اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف محدث، فقیہ، محقق، قانون دان ، اسلامی دانشور اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا یومِ پیدائش ہے۔

محمد حمید اللہ(پیدائش: 9 فروری 1908ء، انتقال : 17 دسمبر 2002ء)
——
ڈاکٹر محمد حمید اللہ معروف محدث، فقیہ، محقق، قانون دان اور اسلامی دانشور تھے اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ حدیث پر اعلٰی تحقیق، فرانسیسی میں ترجمہ قرآن اور مغرب کے قلب میں ترویج اسلام کا اہم فریضہ نبھانے پر آپ کو عالمگیر شہرت ملی۔
——
آپ 9 فروری 1908ء کو اور بعض حوالوں کے مطابق 19 فروری 1908 کو مملکت آصفیہ کے شہر حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے ایک مکتوب بنام مظہر ممتاز قریشی میں اپنی تاریخ پیدائش 16 محرم 1326ہجری بیان کی ہے۔
آپ 8 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اُن کے والد کا نام محمد خلیل اللہ تھا جو خود بھی ایک ادیب اور عالم شخصیت تھے۔ڈاکٹر حمید اللہ کے دادا محمد صبغت اللہ نے بھی بہت سی کتابیں مختلف زبانوں میں تصنیف کی ہے۔ انہوں نے 29 کتابیں عربی میں ، 24 فارسی میں اور 14 اردو میں لکھیں۔ اسی وجہ سے اُن کے دادا کا نام بھی عظیم علماء میں شامل ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا گھرانا انتہائی روحانی اور صوفی گھرانا تھا۔ جدید تعلیم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ خاندانی روایات کے مطابق آپ نے گھر میں ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا اور 1924ء میں مولوی کامل کا درجہ مکمل کیا۔ بعد ازاں، گھر والوں کو بتائے بغیر، انگریزی زبان کی اہمیت کے پیش نظر میٹرک کے امتحان کی تیاری کے بعد میڑک کا امتحان بھی دیا اور امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوئے۔اُن کے والد کو مقامی اخبارات کے ذریعہ ڈاکٹر صاحب کی کامیابی کی اطلاع ملی ۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے بیٹے کی مزید حوصلہ افرائی کی۔
1924ء میں آپ نے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا اور اسلام، علم قانون میں ایم اے اور ایل ایل بی کی سند جامعہ عثمانیہ سے 1930 میں حاصل کی۔ جامعہ عثمانیہ کی جانب سے اسلامی قوانین بین الاقوامی میں ڈاکٹریٹ کے لیے آپ کو فیلوشپ سے نوازا گیا۔ 1932ء میں جامعہ بون، جرمنی سے آپ نے ڈی فل کی سند حاصل کی اور پھر اسی جامعہ میں عربی و اردو کے استاد کی حیثیت سے متعین ہوئے۔ جرمنی میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد آپ نے ڈاکٹریٹ کی ایک اور سند کے لیے فرانسیسی دارالحکومت پیرس کی معروف جامعہ سوربون میں داخلہ لیا۔ 11 ماہ کے مختصر عرصے میں آپ نے ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔
1935 میں اپنے آبائی شہر آنے کے بعد انھوں نے جامعہ عثمانیہ میں بطور لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر 1948 تک خدمات سرانجام دیں۔اس کے علاوہ برسوں تک دنیا کی مختلف جامعات میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
آپ اردو، عربی، فرانسیسی، جرمن،قدیم و جدید ترکی، اطالوی, فارسی، انگریزی اور روسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔آپ نے 7 زبانوں میں تحریر و تحقیق کا کام کیا۔انگریزی اور اردو کے علاوہ انہوں نے فرانسیسی، جرمن، عربی، فارسی اور ترکی زبان میں بھی مضامین اور کتابیں لکھی۔
