اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر غلام محمد قاصر کا یوم وفات ہے

غلام محمد قاصر(پیدائش: 4 ستمبر، 1944ء- وفات: 20 فروری، 1999ء)
——
غلام محمد قاصر 4 ستمبر 1941 میں پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے 40 کلومیٹر شمال میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے پہاڑپور میں پیدا ہوئے۔
ان کے تین شعری مجموعے تسلسل ، آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے اور دریائے گماں شائع ہوئے جنہوں نے سنجیدہ ادبی حلقوں میں بے پناہ پذیرائی حاصل کی اور قاصر کو جدید اردو غزل کے نمائندہ شعراء میں ایک منفرد مقام کا حامل قرار دیا گیا۔ ان کا تمام شعری کلام جس میں مذکورہ بالا تینوں مجموعے اور غیر مطبوعہ و غیر مدون کلام شامل ہے۔ کلیاتِ قاصر (اک شعر ابھی تک رہتا ہے ) کے عنوان سے 2009ء میں شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے لیے متعدد ڈرامے اور پروگرام لکھے جو ناظرین و سامعین میں بے حد مقبول ہے۔ قاصر کا تحریر کردہ ڈراما سیریل تلاش اور بچوں کے لیے کھیل بھوت بنگلہ نے خاص طور پر بہت مقبولیت حاصل کی۔ قاصر نے پاکستان کے کچھ اہل قلم پر عمدہ مضامین رقم کیے۔ پاکستان اور بیرون ملک پاکستان منعقد ہونے والے مشاعروں اور ادبی کانفرنسوں میں شرکت بھی کی۔ جبکہ این ڈبلیو ایف پی ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے ساتویں ، گیارہویں جماعت کے لیے نصاب مرتب کیا
گورنمنٹ ہائی اسکول پہاڑ پور سے میٹرک کرنے کے بعد اسی اسکول میں بطور ٹیچر تقرری ہوئی ۔ تاہم ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اور اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقوں میں تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ 1975ء میں بطور لیکچرار پہلی تقرری گورنمنٹ کالج مردان میں ہوئی۔ اس کے بعد سپیرئیر سائنس کالج پشاور ، گورنمنٹ کالج درہ آدم خیل ، گورنمنٹ کالج پشاور، گورنمنٹ کالج طورو اور گورنمنٹ کالج پبی میں درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے
اسی دوران کہیں سے شعر کی چنگاری پھوٹی جس نے بالآخر پورے ملک میں ان کے نرالے طرزِ ادا کے شعلے بکھیر دیے۔ حتیٰ کہ 1977ء میں جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’تسلسل‘ شائع ہوا تو اس کے بارے میں ظفر اقبال جیسے لگی لپٹی نہ رکھنے والے شاعر نے لکھا کہ میری شاعری جہاں سے ختم ہوتی ہے قاصر کی شاعری وہاں سے شروع ہوتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
ساٹھ کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک عظیم الشان کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا جس میں اس دور کے اکثر نامی گرامی شعرا نے حصہ لیا، جن میں ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، محبوب خزاں وغیرہ شامل تھے۔
مشاعرے کے آغاز ہی میں ایک نوجوان شاعر کو کلام سنانے کی دعوت دی گئی۔ ایک چوبیس پچیس سالہ دبلے پتلے اسکول ٹیچر نے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے کاغذ کو بڑی مشکل سے سنبھال کر ایسے لہجے میں غزل سنانا شروع کی جسے کسی طرح بھی ٹکسالی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن اشعار کی روانی، غزلیت کی فراوانی اور خیال کی کاٹ ایسی تھی کہ بڑے ناموں کی باری کے منتظر سامعین بھی نوٹس لینے پر مجبور ہو گئے۔
جب نوجوان اس شعر پر آئے تو نہ صرف گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے شعرا یک لخت اٹھ بیٹھے اور بلکہ انھوں نے تمام سامعین کی آواز میں آواز ملا کر وہ داد دی کہ پنڈال کی محاوراتی چھت اڑ گئی۔ شعر تھا:
——
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
——
لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے؟ اس سوال کا جواب غزل کے آخری شعر میں شاعر نے خود ہی دے دیا:
——
کون غلام محمد قاصر بیچارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
——
احمد ندیم قاسمی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’جب کوئی سچ مچ کا شاعر بات کہنے کا اپنا سلیقہ روایت میں شامل کرتا ہے تو پوری روایت جگمگا اٹھتی ہے۔
یوں تو قاسمی، ظفر اقبال، احمد فراز، قتیل شفائی، شہزاد احمد، صوفی تبسم، رئیس امروہوی جیسے کئی مشاہیر نے قاصر کی ستائش کی ہے، لیکن مشہور کالم نگار منو بھائی نادانستگی میں اپنے ایک کالم میں قاصر کا یہ شعر میر کے نام سے نقل کر گئے:
——
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
——
کسی بھی نئے یا پرانے شاعر کو اس سے بڑھ کر داد نہیں دی جا سکتی۔
اعزازت:
صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی (اردو شاعری ) 2007ء (غلام محمد قاصر پاکستان کے واحد ادیب ہیں جنھیں مرنے کے بعد تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا)
پروین شاکر عکس خوشبو ایوارڈ برائے بہترین شاعری
وثیقہ اعتراف (اردو ادب ) ہمدرد فاونڈیشن کراچی 1994ء
بہترین نغمہ نگار ایوراڈ ۔ پی ٹی وی پشاور ۔ 1993ء
بولان ایوارڈ ۔ بہترین ڈراما نگار /شاعری بولان اکیڈیمی 1993ء
سردار عبدالرب نشتر ایوارڈ ( گولڈ میڈل ) برائے بہترین شاعری اباسین آرٹس کونسل پشاور 1988ء
قاصر کی زندگی میں ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے، ’تسلسل،‘ ’آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے،‘ اور ’دریائے گمان،‘ جب کہ کلیات ’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘ مرنے کے بعد شائع ہوئی۔
قاصر نے کئی مقبول ٹیلی ویژن ڈرامے بھی لکھے جن میں ’بھوت بنگلہ‘ اور ’تلاش‘ شامل
تین ماہ تک جگر کے سرطان میں مبتلا رہنے کے بعد غلام محمد قاصر 20 فروری 1999 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کی وفات پر ادبی حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دی گئی کہ جدید غزل کے امکانات کا شاعر رخصت ہوگیا ہے۔ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان نے غلام محمد قاصر کے انتقال پر تعزیتی پروگرام نشر کیے۔
——
پیراسائکالوجی کو اُن علوم کا مجموعہ قرار دیا جا سکتاہے ،جن کا تعلق ایسے تجربات و مشاہدات سے ہو، جنھیں حواسِ خمسہ عام حالات میں محسوس نہ کر سکتے ہوں،جیسے مابعد الطبیعات وغیرہ، یعنی زمان و مکان کی قیود سے نکل کر روشنیوں ، رنگوں ، خوشبووں، نسموں (aura) کی دُنیاوں کی سیر ، بیک وقت ایک سے زیادہ مقامات پر روحانی طور پر موجو د ہونا۔
غلام محمدقاصرؔ کے میںاوائل سے ہی ایک خاص مابعد النفسیا تی ، پرُاسرار اور ماورائی فضا محسوس ہوتی ہے ،جو بتدریج بڑھتے بڑھتے اُن کے تیسرے شعری مجموعے ’’دریا ئے گماں‘‘ تک نہایت اہمیت اختیار کر گئی۔ مذکورہ کتاب زندگی میں شائع ہونے والی اُن کی آخری کتاب تھی، جو وفات (20 فروری1999ء) سے دو سال قبل یعنی1997 ء میں منظرعام پر آئی تھی، جس میں بطورِ خاص ایسے اشعار کی تعداد زیادہ ہے :
——
وہ بے دِلی میں کبھی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں
تو ہم بھی سیر سماوات چھوڑ دیتے ہیں
——
اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں کہ بظاہر رومانوی نظر آنے والے اس شعر میں قاصرؔ صاحب نے سیرسماوات کو جس معمول کی بات کے انداز میں بیان کیا ہے ،یہ امر بہر کیف اس قدر معمولی نہیں ۔کچھ نہ کچھ معارفت وریاضت تو بہرحال درکار ہوتی ہے نظر کو وہاں تک پہنچنے کے لیے کہ جہاں یہ کہا جا سکے کہ ’’آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے‘‘۔ اُن کے دوسرے شعری مجموعے کا عنوان بھی یہی مصرعہ ہے اور اس عنوان کے تحت نظم میںواضح طور پر اُن جہانوں کی منظر کشی کی گئی ہے، جو حدنظر سے بعید ہیں ۔ پڑھتے ہوئے جو ماورائی کیفیت محسوس ہوتی ہے ،اس سے شاعرکے وجدان کی بلند ترمنازل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
