اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار محترمہ بانو قدسیہ کا یوم وفات ہے۔

بانو قدسیہ(ولادت: 28 نومبر 1928ء – وفات: 4 فروری 2017ء)
——
بانوقدسیہ بھی اپنے اشفاق احمد کے پاس چلی گئیں، 88 سال کی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد بانو قدسیہ کا 4 فروری 2017 کو لاہور میں انتقال ہوا اور وہ اپنے شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئیں، بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروزپور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئیں۔ ان کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارن میں ڈائریکٹر تھے اور ان کا انتقال 31 سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 اور بانو قدسیہ کی ساڑھے تین سال تھی۔
بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے فیروز پور ہی میں حاصل کی، انھیں بچپن ہی سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انھوں نے باقاعدہ لکھنے کا آغازکیا۔ انھوں نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا اور 1949 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔اشفاق احمد ان کے ہم جماعت تھے۔ دونوں کی مشترکہ دلچسپی ادب پڑھنا اور لکھنا تھا۔ دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ کی شادی اشفاق احمد سے ہوگئی۔ بقول بانو قدسیہ ’’شادی کے بعد مفلسی نے ہم میاں بیوی کو لکھنا پڑھنا سکھا دیا تھا۔‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : اشفاق احمد کا یوم پیدائش
——
مزید کہتی ہیں کہ ’’میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقتیکہ میری شادی نہیں ہوگئی، پھر اشفاق احمد میرے بڑے معاون و مددگار بلکہ استاد ہوئے، اس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا بلکہ کئی دفعہ اشفاق صاحب نے میری حوصلہ افزائی اور حوصلہ شکنی بھی کی اور میری کئی باتوں پر تو خوش بھی ہوئے۔ زندگی کے آخری لمحات تک ان کا رویہ استاد ہی کا رہا، میں انھیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی، آج میں جوکچھ بھی ہوں وہ اشفاق احمد کی وجہ سے ہی ہوں۔‘‘
دونوں لکھاری اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے ،انھوں نے ایک ادبی رسالے داستان گوکا اجرا کیا، ریڈیو اور ٹی وی پر نصف صدی سے زائد عرصے تک حرف وصوت کے اپنے رنگ جماتے رہے، ریڈیو پر انھوں نے 1965 تک لکھا، پھر ٹی وی نے انھیں بے حد مصروف کردیا۔ بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے سیریل اور طویل ڈرامے تحریرکیے جن میں دھوپ جلی، خانہ بدوش،کلو اور پیا نام کا دیا جیسے ڈرامے شامل تھے۔اس صاحب علم وقلم جوڑے کے لکھے ہوئے ان گنت افسانوں، ڈراموں، ٹی وی سیریل اور سیریزکی مشترکہ کاوش سے ان کا گھر ’’داستان سرائے‘‘ تعمیر ہوا جس کے دروازے ہر ادنیٰ اور اعلیٰ کے لیے کھلے رہتے اورگھر میں ملازم ہونے کے باوجود دونوں میاں بیوی مہمان نوازی کے فرائض خود انجام دیتے۔