آپ نے تحقیق کے مقاصد کے لیے متعدد اسلامی اور یورپی ممالک کا دورہ بھی کیا۔ جن میں عہد نبوی کے میدان جنگ نامی کتاب کے سلسلے میں نجد و حجاز کے ان میدانوں کا سفر بھی کیا اور تاریخی مواد اکٹھا کیا۔ انگریزی میں جب یہ کتاب شایع ہوئی تو اس میں نقشے وغیرہ بھی شامل تھے لیکن اردو کے ناشرین سے اس امر کا خیال نہ رکھا اور اسے درسی کتب کے حجم میں شایع کر کے نقشے وغیرہ حذف کر دیے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز اردو شاعر اور مفسر قرآن حمید نسیم کی برسی
——
• حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد حضرت ہمام ابن منبہ کے صحیفے کی تدوین کا کام ڈاکٹر حمید اللہ کا بہت بڑا کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ فرانسیسی زبان میں ان کے ترجمہ قرآن کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ آپ نے فرانسیسی زبان میں سیرت نبوی بھی تحریر کی جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ آپ نے امام محمد شیبانی کی کتاب السیر اور شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کا فرانسیسی ترجمہ بھی کیا۔
1933 میں جرمنی کی بون یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر وہیں اردو اور عربی کے استاد مقرر ہوئے۔
• 1938 میں عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہٴ دینیات کے استاذ بنائے گئے۔
• 1946 میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدرآباد کے نمائندہ (سفیر) مقرر ہوئے۔
• 1948 میں حیدرآباد پر بھارتی پولیس / فوجی ایکشن کے بعد پیرس میں ہی رہ کر جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ وہ سقوط حیدرآباد کو بہت بڑا قومی سانحہ قرار دیتے تھے؛ چنانچہ انھوں نے ریاست حیدرآباد کے تحفظ اور عالمی برادری میں اس کی نمائندگی کی غرض سے ”حیدرآباد لیبریشن سوسائٹی“ کی بنیاد رکھی۔
• 1950 میں پاکستان کا پہلا مسودہ قانون یا قرارداد مقاصد کی تیاری کے لیے پاکستان نے جہاں دنیا بھر کے اہم علما سے رابطہ کیا انہی میں ڈاکٹر حمید اللہ بھی شامل تھے اور آپ نے قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ اس سلسلے میں کراچی میں قیام کیا۔
• آپ نے 1952ء سے 1978ء تک ترکی کی مختلف جامعات میں بطور مہمان استاد خدمات انجام دیں جن میں انقرہ، استنبول اور ارض روم کی جامعات بھی شامل ہیں۔ آپ 20 سال سے زائد عرصے تک فرانس کے قومی مرکز برائے سائنسی تحقیق سے وابستہ رہے۔
• 1980ء میں جامعہ بہاولپور میں طلباء کو خطبات دیے جنہیں خطبات بہاولپور کے نام سے بعد ازاں شایع بھی کیا گیا۔ یہ سر سید احمد خان کے خطبات احمدیہ کے بعداردو زبان میں تاریخی و تحقیقی مواد کے لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل کتاب ہے۔ خصوصاً ان کا پانچواں خطبہ "قانون بین الممالک ” ایسا موضوع ہے جو عام طور پر دینی درسگاہوں کے طالب علموں کی دسترس سے باہر ہے۔
• پاکستان نے 1985ء میں آپ کو اعلٰی ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا۔ آپ نے اعزاز کے ساتھ ملنے والی تمام رقم (ایک کروڑ کروپیہ) بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارۂ تحقیقات اسلامی کو عطیہ کردی۔ اِس جامعہ کاکتب خانہ (لائبریری) ڈاکٹر حمید اللہ کے نام سے موسوم ہے۔
• آپ 17 دسمبر 2002ء کو امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر جیکسن ول میں انتقال کر گئے۔
