اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف ادیب، نقاد اور شاعر ڈاکٹر انور سدید کا یومِ وفات ہے۔

ڈاکٹر انور سدید(پیدائش: 4  دسمبر 1928ء – وفات: 20 مارچ 2016ء)
——
نامور ادیب، صحافی ڈاکٹر انور سدید 4 دسمبر 1928ء کو ضلع سرگودھا کے دور افتادہ قصبہ مہانی میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے عام سکولوں میں حاصل کی۔میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ ان کا رجحان ادب کی طرف تھا لیکن والدین سائنس کی تعلیم دلا کر انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ اس دور میں اسلامیہ کالج لاہور میں تحریک پاکستان کی سرگرمیاں زور پکڑ چکی تھیں، انور سدید بھی ان میں شرکت کرنے لگے اور ایف ایس سی کا امتحان نہ دیا۔ اس وقت ان کے افسانے رسالہ بیسوی صدی، نیرنگ خیال اور ہمایوں میں چھپنے لگے تھے۔ عملی زندگی کی ابتدا محکمہ آبپاشی میں لوئر گریڈ کلرک سے کی۔بعد ازاں گورنمنٹ انجینئرنگ سکول (منڈی بہاؤ الدین) میں داخل ہو گئے۔
اگست1948ء میں اول آنے اور طلائی تمغہ پانے کے بعد اری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں سب انجینئر کی ملازمت پر فائز ہو گئے۔ یہاں انہوں نے ناآسودگی محسوس کی تو دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دئیے۔ ایم سے فرسٹ کلاس حاصل کی اور خارجہ طلبہ میں ریکارڈ قائم کیا۔
انور سدیدنے’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کے نگران راہنما وزیر آغا تھے، پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر شمس الحسن صدیقی کو ان کا ممتحن مقرر کیا۔دونوں نے ان کے مقالے کو نظیر قرار دیا جو آئندہ طلبہ کو راہنمائی فراہم کر سکتا تھا۔ ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ کےاب تک نو اڈیشن چھپ چکے ہیں -اس دوران انور سدید نے انجینئرنگ کا امتحان اے ایم آئی، انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر ڈھاکا سے پاس کیا۔
محکمہ آبپاشی پنجاب سے ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے سے 60 برس کی عمر پوری ہونے پر دسمبر 1988ء میں ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ ‘‘ہفت روزہ’’زندگی‘‘ روزنامہ ’’خبریں‘‘ لاہور میں چند سال کام کرنے کے بعد وہ ملک کے نظریاتی اخبار’’نوائے وقت‘‘ کے ادارے میں شامل ہو گئے، اس ادارے سے انہوں نے’’دوسری ریٹائرمنٹ‘‘جولائی2003ء میں حاصل کی لیکن مجید نظامی چیف ایڈیٹر’’نوائے وقت ‘‘ نے انہیں ریٹائر کرنے کی بجائے گھر پر کام کرنے کی اجازت دے دی ۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ سلسلہ آخر دم تک قائم رہا – تنقید، انشائیہ نگاری، شاعری اور کالم نگاری ان کے اظہار کی چند اہم اصناف ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر شمس العلماء امداد امام اثر کا یوم پیدائش
——
ڈاکٹر انور سدید نے اپنے بچپن میں ہی ادب کو زندگی کی ایک بامعنی سرگرمی کے طور پر قبول کر لیا تھا، ابتدا بچوں کے رسائل میں کہانیاں لکھنے سے کی، افسانے کی طرف آئے تو اس کے دور کے ممتاز ادبی رسالہ’’ہمایوں‘‘ میں چھپنے لگے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے’’اوراق‘‘ جاری کیا تو انہیں تنقید لکھنے کی ترغیب دی اور اپنے مطالعے کو کام میں لانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے رسالہ’’اردو زبان‘‘ سرگودھا کے پس پردہ مدیر کی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ’’اوراق‘‘ کے معاون مدیر کی حیثیت میں بھی کام کیا۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘، روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘، ’’مشرق‘‘، ’’حریت‘‘، ’’امروز‘‘، ’’ زندگی‘‘، ’’قومی زبان‘‘اور ’’خبریں ‘‘ میں ان کے کالم متعدد ناموں اور عنوانات سے چھپتے رہے۔ ’’دی سٹیٹسمن‘‘اور ’’دی پاکستان ٹائمز‘‘میں انگریزی میں ادبی کالم لکھے۔ انہیں تعلیمی زندگی میں تین طلائی تمغے عطا کیے گئے۔ ادبی کتابوں میں سے ’’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘‘، ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘اور ’’اردو میں حج ناموں کی روایت‘‘پر ایوارڈ مل چکے ہیں۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے انہیں بہترین کالم نگار کا اے پی این ایس ایوارڈ عطا کیا۔ 2009 میں ادبی خدمات پر صدر پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا .
جناب انور سدید نے 88 کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں، چند کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:
1۔’’فکرو خیال‘‘، 2۔’’اختلافات‘‘، 3۔ ’’کھردرے مضامین‘‘، 4۔’’اردو افسانے کی کروٹیں‘‘، 5۔’’موضوعات‘‘، 6۔ ’’بر سبیل تنقید‘‘، 7۔’’شمع اردو کا سفر‘‘، 8۔’’نئے ادبی جائزے‘‘، 9۔‘’’میر انیس کی اقلم سخن‘‘، 10۔’’محترم چہرے‘‘، 11۔’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، 12۔’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘، 13۔’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘، 14۔’’اردو ادب میں سفر نامہ‘‘، 15۔’’اردو ادب میں انشائیہ‘‘، 16۔’’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘‘، 17۔ ’’اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش‘‘،18۔’’?‘‘، 19۔’’ غالب کے نئے خطوط‘‘، 20۔’’ دلاور فگاریاں‘‘، 21۔’’ قلم کے لوگ‘‘، 22۔’’ادیبان رفتہ‘‘، 23۔’’آسمان میں پتنگیں‘‘، 24۔’’دلی دور نہیں‘‘، 25۔ ’’ادب کہانی 1996ء‘‘، 26۔’’ادب کہانی 1997ء‘‘، 27۔’’اردو افسانہ: عہد بہ عہد‘‘، 28۔’’میر انیس کی قلمرو‘‘، 29۔’’ وزیر آغا ایک مطالعہ‘‘، 30۔’’ مولانا صلاح الدین احمد، فن اور شخصیت‘‘، 31۔’’حکیم عنایت اللہ سہروردی، حالات و آثار‘‘۔ 32۔ ’’ جدید اردو نظم کے ارباب اربعہ‘‘، 33۔’’کچھ وقت کتابوں کے ساتھ‘‘، 34۔’’مزید ادبی جائزے‘‘۔
ڈاکٹر انور سدید کی چند کتابوں مثلاً ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، ’’اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش‘‘،’’ اردو ادب میں سفر نامہ‘‘،’’ پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘، ’’اردو ادب میں انشائیہ‘‘ کو موضوع کے اعتبار سے اولین تصنیف ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ انور سدید ان دنوں ’’نوائے وقت‘‘ سنڈے میگزین میں کتابوں پر تبصرے بھی لکھتے رہے ہیں۔ 2003ء میں انہوں نے ایک سال میں 225کتابوں پر تبصرے لکھ کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔
انور سدید کے فن اور شخصیت پر پروفیسر سید سجاد نقوی نے ایک کتاب’’گرم دم جستجو‘‘ شائع کی ہے۔ رسالہ ’’اوراق‘‘، ’’تخلیق‘‘، ’’ارتکاز‘‘، ’’جدید ادب‘‘، ’’کوہسارجرنل‘‘، ’’ چہارسو‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ میں ان پر گوشے چھپ چکے ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید کی بیشتر کتابیں کالج اور یونیورسٹی طلبا کے علاوہ اعلیٰ ملازمین کے مقابلے کے امتحانوں میں شریک ہونے والوں کی معاونت کرتی ہیں اور کئی یونیورسٹیوں کے اردو نصاب میں شامل ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہمارے آقا، ہمارے رہبر حضور انور حضور انور
——
وہ ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی کو اپنا محسن تصور کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ان دونوں نے انہیں ہمیشہ متحرک رکھا ہے۔
مختلف تحقیقی و تخلیقی جہتوں کے حامل ڈاکٹر انور سدید 20 مارچ 2016 کو 88 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔
——
کاظم جعفری صاحب کا انور سدید صاحب سے لیا گیا انٹرویو
——
کاظم جعفری: ڈاکٹر صاحب کچھ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں آگاہ فرمائیں؟