بانو قدسیہ نے افسانوں، ناولز، ٹی وی وریڈیو ڈراموں سمیت نثرکی ہرصنف میں قسمت آزمائی کی۔ 1981 میں شایع ہونے والا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ ان کی حقیقی شناخت بنا۔جنھوں نے راجہ گدھ پڑھا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کس اعلیٰ معیار کا ناول ہے۔اس ناول کے 30 سے زائد ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ یہ ناول اسلامی روایات کے عین مطابق معاشرتی مسائل کا ایسا خوبصورت تجزیہ ہے جو بالآخر حلال حرام کا ایسا لازوال ولاجواب فلسفہ پیش کرتا ہے جو درحقیقت ہمارے اسلامی معاشرے میں ایک مثالی اورخوبصورت زندگی کی اصل اساس ہے اوردرست معنوں میں فکر انسانی کی بالکل صحیح سمت میں رہنمائی کرتے ہوئے پوری خوبی کے ساتھ رخ متعین کرتا ہے۔
بانوقدسیہ کی نظر سے اس فکرکا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ’’مغرب کے پاس حلال وحرام کا تصور نہیں اور میری تھیوری یہ ہے کہ جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینزکو متاثرکرتا ہے، رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے، جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈئیشن سے زیادہ مہلک ہے، رزق حرام سے جو چیز تغیر پذیر ہوتی ہے وہ لولے لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ ناامید بھی ہوتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : بانو قدسیہ کا یوم وفات
——
نسل انسانی سے جب یہ نسل در نسل ہم میں سفرکرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہین پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ لہٰذا راجہ گدھ کا حقیقی پیغام یہی ہے کہ رزق حرام ایک نسل تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ کینسر کی طرح اگلی نسلوں میں بھی پھیلتا چلا جاتا ہے، یہ مامتا بھری آپا کا وہ پیغام ہے جو پوری قوم کے نام ہے۔
راجہ گدھ لکھنے کا خیال بانو قدسیہ کوکیوں آیا؟ ایک ہندو بچہ جو ان کے گھر ملازم تھا اس نے پوچھا کہ ’’دین اسلام میں ایسا کیا انوکھا ہے جو دوسرے مذاہب میں نہیں؟ بانو قدسیہ نے جواب دیا کہ اچھی چیزوں کی جانب بلانا اور برائی سے روکنا۔اس بچے نے کہا کہ اس بات کی تو ہر مذہب دعوت دیتا ہے۔
بانو قدسیہ نے سوچا اور اس بات کا نتیجہ نکالا کہ اسلام میں حرام حلال کی منطق ایک ایسی چیز ہے جو کسی اور مذہب میں اتنی نہیں پائی جاتی اوراسی بات کو موضوع بناکر انھوں نے راجہ گدھ لکھا۔ یہ لاہور کی ثقافت اور معاشرے کا عکاس بھی ہے۔ راجہ گدھ کا مطلب ہے گدھ کا راج۔ اس ناول میں معاشرے کے ایسے لوگوں اور ایسے پہلوؤں سے پردہ اٹھایا گیا جو سچ مچ ایک گدھ کا راج ہی بنے ہوئے ہیں۔ جو معاشرے اور مذہب کی حدود سے نکل کر حلال چھوڑ کر مردار کھانے پر مجبور ہوچکے ہیں اور اس بات کا انھیں احساس بھی نہیں،کچھ لوگوں نے راجہ گدھ کو پڑھ کر خیال کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ بانو قدسیہ کے بجائے اشفاق احمد نے لکھا ہے لیکن اشفاق احمد نے اس بات کا بہت تحمل سے جواب دیا کہ ’’یہ شاہکار بانو قدسیہ جیسی عورت کا ہی ہے جو گھرگرہستی کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلم کو بھی قائم رکھتی ہے۔‘‘