مشہور کتابیں
——
ڈاکٹر صاحب کی مشہور کتابیں اور تصانیف کچھ اس طرح سے ہیں۔
——
”تعارف اسلام“ (Introduction of Islam) ڈاکٹر صاحب کی تصنیف کردہ کتب میں اور اسلام کے بارے میں شائع ہونے والی کتب میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس کتاب کا دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : کبریا شخص کبھی وقت کے قانون کو دیکھ
——
قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ اور تفسیر
ڈاکٹر صاحب نے پہلی بار قرآن کریم کا مکمل فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا اور تفسیر لکھی۔ اس ترجمہ اور تفسیر کے قریباً بیس ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔یہ کسی بھی یورپی زبان میں سب سے زیادہ چھپنے والے تراجم میں سے ہے، جو کئی ملین کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے۔ اس فرانسیسی ترجمے اور تفسیر سے بہت سے فرانسیسی اسلام کی طرف راغب ہوئے۔
خطبات بہاولپور
1980 میں 8 مارچ سے 20 مارچ تک بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں ڈاکٹرمحمد حمید اللہ نے 12 دن تک مختلف موضوعات پر لیکچرز دئیے۔ ان لیکچرز میں اسلام کے کچھ بنیادی پہلوؤں اور اس کی ابتدائی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ فی البدیہہ دئیے جانے والے یہ لیکچرز برسوں کی تحقیق اور دوسرے علم کا فی الواقع آسان زبان میں نچوڑ تھے۔ اردو میں سن کر لکھے جانے والے اور خطبات بہاولپور کے نام سے چھپنے والے یہ لیکچرز دوسری کئی چیزوں کے علاوہ اس بات پر مشتمل تھے کہ قرآن و حدیث کو کیسے جمع کیا گیا اور ان کی تدوین کی گئی۔اس کتاب خطبات بہاولپور کا انگریزی میں ترجمہ اسلام کی آمد کے نام سے کیا گیا ہے۔ان لیکچرز یا خطبات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
پہلا خطبہ:تاریخ قرآن
دوسرا خطبہ :تاریخ حدیث
تیسرا خطبہ تاریخ فقہ
چوتھا خطبہ: :تاریخ اصول فقہ و اجتہاد
پانچواں خطبہ: اسلامی قانون بین الممالک
چھٹا خطبہ:دین(عقائد، عبادت، تصوف)
ساتواں خطبہ:عہدِ نبوی میں مملکت اور نظم و نسق
آٹھواں خطبہ:عہدِ نبوی میں نظامِ دفاع اور غزوات
نواں خطبہ:عہدِ نبوی میں نظامِ تعلیم
دسواں خطبہ: عہدِ نبوی میں نظامِ تشریع و عدلیہ
گیارہوں خطبہ: عہدِ نبوی میں نظامِ مالیہ و تقویم
بارہوں خطبہ: عہدِ نبوی میں تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاؤ
صحیفہ ہمام بن منبہ
احادیث کی سب سے اولین کتابو ں میں شامل جو صحیفہ ہمام بن منبہ کے طور پر جانی جاتی ہے جسےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (58 ہجری بمطابق 677 عیسوی) میں اپنے شاگردوں کو پڑھانے کے لیے تیار کیا تھا، اس عظیم دستاویز کو ڈاکتر محمد حمید اللہ نے اس کی تصنیف کے 1300 سال بعد جرمنی میں برلن لائبریری سے دریافت کیا اور شائع کرایا۔ اس دریافت سے بعض لوگوں کا یہ اعتراض بھی ختم ہو گیا کہ احادیث کی تدوین و تالیف نبی کریم کی وفات کے 200 سال بعد ہوئی۔
——
فہرست کتب
——
ڈاکٹر حمید اللہ کے اپنے بقول ان کے مقالوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے جبکہ ان کی تصانیف، تالیفات، ترجموں، نظر ثانی شدہ کتابوں، کتابچوں اور رسائل کی تعداد 164 کے قریب بنتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کی فہرست کچھ اس طرح ہے۔
——