ڈاکٹرانور سدید: 4دسمبر1928 کو سرگودھا کے ایک نواحی قصبہ میانی میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ 1944 میں ایف ایس سی کے لیے اسلامیہ کالج لاہورمیں داخلہ لیا لیکن تحریک پاکستان میں سرگرمیوں کی وجہ سے امتحان نہ دے سکا۔ گورنمنٹ انجینئرنگ سکول منڈی بہاؤالدین سے سول انجینئرنگ کا ڈپلوما اوّل بدرجہ اوّل میں گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کیا اور محکمہ آبپاشی پنجاب میں ملازمت اختیار کی، ڈھاکہ سے بی ایس سی سٹیڈرز کا امتحان اے ۔ایم۔ آئی۔ ای پاس کیا، پہلے ایس ڈی او پھر ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے پر ترقی حاصل کی، دسمبر 1988ء میں ریٹائر ہوا تو سپرنٹنڈنگ انجینئر کے گریڈ میں داخل ہوچکا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے عملی صحافت میں قدم رکھا، قومی ڈائجسٹ، زندگی، روزنامہ خبریں کے بعد اب روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ ہوں۔ پانچ سال قبل میں نے ریٹائرمنٹ کی درخواست کی تو جناب مجید نظامی نے فرمایا کہ صحافی اور اَدیب کبھی ریٹائر نہیں ہوتے اور زندگی کے آخری لمحے تک لکھتے ہیں۔ یہ کہہ کر اُنھوں نے مجھے اپنے عظیم ادارے کا ساتھ وابستہ رکھا اور گھر پر کام کرنے کے لیے نیا پیکج دے دیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ دریں اثناء میں نے ایم اے تک کے امتحانات پرائیویٹ حیثیت میں پاس کیے اور مقالہ اُردو اَدب کی تحریکیںٴٴ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی، اس مقالے کے داخلی نگران ڈاکٹر وزیر آغا تھے جبکہ ممتخین میں ڈاکٹر شمس الّدین صدیقی اور ڈاکٹر سید عبداللہ تھے۔
کاظم جعفری: اُردو اَدب میں آپ نثر کی وساطت سے آئے یا شاعری کے دروازے سے، کچھ اپنے اَدبی سفر کی تفصیلات بتلانے کی زحمت کریں گے؟
ڈاکٹر انور سدید: یاد پڑتا ہے کہ پرائمری کے آخری درجے میں ہمارے اُستاد مرزا ہاشم الّدین نے ہمیں مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب ٴٴقصص الہندٴٴ غیر نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی تھی، اس لیے نثر کے مطالعے کا رجحان پیدا ہوا۔ چھٹی جماعت میں مولوی محمد بخش ممتاز شعرا کے اشعار املا کراتے اور اُن کی تشریح کرتے تھے، اس سے شاعری کی طرف رغبت پیدا ہوئی۔ آٹھویں جماعت میں ماسٹر عبدالکریم نے اُردو کی چند معروف بحروں کی مشق کرائی، اس نے بھی شاعری کے ذوق کو استوار کیا۔ پہلی کہانی 1966 ء میں بچوں کے رسالہ "گل دستہ” میں چھپی جس کے مدیر رگھو نتھ سہائے تھے۔ اُس دور میں فلمی پرچے چترا نے میری کئی ناپخت کہانیاں شایع کیں۔ یزدانی جالندھری نے مجھے بیسویں صدی میں اور مظہر انصاری دہلوی نے رسالہ ہمایوں میں میری افسانے شایع کیے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اے کاش حیات آپ کے قدموں میں گزر جائے
——
ڈاکٹر وزیر آغا نے جنوری 1966ء میں اوراق جاری کیا تو مجھے سابقہ مطالعے کی اساس پر تنقید لکھنے کا مشورہ دیا، مولانا صلاح الدین احمد کا "اسلوب” میرا پہلا تنقیدی مضمون تھا۔ جس کی پذیرائی نے مجھے مذید تنقید لکھنے پر مائل کیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ انشائیہ نگاری اور شاعری بھی رسالہ "اوراق” کے ساتھ وابستگی کی ہی عطا ہے۔
