اردوئے معلیٰ

Search

اک عجب صورت حالات مرے چاروں طرف

دن میں بھی جیسے سیاہ رات مرے چاروں طرف

بے کفن لاشوں کی سوغات مرے چاروں طرف

خون میں غلطاں ہیں آیات مرے چاروں طرف

 

اس برس کیا ہے کہ موضوعِ سخن ملتا نہیں

فکر کی شاخ پہ کیوں پھول کوئی کھلتا نہیں

 

جسم زخموں سے مرا چور ہے کیسے لکھوں

جب قلم لکھنے سے معذور ہے کیسے لکھوں

دل مدینے سے بہت دور ہے کیسے لکھوں

ظُلم یہ وعدۂ جمہور ہے کیسے لکھوں

 

کوئی بتلاؤ ہوا عالمِ اسلام کو کیا

پڑھ نہیں سکتے ہیں ہم اپنے ہی انجام کو کیا

 

وقت کے چہرے پہ لکھی ہے عجب مایوسی

اب دعاؤں میں لگے کرنے طلب مایوسی

زخم ہی زخم عجم سارا عرب مایوسی

مرگِ ملت کا فقط ایک سبب مایوسی

 

فخر صدیوں کا مرا پنجۂ طاغوت میں ہے

روحِ افکار مقید مری تابوت میں ہے

 

مصلحت کیا ہے جو اس ظلم پہ خاموش ہیں سب

موت کے پنجے میں ہیں اس لیئے بے ہوش ہیں سب

خون پیتے ہیں یہ کہنے کو تو مے نوش ہیں سب

حکمراں نشۂ طاقت میں یوں مدہوش ہیں سب

 

پیاس بجھ جائے یہی تیغِ عدو چاہتی ہے

یہ زمیں اور بھلا کتنا لہو چاہتی ہے

 

نصرتِ حق ہو کہاں جذبۂ نصرت ناپید

جبر کے سامنے انکار کی جرات ناپید

ذکر مظلوم کا اور ظلم سے نفرت ناپید

حد تو یہ آلِ محمد سے محبت ناپید

 

نامِ جمہور پہ تخریب کا سامان ہے آج

شہر تو جل گئے روشن مگر ایوان ہے آج

 

جس طرف دیکھئے دہشت کی فضا چھائی ہوئی

جسم ساکت ہوا اور آنکھ ہے پتھرائی ہوئی

اب نہ احساس یہ باقی ہے کہ رسوائی ہوئی

روشنی اپنے ہی سائے سے ہے گھبرائی ہوئی

 

ایسے حالات یزیدوں کو جنم دیتے ہیں

باضمیروں کو مورخ کا قلم دیتے ہیں

 

اسی خاموشی سے ہاں ظلم جنم لیتا ہے

حد سے بڑھ جائے تو انگڑائی قلم لیتا ہے

اور قلم سورۂ رحماں کی قسم لیتا ہے

فاتحِ صبر پھر ہاتھوں میں علم لیتا ہے

 

اب پسینوں سے گلابوں کی مہک اٹھتی ہے

سچ تو یہ ہے کہ شبِ تار چمک اٹھتی ہے

 

اس شبِ تار میں تطہیر کا شعلہ روشن

فکر روشن ہوئی آنکھیں مرا چہرہ روشن

صاف آنکھوں میں نظر آتا ہے جذبہ روشن

اہلِ حق کے لیئے ہر ایک اشارہ روشن

 

اس شبِ تار میں روشن ہوئے ہجرت کے چراغ

خون سے دل کے جلائے ہیں محبت کے چراغ

 

وہ محبت جو ہواؤں میں جلاتی ہے چراغ

وہ محبت جو لگاتی ہے محبت کا سراغ

ماتمی سینوں پہ روشن جوں مودت کے ہوں داغ

وہ دلِ عاشقِ شبیر میں خوشبوؤں کا باغ

 

کربلا میں یہ محبت جو بکھر جاتی ہے

پھر محبت کی بھی معراج نظر آتی ہے

 

ہو محبت تو لگیں سنگ بھی الماس و گہر

مثلِ ماہتاب چمکنے لگیں رُخسارِ سحر

منقبت شان میں شان میں حیدر کی پڑھیں شمس و قمر

اور قلم عجز سے آغاز کرے اپنا سفر

 

یہ وہ آیت ہے جو ہر وقت کا سلطان پڑھے

یہ محبت ہے جو نیزے پہ بھی قرآن پڑھے

 

وہ محبت کہ جسے صبر کی کہہ لیجے اساس

وہ محبت کہ بجھے جس کی فقط نیزے سے پیاس

وہ محبت کی جو پہنے ہے شہادت کا لباس

وہ محبت کہ حقیقت میں جو قرآن شناس

 

