مسافت کو خوشی سے دلبری کے نام کرتے ہیں
مدینے کے جو راہی راستوں میں شام کرتے ہیں
دیارِ بخت میں جب بھی ہوائے رنج آتی ہے
تو ذکرِ شاہ سے ہم چارہِ آلام کرتے ہیں
نفاق و جہل کے موسم میں تیرے آستانوں کے
غلاموں کا یہ شیوہ ہے محبت عام کرتے ہیں
کمالِ سروری ہے وہ تمہارے تین سو تیرہ
نہتے ، لشکرِ جرّار کو ناکام کرتے ہیں
علاقہ اَوج کو بھی ہے ترے کارِ غلامی سے
جو سلطاں کر نہیں سکتے ترے خُدّام کرتے ہیں
کلاہِ قیصری رکھتے ہیں وہ پیروں کی ٹھوکر میں
جو عاشق دو جہاں تیری گلی کے نام کرتے ہیں
جہاں ذوقِ اسیری خار ہو شاخِ جہالت کا
وہاں نوکر ترے، زنجیر کو گلفام کرتے ہیں
ہمیں فرقہ پسندی میں الجھنا ہی نہیں ہم تو
نبی کی نعت پڑھتے ہیں مبارک کام کرتے ہیں