اردو کتب و کتابچے
——
"سلطنتوں کے باہمی برتاؤ کا دستور العمل ۔ قانون بین الممالیک کے اصول اور نظیریں”۔ جلد طبع اول 1936ء، حیدر آباد دکن۔ طبع ثانی 1945ء، حیدرآباد دکن
"عہد نبوی کا نظام تعلیم” ۔ طبع دہم 1976ء، حیدر آباد دکن (اب یہ مختصر کتاب "عہد نبوی میں نظام حکمرانی” کا حصہ ہے)
"عہد نبوی میں نظام حکمرانی” ۔ 1981ء، کراچی
"امام ابو حنیفہؒ کی تدوین قانون اسلامی”۔ 1983ء، کراچی
"عربی حبشی تعلقات اور نو دریافت شدہ مکتوبات نبوی بنام نجاشی” ۔ 1942ء، حیدر آباد
"قانون شہادت”۔ 1944ء، حیدر آباد
"عہد نبوی کے میدان جنگ”، لاہور
"رسول اکرم کی سیاسی زندگی”۔ 1980ء، کراچی
——
یہ بھی پڑھیں : اردو شاعر اور مفسر قرآن حمید نسیم کا یوم ِ پیدائش
——
"صحیفہ ہمام ابن منبہ”، کراچی۔ ملک سنز، فیصل آباد 1983ء، اضافی دیباچہ غلام احمد حریری
"سیاسی وثیقہ جات” (ترجمہ الوثائق السیاسیۃ از ابو یحییٰ امام خان نوشہروی)، لاہور،1960ء
"روزہ کیوں؟” (ترجمہ Why Fast? از محمد حبیب اللہ)، حیدر آباد 1966ء
"خطبات بہاولپور”، اشاعت اول 1981ء، بہاولپور۔ مکمل نظر ثانی شدہ اشاعت، اسلام آباد
"سیرت ابن اسحاق” (ترجمہ از نور الٰہی ایڈوکیٹ)، نقوش رسول نمبر
"سیرت طیبہ پر ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے عثمانیہ یونیورسٹی کے لیکچر” 1987ء، حیدر آباد
"سیرت طیبہ کا پیغام عصر حاضر کے نام”، 1992ء، لاہور
"اخبار الطوال”
"کتاب المجر”
"مقالات گارساں دتاسی”
"خطباتِ گاساں دتاسی”
"نقشہ ہائے تاریخ اسلام”
"مقالہ در "نذر عرشی”” (عنوان مقالہ شمس الائمہ سرخسی)
"مقالہ در "نذر مختار”” (عنوان مقالہ فرانسیسی زبان کی پیدائش میں عربی کا حصہ)
"اسلامی قانون کا ارتقاء” (توسیعی لیکچر)
"رویت ہلال / نیا چاند”
"عیدین اور ان کے منانے کے اسلامی و جاہلی طریقے”
"مدرسۂ محمدی”
آپ کے اردو مقالات کی تعداد 350 سے زائد ہے
آپ نے اردو دائرۂ معارف اسلامیہ کے لیے بھی 32 مضامین تحریر کیے جن میں احد، بدر، حدیبیہ، حلف الفضول، حنین، خندق، خیبر، زینب بنت جحش، طائف، علی بن ابن طالب، عمر ابن الخطاب، عمرو بن امیہ، حضرت محمد، عہد نبوی میں نظم و نسق مملکت، رسول اللہ اکرم بطور مقنن، معرا ج اور یہود جیسے اہم مضامین بھی شامل ہیں۔
——
انگریزی کتب
——
"The battlefields of the Prophet Muhammad”, 3rd Ed. Hyderabad: Habib, 1983
"The Emergence of Islam: lectures on the development of Islamic world-view, intellectual Tradition and Polity”. Islamabad: Islamic research institute in collaboration with Da’wah Academy. International Islamic University, 1993
The First Written Constitution in the World”. 3rd ed. Sh. Muhammad Ashraf, 1975*”
"Sahifah Hammam ibn Munabbih”. 10th ed. Luton: Apex, 1979
"Introduction to Islam”, 5th ed. Luton: Apex 1980
"Islam and Communism: A study in comparative thought”, Lahore: Kazi publications, 1975
"Islam, A general picture”. Chicago: Kazi Publications.1980
"Muhammad Rasulullah”. Hyderabad: Stockists, Habib, 1974
"The Muslim Woman”, Islamabad: International Islamic University, 1989
"The Muslim code of state”. 7th ed. Lahore: Sh. Muhammad Ashraf, 1987
"Why fast? [5] A study of fast in Islam from both spiritual and temporal points of view”, Geneva: Islamic center, 1961.