اس محبت میں فنا ہو جو وہ جلوہ دیکھے

کربلا والی حقیقت کو سراپا دیکھے

 

فلسفی جذبِ محبت کو قضا کہتے ہیں

صوفیا اس کو حدِ ارض و سما کہتے ہیں

عشق والے اسے جینے کی سزا کہتے ہیں

ہم علی والے محبت کو خدا کہتے ہیں

 

حُر کے دل میں جو اتر جائے تو ایمان بنے

آ کے شبیر کے ہونٹوں پہ یہ قرآن بنے

 

یہ محبت ہے جو ہر ناز و ادا پر بھاری

نطقِ داؤد پہ موسیٰ کے عصا پر بھاری

تاجِ شاہی پہ فقیہوں کی قبا پر بھاری

ہاں غلط یہ بھی نہیں ارض و سما پر بھاری

 

معتبر حشر کے دن ہو گی گواہی اس کی

صبح کے ماتھے پہ اک نور سیاہی اس کی

 

غالب و مومن و شبلی و انیس و رومی

خسرو و حافظ و خیام و دبیر و سعدی

جوش و فردوسی و عطار و جنید و کلبی

کُشتہ و ذوق و مسیحا و رئیس و مصحفی

 

یہ وہ ہیں جنہوں نے ہر لفظ محبت لکھا

اور محبت کو ہی ا لفاظ کی طاقت لکھا

 

اس محبت کو فرشتے بھی پڑھیں مثلِ درود

یہ محبت ہے وہ در جس پہ مَلَک سر بسجود

اس محبت کا یہ اعجاز کہ شاہد مشہود

اس محبت کا تقاضہ ہے کہ پابندِ حدود

 

اس محبت نے شہادت کا جو اعلان کیا

سچ تو یہ عرش پہ اللہ کو حیران کیا

 

اس محبت کا ہے اعجاز اطاعت کے چراغ

کربلا میں ہوئے روشن جو شہادت کے چراغ

خون سے اپنے جلائے ہیں محبت کے چراغ

ظلم در پہ تھا بجھا دے وہ شریعت کے چراغ

 

اک بڑا حملہ محبت پہ جو اغیار کا تھا

سب کا سب معرکہ قرآن سے انکار کا تھا

 

کربلا والے محبت کو بچانے نکلے

ایک شبیر نہیں ساتھ زمانے نکلے

نصرتِ حق کے دیئے خوں سے جلانے نکلے

نوکِ نیزہ پہ وہ قرآن سنانے نکلے

 

جبر کا معرکہ تھا صبر کے معیار کے ساتھ

جنگ تھی آلِ محمد کے یہ کردار کے ساتھ

 

کربلا جنگ تھی طاغوت و جہالت کے خلاف

بے عمل ظالم و جابر کی قیادت کے خلاف

تھا حکومت کا ہر اک کام شریعت کے خلاف

ایسے حالات تھے سب دیں سے محبت کے خلاف

 

دیں کی نصرت کو جو اللہ کے بندے نکلے

باندھ کر سر پہ کفن دشت میں بچے نکلے

 

فاطمہ زہرا کے لو گود کے پالے نکلے

یوں لگا جیسے محبت کے صحیفے نکلے

ساتھ بچوں کے جواں نکلے تو بوڑھے نکلے

جس طرح تیغِ برہنہ سے ہوں شعلے نکلے

 

آنکھ میں اب جو ذرا ذوقِ ہنر آ جائے

کربلا سامنے آنکھوں کے نظر آ جائے

 

کربلا مہرِ محبت ترا ذرہ ذرہ

تشنگی اب بھی بھٹکتی ہے یہاں پر ہر جا

چاند زہرا کا تری خاک پہ پیاسا تڑپا

کربلا اب بھی ترے ساتھ ہے تشنہ دریا

 

آج بھی کرب و بلا ظلم کی مرقد کا نشاں

خاکِ اکسیر ہے یہ صبر کی سرحد کا نشاں

 

ہاں وہ اصغر کہ تھا ہتھیار تبسم جس کا

طاقتِ جور و ستم سے تھا تصادم جس کا

اک بڑا حملہ تھا خاموش تکلم جس کا

آج بھی جن و ملک کرتے ہیں ماتم جس کا

 

اُسی اصغر کے تبسم نے بقا پائی ہے

کیسی چھ ماہ کے بچے نے ادا پائی ہے

 

دشتِ غربت میں فلک نے یہ تماشہ دیکھا

سامنے پیاسوں کے طاقت کا وہ دریا دیکھا

دم گھُٹا وقت کا اور نبض کو ٹھہرا دیکھا

یہ بہتر تھے وہاں فوجوں کو صف آرا دیکھا

 

