزش کا نام ہے ۔
چنانچہ اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو دونوں میں ایک قدرِ مشترک موجود ہے ۔
اسی ایک رشتۂ مہر و وفا کی حکایت ہے جو کبھی دو دلوں کی نسبت بیان کی جاتی ہے تو کبھی سو دلوں کی نسبت سے ۔ اگر محبت ماورائے تعلقاتِ جسمانی بھی کوئی شے ہے تو پھر وہ تکمیلِ انسانیت کے جذبے کے علاوہ کوئی شے نہیں ۔ چنانچہ جب میں محشر کی شاعری کو اس پہلو سے دیکھتا ہوں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ لب و رخسار کی گفتگو نہ کر کے وہ کچھ گھاٹے میں نہیں رہے ۔
اس کے بدلے اس سے کہیں زیادہ ایک وسیع دنیا دردِ مشترک کی ان کے ہاتھ آئی ہے جس سے ان کے کلام میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوئی ہے ۔
محشر بدایونی کی شاعری ان کی یومیہ زندگی کے اس الم کی کہانی ہے جو انہیں سینکڑوں جراحتیں روز دیتی ہے ۔ اس میں کچھ سوگ ان کے خواب کی اس زندہ تعبیر کا ہے جسے مرگِ خواب کا نام دینا چاہیے ۔ اور کچھ اس احساس کا بھی ہے کہ شوقِ سفر انہیں جس منزل میں چھوڑ گیا ہے وہاں پیچھے صحرا اور آگے دریا ہے ۔
رومانیت کے زور پر شعر کہنا آسان ہے لیکن اپنا زخم روز پیدا کر کے اسے شعر کے قلب میں ڈھالنا مشکل کام ہے ۔ محشر بدایونی کے یہاں نہ تو رومانوی تراکیبِ الفاظ ہے اور نہ وہ آہنگ ہے جو لذتِ خواب کا حامل ہوتا ہے ۔ ان کا آہنگ بیدارِ محنتِ زیست اور روزمرہ کی گفتگو کا ہے ۔ اس آہنگ میں شعر اس عنوان سے کہنا کہ اسے نثر کی زبان سے پہچانا جا سکے محشرؔ کا بڑا کام ہے ۔
محشر بدایونی کی اس حقیقت پسندی نے لوگوں کو چونکایا ہے ۔ اُن کے کلام میں ایک نیا آہنگ ، نیا کس بل ، نیا لہجہ اور تیور ملتا ہے :
——
ہم سوگ ہیں جاگے سپنوں کا
اے رات ہمیں محسوس نہ کر
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر سید فیاض علی زیدی کا یوم وفات
——
اس ایک شعر میں وہ کتنی بہت سی کہانیاں چند الفاظ میں سنا گئے ہیں ۔ محشر بدایونی کی یہ تلخ نوائی نہ تو جذباتیت کی پروردہ ہے اور نہ ناشناسِ شعورِ زندگی ہے ۔
وہ آج جس احساسِ بیگانگی سے اپنے معاشرے میں دوچار ہیں اس کے اسباب کا بھی اچھا خاصا شعور رکھتے ہیں ۔
——
حق والوں کا دخل کہا ہے دنیا کے میخانے میں
ناچ رہی ہے قسمتِ جم نفعِ زر کے پیمانے میں
——
محشر کی شاعری میں غم و اندوہ کا ذکر تو قدم قدم پہ ملتا ہے لیکن وہ غم آرزوئے موت کا نہیں آرزوئے حیات اور گرم رویِ سفر کا حامل ہے ۔ غم کے پہلو سے زندگی کے جذبات کو ابھارنے کا انداز محشرؔ کا اپنا ہے ۔
——
کیا اُن سے دل ملے کہ یہ موسم کے سلسلے
خوشبو کو دامنوں سے جُدا کر کے آئے ہیں
——
ممتاز حسین 17 فروری 1964ء
——
منتخب اشعار
——
بنے وہ کیسے تماشہ، تہہِ فلک جو چراغ
بجھا دیئے گئے اور روشنی میں رکھے گئے
——
میں شعلگیِ ذات سے پہنچا ہوں یہاں تک
بُجھ جاؤں گا جل جل کے تو لو دے گا دھواں تک
——
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیئے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا
——
ہم خس و خاشاکِ آوارہ، گزر گاہوں کا بوجھ
رقص کرنے تیرے کوچے کی ہوا میں آئے ہیں
——
یک قطرہ خوں بہت ہے اگر چشمِ تر میں ہے
کچھ ہو نہ چراغ تو کہنے کو گھر میں ہے
پژ مُردگیِ گل پہ ہنسی جب کوئی کلی
آواز دی خزاں نے کہ تو بھی نظر میں ہے
——
ہوائے شب مرے شعلے سے انتقام نہ لے
کہ میں بجھا تو افق تک دھواں اڑا دوں گا
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر سید فیاض علی زیدی کا یوم پیدائش
——
کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
مِلائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے
——
نہ جاؤ گھر کے شب افروز روزنوں پہ کہ لوگ
دیا مکان میں جلتا بھی چھوڑ جاتے ہیں
——
وہ گھر کے واسطے اب اک چراغ بھی دے گا
وہ جس نے رہنے کو کاغذ کا گھر دیا ہےمجھے
——
کلام کرتے ہیں در، بولتی ہیں دیواریں
عجیب صورتیں ہوتی ہیں انتظار میں بھی
——
ڈرو اِن سے کہ اِن خستہ تنوں میں
لہو کم ہے، حرارت کم نہیں ہے
——
ہم درِ عدل پہ منت کو گئے جتنی بار
اپنے ماں باپ کی قبروں پہ بھی اتنے نہ گئے
——
روشن کسی اور اُفق پہ ہوگا
سورج کبھی ڈوبتا نہیں ہے
——
فن کے پیمانے سُبک، حرف کے کوزے نازک
کیسے سمجھاؤں کہ کچھ دُکھ ہیں سمندر میرے
——
اجازت ہے سب اسبابِ سفر تم چھین لو مجھ سے
یہ سورج، یہ شجر، یہ دھوپ ، یہ سایہ تو میرا ہے
——
مجھے بھی ساتھ ہی لے لو، مگر نہیں یارو!