اُن کی مشہورنظم ’’سمیتا پاٹل‘‘ بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ مذکورہ نظم اس صبح مکمل ہوئی، جس شام سمیتا پاٹل کا انتقال ہوا۔
پیراسائکالوجی میں اسے precognition کہا جاتا ہے، یعنی بعد میں پیش آنے والے واقعات کی پہلے سے خبر ہو جانا۔ان دنوں قاصرؔ صاحب گورنمنٹ کالج درہ آدم خیل میں بطور معلم تعینات تھے اور روزانہ پشاو ر سے وہاں جایا کرتے ۔ راستے میں ایک خاص مقام سے گزرتے وقت مصرعوں کی آمد ہوتی، لیکن نظم مکمل نہ ہوتی تھی اور پھر ایک روز اسی مقام پر گاڑی خراب ہوئی اور پھر قریب ایک ویران سی زیارت کے پاس اُن کیفیت کچھ عجیب ہوئی، گھنٹیوں کی آوازیں آنے لگیں اور پھر مذکورہ نظم کی تکمیل ہوئی۔ اس غیر معمولی واقعہ کی تفصیل ـ ’’غلام محمد قاصر فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے پروفیسر سہیل احمد (شعبہ اُردو پشاور یونیورسٹی) کے ایم فل کے تحقیقی مقالے میں موجود ہے، جو طباعت کے مراحل میں ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
شہزاد احمد، جنھیں خود بھی مابعدالنفسیاتی موضوعات سے خصوصی دلچسپی تھی، نے قاصرؔ صاحب کے پہلے شعری مجموعے ’’تسلسل ‘‘ کے بارے میں کہا کہ
’’قاصرؔ نے بہت سے ایسے گوشوں کی نقاب کشائی کی ہے، جو اس سے پہلے کُھل کر سامنے نہیں آئے تھیــ‘‘۔
اُن کا اشارہ یقینی طور پر پیرا سائکالوجی سے متعلق انھی موضوعات کی طرف تھا ،جو ایک عام قاری کی نظر سے شاید اب بھی اُوجھل ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے بھی تسلسل کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا
’’قاصر ؔکی غزل خدا اور کائنات سے گفت گو کرتی نظر آتی ہے ‘‘۔
اس پس منظر میں درج ذیل اشعار خصوصی توجہ کے متقا ضی ہیں:
——
یونہی آساں نہیں ہے نُور میں تحلیل ہو جانا
وہ ساتوں رنگ قاصر ایک پیراہن میں رکھتا ہے
——
مَیں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح
اور چاندنی صلیب پر آ کر لٹک گئی
——
اَن دیکھی دنیاوں اور واضح مابعدالنفسیاتی حوالوں سے ہٹ کر اگر قاصرؔ کے خالص رومانوی اشعار کو بھی دیکھا جائے، تو وہاں بھی ایک خاص کیفیت نظر آتی ہے کہ جہاں اشعار بظاہر تو رومانوی ہیں ،لیکن بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بات اور ہی کسی دنیا کی ہے ،جیسے یہ اشعار:
——
خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد
مَیں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی
——
پہلے اک سائے سے خوشبو کو نکلتے دیکھوں
پھر وہ خوشبو تِری تصویر میں ڈھل جاتی ہے
——
اسی لیے تو زمیں پر وہ اجنبی نہ لگے
مَیں اُن سے پہلے مِلا تھا کسی ستارے پر
——
غلام محمد قاصر صاحب اپنے تیسرے مجموعے ’’دریا ئے گماں‘‘ کا نام پہلے ’’سارے رنگ ادھورے ہیں ‘‘رکھنا چاہتے تھے ۔
اُن کی شاعری میں رنگ کرداروں کی مانند نظر آتے ہیں: سب رنگ نا تمام ہوں ہلکا لباس ہو شفاف پانیوں پر کنول کا لباس ہو رنگوںکی طرح ہندسو ں کو بھی مابعدالنفسیات میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قاصر ؔصاحب کی شاعری میں ہندسوں کے حامل اشعار انتہائی فکر انگیز اور بے پناہ وسعت سمیٹے ہوئے ہیں:
——
ساری چابیاں میرے حوالے کیں اور اس نے اتنا کہا
آٹھوں پہر حفاظت کرنا شہر ہے نَو دروازوں کا
——
قتیلؔ شفائی نے قاصرؔ صاحب کی وفات کے موقع پرکہا تھا
’’قاصر ؔکی منزل افق سے بھی پار تھی ’’
اُنھیں معلوم تھا کہ اُفق سے پار دیکھنے والوں کی منزل ہی افق کے پار ہو سکتی ہے‘‘۔
قاصرؔصاحب نے بھی اپنی ایک نظم میں کچھ یوں دُعا مانگی تھی کہ
یہی دل کی روشنی اے خدا مَیں افق کے پار بھی رکھ سکوں۔
قاصرؔ صاحب افق کے پار اُنھی دنیاوں میں کہیں موجود ہیں، جن کی بازگشت ان کی شاعری میں محسوس کی جاسکتی ہے۔