طے یونہی مرحلۂ تیغ و گلو ہونے لگا

عصر کا وقت تھا اور خوں سے وضو ہونے لگا

 

وہ جو ہم شکلِ پیمبر تھا تمدن کا شباب

حُسنِ اکبر کے بیاں پر ہو تصدق مہتاب

ہاں حصار اسکا کیئے رہتی تھی خوشبوئے گلاب

فرش پر عرش سے اُتری وہ محبت کی کتاب

 

جس نے دریائے تکلم کو روانی بخشی

جس نے تا حشر اذانوں کو جوانی بخشی

 

صبحِ عاشور میں اکبر کی اذان کی آواز

نکتۂ جنگ کا ٹھہرا یہی لمحہ آغاز

تیر چلنے لگے دشمن کے کھُلا جبر کا راز

جان دینے کو تھے آمادہ یہاں اہلِ نماز

 

وہ گھڑی آلِ محمد پہ بہت سخت ہوئی

اک سنان سینۂ اکبر میں جو پیوست ہوئی

 

بعدِ اکبر علی اصغر کا یزیدوں سے خطاب

شیر خواری میں بھی بچے نے دکھایا وہ شباب

تیرِ حُرمل کا دیا خشک گلے سے یوں جواب

کھِل گئے ہونٹوں پہ اصغر کے لہو رنگ گلاب

 

خون حُرمل نے بظاہر علی اصغر کو کیا

سچ کہوں قتل مگر فکرِ پیمبر کو کیا

 

خونِ بے شیر ملا شہ نے رُخِ انور پر

ہر طرف نوحہ کُناں سینہ زناں جن و بشر

لاش ہاتھوں پہ تھی معصوم کی حیران پدر

آ کے خیمے میں کہا مادرِ اصغر ہو کدھر

 

علی اصغر تمہیں ملنے کے لیئے آیا ہے

خونِ ناحق نے ترے بچے کو مہکایا ہے

 

عصر کے وقت میں اب ہو گئے تنہا شبیر

تشنگی ہونٹوں پہ اور صبر کا دریا شبیر

سامنے لشکرِ بے دیں کے صف آرا شبیر

اسکے سانسوں کی ابھی تک ہے ہوا میں تاثیر

 

رُخ پہ شبیر کے جس پیاس سی لہراتی ہے

شرم سی کوثر و تسنیم کو آ جاتی ہے

 

عصر کے وقت میں ہے سوئے فلک شہ کی نظر

اب نہ عباس نہ اکبر ہیں نہ اصغر سا پسر

دن ڈھلا پھیل گئی دشتِ ستم میں یہ خبر

لُٹ گئے آلِ نبی ختم محمد کا ہے گھر

 

ارضِ کربل جوں سمندر کا بھنور لگنے لگی

عصر عاشور قیامت کی سحر لگنے لگی

 

عرش پہ جن و ملک نے کہا انا اللہ

تشنہ لب مارا گیا فاطمہ کا نورِ نگاہ

خون سے سرخ زمیں ہو گئی تاریخ سیاہ

نوکِ نیزہ کی بلندی پہ محبت کا گواہ

 

سر کو معراج تلاوت کو صدا حاصل ہے

خونِ ناحق سے محبت کو بقا حاصل ہے

 

تھی زمیں لرزے میں اور اہلِ فلک نوحہ کُناں

وہ قیامت تھی کہ ہو روزِ قیامت حیراں

دشتِ پُر ہول میں جاری تھا غضب کا طوفاں

رُک گیا سانس مشیت کا جو بکھرا قرآں

 

سر قلم ہو گئے پر آلِ نبی جیت گئی

جبر کی موت ہوئی تشنہ لبی جیت گئی

 

خونِ شبیر کی سورج میں چمک آج بھی ہے

ہر سو پھیلی وہ محبت کی دھنک آج بھی ہے

خونِ اصغر کی ہر اک گُل میں مہک آج بھی ہے

کربلا قصر سلاطیں میں دھمک آج بھی ہے

 

معنیِ قلت و کثرت کو بدل دیتی ہے

کربلا تخت کو پاؤں میں مسل دیتی ہے

 

اب قلم روک لو صفدر کہ ہوا وقتِ سحر

خالقِ کون و مکاں سے یہ کہو رو رو کر

نفرتیں ختم ہوں مولا یہ محبت ہو اَمَر

دیں حسین ابنِ علی مرثیہ لکھنے کا ثمر

 

ہو جو توفیق تو مظلوم کو طاقت لکھوں

اس قلم سے میں سدا لفظِ محبت لکھوں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