میں سُست رو ہوں تمھاری تھکن بڑھا دوں گا
——
ہنر کا حق تو ہوا کی بستی میں کون دے گا
اِدھر میں اپنا دیا جلا لوں یہی بہت ہے
——
میں اتنی روشنی پھیلا چُکا ہوں
کہ بجھ بھی جاؤں تو اب غم نہیں ہے
——
روشنی محشرؔ رہے گی روشنی اپنی جگہ
میں گزر جاؤں گا میرا نقشِ پا رہ جائے گا
——
منتخب کلام
——
کرے دریا نہ پُل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار میرے
بہت دن گزرے اب دیکھ آؤں گھر کو
کہیں گے کیا در و دیوار میرے
وہیں سورج کی نظریں تھیں زیادہ
جہاں تھے پیڑ سایہ دار میرے
وہی یہ شہر ہے، تو اے شہر والو!
کہاں ہیں کوچہ و بازار میرے
تم اپنا حالِ مہجوری سناؤ
مجھے تو کھا گئے آزار میرے
جنہیں سمجھا تھا جاں پرور میں اب تک
وہ سب نکلے کفن بردار میرے
گزرتے جا رہے ہیں دن ہوا سے
رہیں زندہ سلامت یار میرے
دبا جس میں، اُسی پتھر میں ڈھل کر
بِکے چہرے سرِ بازار میرے
دریچہ کیا کھُلا میری غزل کا
ہوائیں لے اُڑیں اشعار میرے
——
یہ بھی پڑھیں : مشہور و معروف شاعر بیخودؔ بدایونی کا یوم پیدائش
——
آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا
اور وہ غم بھی مجھ کو اک دن دیکھتا رہ جائے گا
سوچتا ہوں اشک حسرت ہی کروں نذر بہار
پھر خیال آتا ہے میرے پاس کیا رہ جائے گا
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
آج اگر گھر میں یہی رنگ شب عشرت رہا
لوگ سو جائیں گے دروازہ کھلا رہ جائے گا
تا حد منزل توازن چاہئے رفتار میں
جو مسافر تیز تر آگے بڑھا رہ جائے گا
گھر کبھی اجڑا نہیں یہ گھر کا شجرہ ہے گواہ
ہم گئے تو آ کے کوئی دوسرا رہ جائے گا
روشنی محشرؔ رہے گی روشنی اپنی جگہ
میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا
——
کتنے دن حبس مسلسل میں بسر ہوتے ہیں
بڑے اشعار بڑے غم کا ثمر ہوتے ہیں
حکمت وقت بھی کرتی ہے عطا جن کو خراج
میں اسی سوچ میں ہوں کیا وہ ہنر ہوتے ہیں
مستقل بوجھ نہ ٹھہرائے سبھی کو یہ زمیں
عزت خاک بھی کچھ خاک بسر ہوتے ہیں
خالی شاخوں کا بھی ہوتا ہے بھلا کوئی مقام
جو شجر چھاؤں بچھا دیں وہ شجر ہوتے ہیں
ہم سفر کیسی بٹھا جاتے ہیں گرد آنکھوں میں
جب وہ بے خواب سفر خواب سفر ہونے ہیں
شام کچھ اچھا نظر آتا ہے بستی کا سماں
صبح ہوتی ہے تو حالات دگر ہوتے ہیں
کیا ہوئی ضابطۂ نظم کی بالادستی
لوگ اب قتل سر راہ گزر ہوتے ہیں
رخنۂ زر طلباں سرزنش تیرہ شباں
ایسے قصے تو یہاں شام و سحر ہوتے ہیں
——
مٹی کی عمارت سایہ دے کر مٹی میں ہموار ہوئی
ویرانی سے اب کام ہے اور ویرانی کس کی یار ہوئی
ہر پتی بوجھل ہو کے گری سب شاخیں جھک کر ٹوٹ گئیں
اس بارش ہی سے فصل اجڑی جس بارش سے تیار ہوئی
ڈر ڈر کے قدم یوں رکھتا ہوں خوابوں کے صحرا میں جیسے
یہ ریگ ابھی زنجیر بنی یہ چھاؤں ابھی دیوار ہوئی
چھوتی ہے ذرا جب تن کو ہوا چبھتے ہیں رگوں میں کانٹے سے
سو بار خزاں آئی ہوگی محسوس مگر اس بار ہوئی
اب یہ بھی نہیں ہے بس میں کہ ہم پھولوں کی ڈگر پر لوٹ چلیں
جس راہ گزر پر چلنا ہے وہ راہ گزر تلوار ہوئی
اک غنچہ سحر کے عرصہ میں ایسا بھی تھا جو کہہ گزرا
اس ارض خوش گفتاراں پر تخلیق جرس بیکار ہوئی
ہم ساتھ چلے تھے سورج کے سو اس کا یہ خمیازہ ہے
سورج تو نکل کر دور گیا اب اپنی شام غبار ہوئی
وہ نالے ہیں بے تابی کے چیخ اٹھتا ہے سناٹا بھی
یہ درد کی شب معلوم نہیں کب تک کے لیے بیدار ہوئی
اب تیز ہوا کتنی ہی چلے اب گرم فضا کتنی ہی رہے
سینے کا زخم چراغ بنا دامن کی آگ بہار ہوئی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