مدینہ دیکھ کر دل کو بڑی تسکین ہووے ہے
طبیعت دور بطحا سے بہت غمگین ہووے ہے
مرے دل میں ابھرتا ہے تصور کملی والے کا
مرے ہونٹوں پہ جس دم سورۂ یاسین ہووے ہے
وہی منشورِ دیں ہے جو مرے آقا نے فرمایا
حبیبِ کبریا کی بات ہی آئین ہووے ہے
خیال آتا ہے جس لمحے شہِ کونین کا دل میں
دلِ برباد میں آرائش و تزئین ہووے ہے
بڑی بے آبرو ہووے ہے خلقت در بدر پھر کے
تری چوکھٹ پہ آ کر صاحبِ تمکین ہووے ہے
نبی کا عشق رکھنا اپنے سینے میں حفاظت سے
ہمیشہ ماں کے ہونٹوں پر یہی تلقین ہووے ہے
میں نعتِ مصطفیٰ کے لفظ بنتا ہوں محبت سے
تو پھر اشفاقؔ بے حد نعت کی تحسین ہووے ہے