——
منتخب کلام
——
یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے
——
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
——
تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں
غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے
——
ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا
تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں
——
خوشبو گرفت عکس میں لایا اور اس کے بعد
میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی
——
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
——
شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے
سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے
لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراوں کے ٹیلے تھے
تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں ‌پہنچا
رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے
سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے
تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
کون غلام محمّد قاصر بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
——
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے
وہ ماہ رخ جو لبِ بام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
بٹھا دیا مجھے دریا کے اس کنارے پر
جدھر حبابِ تہی جام بھی نہیں آتا
چرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے
اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا
——
محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا
جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل اُدھر لے جا
تبسم سے حقیقی خال و خد ظاہر نہیں ہوتے
تعارف پھول کا درپیش ہے تو چشمِ تر لے جا
اندھیرے میں گیا وہ روشنی میں لوٹ آئے گا
دیا جو دل میں جلتا ہے اسی کو بام پر لے جا
اُڑانوں، آسمانوں، آشیانوں کے لیے طائر!
یہ پَر ٹوٹے ہوئے میرے، یہ معیارِ نظر لے جا
زمانوں کو اُڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا
مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام وسحر لے جا
کوئی منہ پھیر لیتا ہے تو قاصر اب شکایت کیا
تجھے کس نے کہا تھا آئینے کو توڑ کر لے جا
——
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
اک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے اس کو دیکھا تھا
احساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتاہے
پھر جسم کے منظر نامے میں سوئے ہوئے رنگ نہ جاگ اٹھیں
اس خوف سے وہ پوشاک نہیں ، بس خواب بدلتا رہتا ہے
چھ دن تو بڑی سچائی سے سانسوں نے پیام رسانی کی
آرام کا دن ہے کس سے کہیں دل آج جو صدمے سہتا ہے
ہر عہد نے زندہ غزلوں کے کتنے ہی جہاں آباد کیے
پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اک شعر ابھی تک رہتا ہے
——
پھر وہی کہنے لگے تو مرے گھر آیا تھا
چاند جن چار گواہوں کو نظر آیا تھا
رنگ پھولوں نے چنے آپ سے ملتے جلتے
اور بتاتے بھی نہیں کون کدھر آیا تھا
بوند بھی تشنہ ابابیل پہ نازل نہ ہوئی
ورنہ بادل تو بلندی سے اتر آیا تھا
تو نے دیکھا ہی نہیں ورنہ وفا کا مجرم
اپنی آنکھیں تری دہلیز پہ دھر آیا تھا
بھول بیٹھے ہیں نئے خواب کی سرشاری میں
اس سے پہلے بھی تو اک خواب نظر آیا تھا
——
اپنے اشعار کو رسوا سر بازار کروں
کیسے ممکن ہے کہ میں مدحت دربار کروں
دل میں مقتول کی تصویر لیے پھرتا ہوں
اور قاتل سے عقیدت کا بھی اظہار کروں
یہی منشور محبت ہے کہ وہ پیکر ظلم
جس کو نفرت سے نوازے میں اسے پیار کروں
اب مرے شہر کی پہچان ہے اک وعدہ شکن
شہریت بدلوں کہ تاریخ کا انکار کروں
رات بھر جاگ کے تعمیر کروں قصر امید
صبح تکمیل سے پہلے اسے مسمار کروں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