کاظم جعفری:آپ کی جن لوگوں سے قلبی و ذہنی قربتیں رہیں اور ہیں،اُن کی کچھ تفصیل بتائیں؟ جن کو آپ نے پڑھا، پسند کیا، اپنے پیش رو، ہم عصر شعرا و ادبا میں کن کے نام لینا چاہیں گے؟
ڈاکٹرانورسدید: طالب علمی کے زمانے میں مجھے دارالحکومت پنجاب لاہور کی کہانیوں کی کتابوں مثلا قصر صحرا ، عمرو عیار ، عجیب عینک اور رسالہ پھول وغیرہ نے بہت متاثر کیا اورمطالعے کی عادت ڈالی۔ رسائل میں سے "ہمایوں”۔ "ادب لطیف” ۔ "ساقی” اور "آج کل” نے نئے اَدب سے متعارف کرایا۔ اَدبی زندگی پر سب سے زیادہ مثبت اثرات ڈاکٹر وزیر آغا نے ڈالے، اُنھوں نے انگریزی اَدب پڑھنے کی عادت ڈالی ۔میں نے اُردو کے سب اَدیبوں کو اور انگریزی کے چیدہ چیدہ اَدیبوں کو پڑھا ہے۔ اَب ہر اچھی کتاب کا مطالعہ میرا شوق ہے اور اَدیبوں میں امتیاز کرنا میری عادت نہیں اس لیے سب نام گنوانا تو ممکن نہیں۔
کاظم جعفری: اُردو اَدب کا موجودہ دور آپ کو کیسا لگتا ہے؟
ڈاکٹرانور سدید: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا پر منفی اثرات ڈالے ہیں اور یہ اَدب کے زوال کا دور ہے۔ میں اس سے متفق نہیں، کتاب کا اپنا تہذیبی مدار ہے اور یہ اَدب کا مستقل حوالہ ہے۔ اُردو اَدب میں بھی لکھنے والوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ کتابوں کی اشاعت کی رفتار بھی تیز تر ہوگئی ہے اگر صرف ناول کو معیار بنایا جائے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ صرف ایک سال کے عرصے میں "غلام باغ” مرزا اطہر بیگ ۔ :”دھنی نجش کے بیٹے” حسن منظر۔ "مسافتوں کی تھکن” "عذرا اصغر” "اندر جال” دردانہ نوشین خان۔ "سانجھ بھئی چوریس” سلمٰی یاسمین نجمی۔ "راستہ بند ہے” مصطفےٰ کریم اور میرے ناولوں کی گم شدہ آواز” محمد علیم شایع ہوئے، جو اپنی قدر آپ ہیں۔ افسانہ ، سفرنامہ، انشائیہ، خاکے اور تنقید کی چند اعلیٰ پائے کی کتابیں سامنے آئیں، یاد نگاری اور خطوط نگاری کی طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے تاہم شاعری میں افراطِ تخلیق ہے اور معیار بھی متاثر ہو رہا ہے۔لِہٰذا حسبِ سابق یہ دور بھی اُردو اَدب کا ایک اہم دور ہے۔
کاظم جعفری: آپ کی شناخت محقق اور ناقد کی حیثیت سے زیادہ مسلمہ ہے جبکہ آپ شعر گوئی بھی کرتے ہیں۔ شاعری کی نسبت تحقیق و تنقید کی طرف زیادہ راغب ہو جانے کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹرانور سدید: تنقید میرے مطالعے کی تفہیم کا عمل ہے۔ مطالعے کے دوران جو سوالات پیدا ہوتے ہیں میں اُنھیں تنقید کے دوران حل کرنے کی کوشش کرتا ہوںاور یوں اپنی طالب علم حیثیت کو قائم رکھتا ہوں۔ شاعری کے لیے تخلیقی لمحے کا انتظار کرناپڑتا ہے اور لاشعور سے ارادةً رابطہ قائم کرنا ممکن نہیں۔ تنقید شعوری عمل ہے۔ جس کے لیے طبیعت کو آمادہ کیا جاسکتا ہے اور سوچ کی لہر کو ارادے کے تحت بھی موجزن کرنا ممکن ہے۔
کاظم جعفری: تنقید کے نظریات میں جدیدیت، مابعد جدیدیت اور ساختیات، پس ساختیات جیسی اصطلاحات منظر عام پر آئی، موجودہ عہد میں اِن نظریات کے کیا خد وخال ہیں؟
——
یہ بھی پڑھیں : شاعر اور انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا کا یومِ وفات
——
