مری آنکھوں پہ حلقے پڑ گئے ہیں
یہ سائے اور گہرے پڑ گئے ہیں
کسی کے ہاتھ پیلے کرتے کرتے
سنا ہے رنگ پیلے پڑ گئے ہیں
دکھوں کا اور کوئی بھی نہیں ہے ؟
مرے پیچھے کمینے پڑ گئے ہیں
دلِ ویران اک کمرہ ہے جس میں
بڑی مدت سے تالے پڑ گئے ہیں
میں ان ہاتھوں کے صدقے جاؤں جن پہ
مشقت کر کے چھالے پڑ گئے ہیں
بچھڑ جانے کے دکھ پہ مر ہی جاتی
مگر پاؤں دلاسے پڑ گئے ہیں
وہ مجھ سے اور نالاں ہوگیا ہے
مرے تعویذ الٹے پڑ گئے ہیں