ممتاز مفتی اپنے افسانے ’’پتی بھگتی‘‘ میں بانو قدسیہ کا تعارف یوں کراتے ہیں کہ ’’آپ بانو کو جانتے ہیں چونکہ وہ مصنفہ ہیں قدسیہ کو نہیں جانتے، جو فرد ہے، میں قدسیہ کو جانتا ہوں ، بانو کو نہیں جانتا، بانو قدسیہ کو غالباً کوئی بھی نہیں جانتا، اس لیے کہ بانو قدسیہ ایک نہیں دو افراد ہیں، بانو قدسیہ کی شخصیت کے دو پہلو ہیں، الگ الگ۔ ایک بانو، دوسرا قدسیہ۔ قدسیہ جاٹ ہے، بانو بے ذات ہے، بانو ذہن ہے قدسی دل ہے، پہلی بار میں نے بانو کو سنا ’’افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی، میں حیرت سے سن رہا تھا، تب مجھے پتا چلا بانو کون ہے۔‘‘
بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول کہانیاں اور ڈرامے لکھے، راجہ گدھ کے علاوہ بازگشت، دوسرا دروازہ، امربیل، تمثیل، حاصل گھاٹ اورتوجہ کی طالب قابل ذکر ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 2003 میں ’’ستارہ امتیاز‘‘ اور 2010 میں ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا۔ اس کے علاوہ ٹی ڈراموں پر بھی انھوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اشفاق احمد کا یوم وفات
——
اشفاق احمد کے انتقال کے بعد بانو قدسیہ اپنے آخری ایام میں تقریباً گوشہ نشین ہوگئی تھیں بہت کمزورہوگئی تھیں گھر سے کم ہی نکلتی تھیں، بہت ضروری کہیں جانا ہوتا تو ان کے ہونہار بیٹے انیق اور اثیر وہیل چیئر پر انھیں لے جاتے، ان کے انتقال سے اردو ادب کا ایک شاندار باب بند ہوگیا، یکے بعد دیگرے سبھی روشن چراغ بجھتے جا رہے ہیں ۔ قرۃ العین حیدر،انتظار حسین، عبداللہ حسین، اشفاق احمد اور اب بانو قدسیہ بھی اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے جانے کے بعد ’’داستان سرائے‘‘ خاموش اور سونا سونا ہوگیا تاہم اس کی داستانیں ہمیشہ زندہ رہیں گی ان کی گونج ہمیشہ سنائی دے گی۔
——
چند اقتباسات
——
آپ بانو کو جانتے ہیں چونکہ وہ مصنفہ ہے – قدسیہ کو نہیں جانتے جو فرد ہے- میں قدسیہ کو جانتا ہوں بانو کو نہیں جانتا- بانوقدسیہ ایک نہیں دوافراد ہیں جس طرح کسی کسی بادام میں دومغز موجود
——
ہوتے ہیں- اسی طرح بانوقدسیہ کی شخصیت کے دو پہلو ہیں الگ الگ – ایک بانودوسری قدسیہ-
میں بانوقدسیہ سے واقف نہیں لہذا اس کی شخصیت قلم بند کرنے سے قاصر ہوں- صرف یہی نہیں کہ
واقف نہیں سچی بات ہے میں اس سے واقف ہونا ہی نہیں چاہتا میں ہی نہیں اس کے گھرمیں بھی کوئی
اس سے واقف نہیں نہ اشفاق ، نہ نوکی ، نہ سیری ، نہ کیسی کوئی بھی بانوسے واقف نہیں ہونا چاہتا-
گھرمیں تین مظلوم رہتے ہیں – بانو، قدسی اوراشفاق احمد – بانو کو قدسی جینے نہیں دیتی ، قدسی کو
اشفاق جینے نہیں دیتا، اشفاق احمد کو خود اشفاق احمد جینے نہیں دیتا- اشفاق احمد پٹھان ہے
قدسیہ جاٹ ہے ، بانوبے ذات ہے- اشفاق براہمن ہے، قدسیہ شودہرہے ، بانوہاری ہے شہد کی مکھی ہے- قدسیہ پروانہ ہے ، اشفاق بھڑہے- بانوذہن ہے قدسی دل ہے، اشفاق ذہن ہے-
بانوکے فکرمنزل ہے ، قدسی کے لیے پتی بھگتی ہے ، اشفاق کے لیے ذات منزل ہے
قدسی کی شخصیت کا جزواعظم پتی بھگتی ہے- اگرآپ پتی بھگتی کا مفہوم سمجھنا چاہتے ہیں تو
میرا مخلصانہ مشورہ ہے چند روز اشفاق احمد کے گھرمیں قیام کیجیے-
اگراشفاق احمد قدسی کی موجودگی میں برسبیل تذکرہ آپ سے کہے کہ اس گھر میں تو سامان کے انبارلگے ہوئے ہیں میرا تو دم رُکنے لگا ہے تو اگلے دن گھر میں چٹائیاں بچھی ہوں گی اور پیڑھیاں دھری ہوں گی- اگرکسی روز لاؤڈ تھنکنگ کرتے ہوئے اشفاق کہے بھئی چینی کھانوں کی کیابات ہے تو چند دنوں میں کھانے کی میز پرچینی کھانے یوں ہوں گے جیسے ہانگ کانگ کے