ڈاکٹرانور سدید: جدیدیت ، ما بعد جدیدیت ، ساختیات، پس ساختیات وغیرہ مغرب سے درآمد شدہ نظریات میں اور تاحال اُردو اَدب کے گملے میں پرورش پارہے ہیں۔ اِن کی جڑیں ابھی زمین میں نہیں اتریں، پاکستان میں ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر ناصر عباس نیّر اِن کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں لیکن اُن کی اصطلاحات اور مفاہیم واضح کرنے کے لیے لفظیات اتنی مشکل ہے کہ اِن نظریات کا دائرہ وسیع نہیں ہوسکا۔ بھارت کے بعض نقّادوں پر الزام ہے کہ وہ اِن نظریات کو تراجم کے ذریعے پیش کر رہے ہیں۔ مذید برآں ایک حزب اختلاف بھی پیدا ہوچکا ہے جو مشرقی اَدب پر اِن نظریات کے اطلاق کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ یہ نظریات فی الحال اُردو اَدب میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
کاظم جعفری: تنقید و تحقیق میں وہ کون سے نام ہیں جن سے آپ متاثر رہے اور موجودہ دور میں اَدب میں ایسے کون سے نام ہیں جن سے تنقید و تحقیق کو اعتبار حاصل ہے؟
ڈاکٹرانور سدید: میں نے تنقید کے ہرمکتبِ فکر سے استفادہ کی کاوش کی ہے۔ چنانچہ سید اختشام حسین، محمد حسن عسکری اور وزیر آغا صاحب سے میں نے فراوانی سے فیض حاصل کیا ہے۔ تحقیق میں مجھے سب سے زیادہ راہنمائی ڈاکٹر وحید قریشی نے عطا کی اب تنقید و تحقیق میں متعدد نئے نام اُبھر رہے ہیں، تاہم تنقید میں ڈاکٹر ناصر عباس نیرّ، رضی مجتبیٰٰ، رؤف نیازی اور ڈاکٹر ضیاء الحسن چند اہم نام ہیں۔ تحقیق میں محمود شیرانی کا آخری نمایندہ شاید ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی قرار پا جائے، رفاقت علی شاہد کا رجحان خالص تحقیقی ہے، پی ایچ ڈی کے معاملات اب تحقیق کی بجائے تنقید کاحق زیادہ ادا کر رہے ہیں اور الزام یہ بھی لگ رہا ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے مناسب اجرت دے کر بھی لکھوا لیے جاتے ہیں۔ یہ اَدبی بددیانتی ہے۔ جس کا سدّ باب ضروری ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی جامعات میں پی ایچ ڈی کا معیار زوال پذیر ہے۔ بیشتر مقالات پر ڈگری دی جاتی ہے لیکن اُن کی اشاعت کی نوبت نہیں آتی اور نہ اُن کے معیار کا پتہ چلتا ہے۔ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے وظیفے نے اس مقدسّ عمل میں پیشہ ورانہ سرمایہ کاری کو داخل کردیا ہے۔
کاظم جعفری: آپ کے خیال میں ترقی پسند تحریک کی ضرورت کیوں پیش آئی نیز اُردو اَدب میں اس تحریک کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
ڈاکٹرانور سدید: ترقی پسند تحریک مارکسیت کے عروج کے دور میں اُبھری تھی۔ متحدہ ہندوستان میں اِس کا آغاز مشہور مارکسٹ سجاد ظہیر سے منسوب ہے۔ اُنھوں نے اس تحریک کے ذریعے اَدب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی اور غربت و غلامی کے خلاف اَدب تخلیق کرنے کے دعوت دی۔ اہم بات یہ ہے کہ اِس تحریک نے خردمندانہ رویے کو فروغ دیا۔ آزادی اظہار کی تحریک پیدا کیا اور ترقی کے نام پر ایک ایسے ہجوم کو جمع کرلیا جو سوشلسٹ نظریے کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اَدب کی تخلیق کا میعار گر گیا۔ حکومت کے عتاب نے بھی اس تحریک کو نقصان پہنچایا اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد اِس تحریک کی تنظیم ختم ہوگئی۔ اب نظریہ تو موجودہے لیکن اِس کے تحت اَدب تخلیق کرنے والے نایاب ہیں۔ بالفاظ دیگر ترقی پسند تحریک کے مثبت اثرات پورے اَدب میں پھیل گئے ہیں لیکن اُن کی تحریکی نشان دہی شاید ممکن نہیں ہے۔