"The 1400 anniversary of the completion of Islam”. Oxford: Oxford Center for Islamic Studies, 1989
——
عربی کتب و مقالات
——
آپ نے عربی میں 15 کتابیں تحریر کیں۔ جبکہ آپ کے عربی مقالات کی تعداد 35 ہے۔
فارسی کتب و مقالات
آپ نے فارسی میں 6 مقالات تحریر کیے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ پر کتابیں
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی وفات کے بعد ان کے تحقیقاتی کاموں کو دوبارہ شائع کیا گیا۔ انڈیا اور پاکستان کے سکالروں نے اپنی کتابوں میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو شاندار خراج تحسین بھی پیش کیا۔ کچھ رسالوں نے ان پر خصوصی نمبر نکالے۔جن رسائل نے خصوصی نمبر شائع کیے اُن کے نام یہ ہیں۔
معارف اسلامی
دعوہ، فکر و نظر
اورئینٹل کالج میگزین
شاداب
——
یہ بھی پڑھیں : مایہ ناز افسانہ نگار اور ناول نگار اے حمید کا یوم پیدائش
——
ڈاکٹڑ محمد حمید اللہ زندگی اور علمی کاموں پر تین کتابیں بھی لکھی اور شائع کی گئی ہیں جن کے نام یہ ہیں۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ از راشد شیخ
آثارِ ڈاکٹر حمید اللہ از صفدر حسین
مجددِ علومِ سیرت از غتریف شہباز
جن سکالرز نے ان پر مضامین اور تحقیقی مضامین لکھے اور کتابی شکل میں شائع کیے اُن کے نام یہ ہین۔
سید قاسم محمود
محمد عالم مختارِ حق
جن اداروں نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے سامنے اور اُن کے بعد اُن کی کتابیں شائع کی اُن کے نام یہ ہیں۔
المیزان پبلشرز، فیصل آباد
بیکن بکس، ملتان
ان سب کے باوجود ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے سینکڑوں مضامین ایسے ہیں جو بکھرے ہوئے ہیں اور عام قاری کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ان تمام کو جمع اور شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
——
ہم ہوٹل اکادیمیہ کے کمرا نمبر 5 میں بالکل تیار اور منتظر بیٹھے تھے۔ 5بج کر چالیس منٹ پر مغرب کے کچھ ہی دیر بعد، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ محبت، اور احترام واشتیاق کی نظریں ان پر مرکوز تھیں۔ ایک دبلا پتلا اور دھان پان آدمی، اوورکوٹ، مفلر، جناح کیپ سے مماثل سیاہ ٹوپی، ڈاڑھی کے بال زیادہ تر سیاہ …ایک مایہ ناز شخصیت اور قابل فخر انسان، جس کی ساری زندگی خدمت اسلام اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے وقف رہی اور جو بایں پیرانہ سالی آج بھی جوانوں کی طرح، بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر سرگرم عمل ہے۔ علیک سلیک ہوئی۔ چند خیر مقدمی جملوں کے بعد ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ زحمت کرکے یہاں پہنچے ۔ ڈاکٹر صاحب ثقل سماعت کے سبب اونچا سنتے ہیں مگر گفتگو آہستہ آہستہ اور دھیمے لہجے میں کرتے ہیں۔ خیر خیریت اور احوال پر سی کے بعد، ہمارے استفسارات پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا:
’’چالیس سال سے یہاں ہوں …میری شہریت فرانس کی نہیں، حیدرآباد کی بھی نہیں، بے وطن ہوں۔ میرے پاس کسی ملک کا پاسپورٹ نہیں۔ بس ٹریولنگ پیپرز ہیں، جو فرانسیسی حکومت نے دیئے ہیں، ان پر سفر کرتا ہوں۔‘،
سوال:’۔فرانس کی شہریت کے لئے آپ نے کبھی مطالبہ نہیں کیا ؟‘‘
جواب:’’نہیں، معلوم نہیں کیوں ؟ لیکن بہرحال کبھی نہیں کیا۔‘‘
فرانس میں اسلام اور نومسلموں کا ذکر چل نکلا۔ کہنے لگے:
’’جی ہاں، بلامبالغہ میرے ہاتھ پر سیکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہوگا۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ ہیں۔ طلبہ، پروفیسر، عالم فاضل لوگ، کچھ سفیر بھی ، نانبائی بھی اور اگر آپ یقین کریں تو پیرس میں بعض پادری اور نن بھی مسلمان ہوئے ہیں۔ الحمدللہ ان میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہمارے مسلمان ہونے کا اعلان نہ کیا جائے اور اگر ضرورت ہوتو بلا اجازت ہمارا نام نہ دیں۔ ‘‘
مرزاصاحب:’’کیا ان کے بچے بھی مسلمان ہوجاتے ہیں؟‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : پیار کی ہر اک رسم کہ جو متروک تھی میں نے جاری کی
——
جواب: ’’جی ہاں، ان کا فورنیم بھی ہوتا ہے، جو اسلامی ہوتا ہے یعنی عبداللہ، عبدالرحیم وغیرہ، لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ ویسے میں کہتا ہوں کہ بچے ماں باپ کے نگران نقال مقلد ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ اسلام پر عمل کرتے ہیں تو بچے ازخود تقلید کرتے ہیں۔ ان کے بہکنے کا امکان کم ہوتا ہے، لیکن اگر ماں باپ خود عمل نہ کرتے ہوں اور چاہیں کہ بچے اولیاء اللہ بن جائیں تو …‘‘
’’کیا آپ کبھی علامہ اقبال سے بھی ملے؟‘‘
ڈاکٹر حمید اللہ: ’’پہلی بار لاہور آیا تھا تو اقبال زندہ تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ حالت یہ تھی کہ وہ لیٹے رہتے تھے۔ نئے ملاقاتی آتے۔ سلام کرتے، کچھ دیر بعد چلے جاتے۔ اجازت کا کوئی سوال نہ تھا۔ دربار عام تھا۔ اسی طرح میں بھی ایک دوست کے ساتھ ان کے ہاں گیا۔‘‘
پروفیسر محمد منور: ’’ڈاکٹر صاحب یہ کون سے سنہ کی بات ہے؟37ء کی بات ہوگی ؟‘‘
ڈاکٹر حمیداللہ:’’بہت پرانی بات ہے۔ 1932ء کی بات ہوگی۔ اس وقت صحیح طورپر یاد نہیں ہے۔‘‘
پروفیسر محمد منور:’’ان سے کوئی بات ہوئی؟‘‘
ڈاکٹر حمیداللہ:’’بس مختصر سی، میں نے کہا :مجھے قانون سے دلچسپی ہے، فیکلٹی آف لاکا طالب علم ہوں تو کہنے لگے: یہ بڑی اہم چیز ہے، اس میں تلاش اور کوشش جاری رکھو۔ اس وقت ان کے پاس کچھ اور دوست اور رفیق بھی موجود تھے۔ منشی طاہر دین بھی تھے۔‘‘
اسی زمانے میں ڈاکٹر حمید اللہ نے جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کا فرانسیسی ترجمہ کیا تھا۔ گفتگو میں اس کا ذکر بھی آیا۔
راقم نے پوچھا: ’’ڈاکٹر صاحب، یہ ترجمہ آپ نے خود کیا یا فرمائش پر؟‘‘
ڈاکٹر حمیداللہ:’’فرمائش نہیں، بلکہ مجھے خود خواہش تھی۔ میں نے ترجمہ کیا۔ اجازت لی۔‘‘
پروفیسر محمد منور :’’جگن ناتھ آزاد بھی قرطبہ میں آئے ہوئے تھے، وہیں انہوں نے بتایا کہ میری نعت کا ترجمہ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے فرانسیسی میں کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر حمید اللہ:’’جی ہاں، رسول اللہ کے بارے میں ان کی نظم مجھے پسند آئی۔‘‘
پوشیدہ تری خاک میں…
——
حوالہ جات
——
وکی پیڈیا ، تحریر : رفیع الدین ہاشمی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