کسی ریستوران کا میز ہو-
ایک دن اشفاق کھانا کھاتے ہوئے کہے کہ کھانے کا مزہ تو تب آتا تھا جب اماں مٹی کی ہانڈی میں
پکاتی تھیں- اگلے روز قدسی کے باورچی خانے میں مٹی کی ہاںڈیا چولہے پردھری ہوگی-
پہلی مرتبہ میں نے بانو کو سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا امی ایڈیٹر صاحب آپ سے
ملنے آئے ہیں قدسی ڈرائینگ چلی گئی-
پھرڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کررہی تھی – افسانوں کی باتیں- کرداروں کی باتیں- مرکزی خیال
اندازِ بیان کی خصوصیات کی باتیں- ان باتوں میں فلسفہ ، نفسیات اورجمالیات تھی-
میں حیرت سے سن رہا تھا-اللہ اندر توقدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کررہی ہے- قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں ، جی ہاں ہے اگرمگر، چونکہ ، چنانچہ کون ہے
تب مجھے پتہ چلا بانوکون ہے-
(ممتازمفتی کی بانوقدسیہ کے بارے تحریر سے ایک اقتباس )
——
کرنیل کور کے ہونٹ بغیر ہلے کہہ رہے تھے
"یا رسول اللہ تیرے درپہ آئے ہوئے لوگوں کے لیے تیرے پیاروں نے دروازے کیوں بند کررکھے ہیں- مجھے اس بات کا رنج نہیں کہ سوڈھی سرداروں کی لڑکی تیلی سے بیاہی جارہی ہے
——
یہ بھی پڑھیں : شہر بانو کے لیے ایک نظم
——
میں توپوچھتی ہوں کتنے سوبرسوں میں ایک نومسلم مسلمان ہوجاتا ہے – کلمہ پڑھنے کے بعد
مسلمان کہلانے کے لیے کتنے برسوں کی کھٹالی میں رہنا پڑتاہے”
کتنے سال —- کتنے سوسال ؟
(بانوقدسیہ کے افسانے کتنے سوسال سے اقتباس)
——
قاسم فردوس نے دیوار پر آویزاں دارالشکوہ کے قطعے پر نظریں جمائے کھڑاتھا – نہ جانے وہ سوچوں کی کن منزلوں میں تھا
یک ذرہ ندیدیم ازخورشید جدا
ہرقطرہ آب ہست عین دریا
حق رابچہ کس بتواندن؟
ہرنام کہ ہست است ازاسمائےخدا
کچھ سال پہلے وہ لندن کی انڈیا لائبریری میں دارالشکوہ کی جمع کردہ تصویروں کے البم سے متعارف ہواتھا- تب اس کے دل میں دارالشکوہ کے لیے
عجیب جذبات نے جنم لیاتھا- ہمیشہ سے مغل بادشاہوں کے متعلق دورُخے رویے کا شکاررہا تھا
جب کبھی ان کے متعلق سوچتا اس کے دل میں محبت ونفرت کا دوہراچکرچلنے لگتا
دارالشکوہ کی شخصیت پر اگرصوفی کا اطلاق ہوتا تھا تو ساتھ ہی بادشاہت کے نبردآزما ہونے کا چارج بھی تھا
بھلا کسی صوفی کا بادشاہت سے کیا سروکار؟ کوئی صوفی ملکیت کا دعویٰ دار کب ہواتھا-
کیا آبائی وطن سے دوری نے مغل شہزادوں کوایسا منقسم کیا کہ وہ کبھی بھی یکجائی اختیار نہ کرسکے؟
بکھرے ہوئے شہزادوں میں دارالشکوہ سب سے زیادہ ذات کے خنجرسے خودکشی کرنے والاتھا
اسے اورنگزیب سے کم اپنے وجود سے زیادہ تکلیف پہنچی تھی- وہ ایک ذات میں کئی روپ اکٹھے کرکے سب کی الگ الگ پرورش کرتا رہا-
قاسم فردوس نے پرگنہ باڑی کے اس صوفی کے متعلق سوچا جس سے دارالشکوہ کو والہانہ عقیدت تھی اوراسے اپنا نام یہ کہہ کر نہ بتاتا تھاکہ
ہرنام خدا کے ناموں میں سے ہے توپھراپنے نام سے کیا شناخت پیدا ہوگی؟
——
جب پانی کا قطرہ سمندرہے تو پھر اس کا نام کیا معنی رکھتا ہے؟
قاسم فردوس نے سوچا ” اصل درالشکوہ کون تھا؟”
(آخرمیں ہی کیوں؟ سے اقتباس)
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