کاظم جعفری: اَدبی گروہ بندیوں سے تو آپ یقیناً واقف ہوں گئے، آپ کے نزدیک اَدب میں گروہ بندی کی کیا ضرورت یا اہمیت ہے؟
ڈاکٹرانور سدید: اَدبی زاویے سے دیکھیے تو تخلیقی عمل آزاد ماحول میں پرورش پاتا ہے اور اس کے لیے گروہ بندی قطعاً ضروری نہیں، جو تقلید کو فروغ دیتی ہے۔ سب سے بڑی گروہ بندی ترقی پسند تحریک نے پیدا کی تھی۔ جس نے ایک خاص نظریّے کا اَدب پیدا کرنے کی تلقین کی اور اَدب کے نام پر سیاسی پمفلٹ لکھے جانے لگے۔ تاہم وہ اُدبا جو ذاتی نمود ونمائش کے برعکس گروہ کی صورت میں فن پارے پر تخلیقی اور فنّی زاویوں سے بحث و نظر کو فروغ دیں، اُسے اَدب کے لیے مفید قرار دیا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں "حلقۂ اَربابِ ذوق” کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ تاہم اب یہ ادارہ بھی زوال پذیر ہے۔
کاظم جعفری: ڈاکٹر وزیر آغا اور آپ کی احمد ندیم قاسمی گروہ سے آپ کے کیا اختلافات تھے؟
داکٹر انور سدید: نظریاتی طور پرتووجہ یہ نظر آتی ہے کہ احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک کے نمایندہ ادیب کہلواتے تھے اور ڈاکٹر وزیر آغا اپنے اندر کی آواز سن کر تخلیق کاری کرتے ہیں۔ دونوں کا تخلیقی عمل مختلف ہے۔ دنیاوی طور پر قاسمی صاحب کو شکایت تھی کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اُن کی تعریف و تحسین میں مبالغہ آمیزی سے وہ کام نہیں لیا جو ممتاز حسین اور فتح محمد ملک انجام دیتے رہے اور اُنھیں اقبال اور فیض سے بڑا شاعر ثابت کرتے رہے۔ قاسمی صاحب اپنے اوپر تنقید کو گوارا نہیں کرتے تھے۔ مَیں نے اُن کے افسانوں کا تجزیہ اپنی کتاب "اُردو افسا نے میں دیہات کی پیشکش” میں کیا تو اُنھوں نے پسند نہ کیا اور ناراض ہوگئے۔ حتیٰ کہ دشنام طرازی پر اتر آئے لیکن میں وزیر آغا کی طرح اُنھیں بھی اپنا محسن تصور کرتا ہوں۔ اُنھوں نے مجھے ہمیشہ متحرک اور سرگرمِ اَدب رکھا، دُکھ کی بات یہ ہے کہ اُن کی وفات کے بعد "فنون” کے آشیانے میں چہچہانے والے سب پنچھی قاسمی صاحب کو بُھلانے پر مائل ہیں۔
کاظم جعفری: اَدب میں مصاحبہ انٹرویو کی اہمیت و افادیت کیا ہے؟
——
یہ بھی پڑھیں :
——
ڈاکٹرانور سدید: مصاحبہ انٹرویو اَدیب کے باطن کو ٹٹولنے اور کھنگالنے کا عمل ہے۔ میں اِسے اَدب کے لیے مفید تسلیم کرتا ہوں۔ آپ مختلف سوالات اُٹھا کر وہ باتیں معلوم کرسکتے ہیں جو بالعموم رسمی یا روایتی مضامین میں بیان نہیں کی جاتیں۔ تاہم اس کے لیے انٹرویو کرنے والے کو پورا ہوم ورک کرنا چاہیے اور گہرے اَدبی اور نظریاتی سوالات پوچھنے چاہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اَدبی صفحے پر اور رسائل میں انٹرویو سب سے زیادہ دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ اَدیب کے حقیقی باطن کو منکشف کرتے ہیں۔
کاظم جعفری: اَدب میں تنقید و تحقیق کی کیااہمیت و ضرورت ہے؟
ڈاکٹرانور سدید: تنقید و تحقیق اَدب کے لیے اہم بھی ہیںاور ضروری بھی۔ تحقیق نایاب مواد کی جستجو اورصداقت کی تلاش کا نام ہے، جبکہ تنقید میں فن پارے کے حُسن وقبیح پر فنی بحث کے علاوہ فنکار کی قدر افزائی کا عنصر بھی شامل ہیں۔
کاظم جعفری: نئی نسل کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں، کیا اِن میں شعر و اَدب کے امکانات موجود ہیں؟
ڈاکٹرانور سدید: ہر نئی نسل سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صادق روایات کو توسیع دے تو جدیدیت کے پیوند سے نئی شجرکاری بھی کرے، اُردو اَدب میں جو نئے اُدبا نمودار ہو رہے ہیں اُن میں یہ صفات نمایاں نظر آتی ہیں اور مجھے اُردو اَدب کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
——
منتخب کلام
——
کوئی بھی پیچیدگی حائل نہیں انور سدیدؔ
زندگی ہے سامنے منظر بہ منظر اور میں
——
جو پھول جھڑ گئے تھے جو آنسو بکھر گئے
خاک چمن سے ان کا پتا پوچھتا رہا
——
اس کے بغیر زندگی کتنی فضول ہے
تصویر اس کی دل سے جدا کر کے دیکھتے
——
تو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر
خوشبو ہے گر تو دل میں سمٹ کر کلام کر
——
یوں تسلی کو تو اک یاد بھی کافی تھی مگر
دل کو تسکین ترے لوٹ کے آنے سے ملی
——
کھلی زبان تو ظرف ان کا ہو گیا ظاہر
ہزار بھید چھپا رکھے تھے خموشی میں
——
دیوار پر لکھا نہ پڑھو اور خوش رہو
کہتا ہے جو گجر نہ سنو اور خوش رہو
اپنائیت کا خواب تو دیکھو تمام عمر
بیگانگی کا زہر پیو اور خوش رہو
کانٹے جو دوستوں نے بکھیرے ہیں راہ میں
پلکوں سے اپنی چنو اور خوش رہو
باتیں تمام ان کی سنو گوش گوش سے
اپنی طرف سے کچھ نہ کہو اور خوش رہو
وہ کج ادا ہیں گر تو نہ شکوہ کرو کبھی
بہتر ہے زہر عشق پیو اور خوش رہو
شکوہ کیا زمانے کا تو اس نے یہ کہا
جس حال میں ہو زندہ رہو اور خوش رہو
انورؔ سدید حال اگر مہرباں نہیں
ماضی کو اپنے یاد کرو اور خوش رہو
——
دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا
میں دم بخود کھڑا ہی اسے دیکھتا رہا
جو پھول جھڑ گۓ تھے جو آنسو بکھر گۓ
خاک چمن سے ان کا پتا پوچھتا رہا
میں پار کر چکا تھا ہزیمت کی منزلیں
ہر چند دشمنوں کے برابر کھڑا رہا
پلکوں پہ جھولتی ہوئی شفاف چلمنیں
کل رات میرا ان سے عجب سلسلہ رہا
اس سنگ دل کے پاس کہاں تھے وفا کے پھول
انورؔ سدید جس کو سدا پوجتا رہا
——
تو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر
خوشبو ہے گر تو دل میں سمٹ کر کلام کر
میں اجنبی نہیں ہوں مجھے روند کر کلام کر
نظریں ملا کے دیکھ پلٹ کر کلام کر
بالاۓ بام آنے کا گر حوصلہ نہیں
پلکوں کی چلمنوں میں سمٹ کر کلام کر
قوس قزح کے رنگ میسر نہیں تو پھر
دریا کی موج موج میں بٹ کر کلام کر
جنت میں یا تو مجھ کو پرانا مقام دے
یا آ نری زمیں میں پلٹ کر کلام کر
انورؔ سدید عام سا بندہ ہے اس کے ساتھ
مٹی پہ بیٹھ گرد میں اٹ کر کلام کر
——
نظم : ایک خواہش
——
یہ خواہش ہے
کہ میں گیلی زمیں پر
اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی سے
اک بے حاشیہ تصویر کھینچوں
جو مرے محبوب کے چہرے کے تجریدی تصور سے
مزین ہو
ہوا، گلشن کی دیواروں کے روزن سے
ادھر آئے
تو اس تصویر میں اپنے معطر رنگ بو دے
مرے خاکے کی تجریدیں مٹا دے
اٹھا کر گیلی مٹی سے
سجا دے میری آنکھوں میں
یہ خواہش ہے میری
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