اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر ندا فاضلی کا یومِ وفات ہے

ندا فاضلی(پیدائش: 12 اکتوبر، 1938ء- وفات: 8 فرورری، 2016ء)
——
ندا فاضلی کا اصلی نام مقتدا حسن تھا وہ 12 اکتوبر 1938 میں بھارتی ریاست گوالیار میں پیدا ہوئے تھے۔ بالی وڈ کی فلمی دنیا کے لیے بعض یادگار گیت تخلیق کرنے کے علاوہ ان کے لکھے گئے دوہوں اور غزلوں کو جگجیت سنگھ نے لاکھوں لوگوں تک پہنچایا۔
ان کے والد بھی شاعر تھے جو 1960 میں مذہبی فسادات کے دوران مارے گئے۔ ان کے خاندان کے باقی افراد پاکستان منتقل ہو گئے لیکن ندا ہندوستان ہی میں رہے۔
بھارتی حکومت نے ندا فاضلی کو پدم شری، ساہتہ اکیڈمی ایوارڈ، اور میر تقی میر ایوارڈ سے نوازا۔
ان کے پانچ مجموعے شائع ہوئے، جن میں ’لفظوں کے پھول،‘ مور ناچ، اور ’دنیا ایک کھلونا ہے،‘ وغیرہ شامل ہیں۔
ندا فاضلی نے ’رضیہ سلطان،‘ کے علاوہ ’سرفروش،‘ ’اس رات کی صبح نہیں،‘ ’آپ ایسے تو نہ تھے،‘ اور ’گڑیا‘ کے گیت لکھے جنھوں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ 2003 میں انھیں فلم ’سُر‘ کے لیے سٹار سکرین ایوارڈ کے بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ ملا۔
فلم ’آپ ایسے تو نہ تھے‘ کے ان کا لکھا ہوا اور محمد رفیع کا گایا ہوا نغمہ ’تو اس طرح سے مری زندگی میں شامل ہے‘ آج بھی بہت مقبول ہے۔
ندا فاضلی ’اندازِ بياں‘ کے نام سے بی بی سی ہندی کے لیے کالم بھی لکھا کرتے تھے۔
——
ندا فاضلی نے ممبئی میں 8 فروری 2016ء کو حرکتِ قلب بند ہو جانے کے سبب رختِ سفر باندھا
——
ندا فاضلی کا تخلیقی گاؤں – پروفیسر کوثر مظہری
——
ندا فاضلی کا نام تو کالج کے زمانے میں (1982-84) ہی سن رکھا تھا، لیکن چونکہ میں اس زمانے میں B.Sc (علم نباتات) کررہا تھا، اس لیے ان کے حوالے سے، یا ان کی چیزیں پڑھنے کا یا انھیں سننے کا موقع کم ملا۔ البتہ دہلی آنے کے بعد ایک دو مشاعروں میں انھیں سننے کا اتفاق ہوا۔ ان کا شعر پڑھنے اور سنانے کا انداز بالکل جداگانہ تھاا ور پھر جب وہ دوہے سناتے تو دوسرے مصرعے کے اختتام پر دونوں ہاتھوں کو ہوا میں لے جاتے ا ور تقریباً دونوں طرف سے سر کے سامنے اوپر تک لاکر چھوڑدیتے۔ لفظوں کو دہرانے کا بھی ان کا ایک خاص انداز تھا جس کی نقالی بعد کے کئی شعرا کے یہاں نظرآئی۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ندا فاضلی کا یومِ پیدائش
——
ذاتی طور پر میری ان سے بہت قربت نہیں تھی، لیکن جب میں نے اپنا شعری مجموعہ ’ماضی کا آئندہ‘ اپنے دوست شکیل اعظمی کے ذریعے ان کو بھجوایا تو پورا مجموعہ پڑھ کر فوراً فون کیا اور دیر تک یوں باتیں کرتے رہے جیسے وہ مجھے ذاتی طور پر بہت اچھی طرح جانتے ہوں۔ ’’کوثر صاحب آپ توبہت اچھی تنقید بھی لکھ رہے ہیں اور میں نے رسالوں میں آپ کی چیزیں پڑھی ہیں۔‘‘ ایسا تعریفی جملہ سن کر میرے حوصلے بڑھ گئے۔ اس کے بعد شعبۂ اردو کی طرف سے فراق میموریل لکچر انھوں نے پیش کیا جو کہ بہت ہی معلوماتی اور دل چسپ تھا۔ ان کی گفتگو اور مقالہ پیش کرنے کے انداز نے سامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔اسی طرح جامعہ کلچرل کمیٹی کی طرف سے ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقدہ کیے جانے کی ذمہ داری مجھے دی گئی۔ یہ نومبر 2009 کی بات ہے۔ فہرست میں سینئر شعرا میں بیکل اتساہی کے بعد ندا صاحب ہی کا نام تھا۔ مشاعرے کا کنوینر ہونے کے ناطے مجھے ہی ندا صاحب سے گفتگو کرنی تھی۔ میں نے جب انھیں فون کیا تو جامعہ میں مشاعرہ پڑھنے کے لیے وہ فوراً تیار ہوگئے۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ یہاں یونیورسٹی جو اعزازیہ پیش کرے گی اس کی رقم ’یہ‘ ہے۔ انھوں نے کہا— ’’کوثر صاحب میں مشاعرے پڑھتا ہوں، لیکن جامعہ ملیہ میں مشاعرہ پڑھنا یہ خود میرے لیے اعزاز کی بات ہے، آپ اعزازیہ کی بات مت کیجیے۔‘‘ اس طرح وہ خوشی خوشی اس مشاعرے میں تشریف لائے۔ صبح جامعہ کے نہرو گیسٹ ہاؤس میں کچھ نوجوان ادیب و شاعر ان سے ملنے آئے۔ میں بھی شریک تھا۔ ان میں جناب حقانی القاسمی، جناب عبدالقادر شمس، نعمان قیصر وغیرہ تھے۔ وہیں کینٹین میں ہم سب ندا صاحب کے ساتھ چائے پیتے رہے اور بہت دیر تک ادبی اور غیر ادبی (لیکن دل چسپ) باتیں کرتے رہے۔ وہ جس قدر خوب صورت تھے اسی طرح انھیں خوب صورت اندازمیں گفتگو کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، البتہ ان کے شعری اور نثری متون ہمارے سامنے ہیں۔ ہم جب بھی ندا سے ہم کلام ہونا چاہیں ان کی نگارشات پڑھیں تو شاید ان کا عکس، ان کے تجربے، ان کے مشاہدے اور یہاں تک کہ ان کی شخصیت کے مختلف پہلو ہمارے سامنے کھُلتے جائیں گے اور حقیقت یہی ہے کہ اصل سرمایہ تو ان کی تخلیقات ہی ہیں۔
——
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
اگر نہ ہو کہیں ایسا تو احتجاج بھی ہو
——
ندا فاضلی کے شعری تناظر اور تخلیقی نہج کو سمجھنے کے لیے میں نے یہ شعر درج کیا ہے۔ ذرا اس شعر کو پڑھیے اور اس پر غور کیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کسی ترقی پسند شاعر کا شعر ہے۔ اس میں ہر ایک گھر میں روشنی اور اناج ہونے کی بات کی جارہی ہے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو ا س کے لیے احتجاج کرنے کا مشورہ بھی دیا جارہا ہے۔ ترقی پسندوں کا بھی کچھ یہی تقاضا تھا۔ لیکن بہت جلد ندا فاضلی کو احساس ہوگیا کہ ترقی پسندی کا جادو سرد پڑچکا ہے اور ایک جدید رجحان مدمقابل ہے۔ دوسری طرف تقسیم ہند کے بعد رونما ہونے والے فسادات اور انسانی قدروں کی پامالی، غیرضروری سیاسی جوش اور ولولے، انسانی جذبوں کی تقسیم، نقل مکانی کے سبب بے مکانی، بے چہرگی اور انسانی وجود کی بقا کے لیے جدوجہد، یعنی یہ سب کچھ اور اسی نوع کے دوسرے مسائل اور عوامل ایسے تھے جو ندا کی تخلیقیت اور باطن دونوں میں ہلچل پیدا کررہے تھے۔ کبھی کبھی اس طرح کے تجربے سوہانِ روح بن جاتے ہیں۔ سنیے:
——
بیٹھے ہیں دوستوں میں ضروری ہیں قہقہے
سب کو ہنسا رہے ہیں مگر رو رہے ہیں ہم
——
اور پھر یہ نظم دیکھیے:
——
پیار، نفرت، دیا، جفا، احسان/ قوم، بھاشا، وطن، دھرم، ایمان
عمر گویا/ چٹان ہے کوئی/ جس پہ انسان کوہ کن کی طرح
موت کی نہر/کھودنے کے لیے/ سینکڑوں تیشے/ آزماتا ہے
ہاتھ پاؤں چلائے جاتا ہے
——
ندا فاضلی خود رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کے بھوگی رہے ہیں، لہٰذا وہ ان رشتوں کو اپنی شاعری میں سجاتے سنوارتے رہے ہیں۔ سیاسی اور سماجی طور پر جو اتھل پتھل ہوتی ہے اسے بھی شاعر شعری پیکر عطا کرتا ہے۔ لیکن شاعر کا خلوص خواہ وہ دوستی کا ہو یا دشمنی کا، رشتوں کی الگنی پر دھوپ میں سوکھتے ہوئے زیادہ درخشاں اور پائندہ نظر آتا ہے۔
زمینی قربتوں اور فاصلوں کو ہمیشہ ندا فاضلی نے اپنی تخلیقی ہنرمندی کا حصہ بنایا ہے۔ ان کے لسانی اظہار میں بھی سادگی کے ساتھ تازگی دیکھی جاسکتی ہے:
——
کچھ لوگ یونہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
——
اسی انسانی رشتے کی حقیقت اور نسلی بُعد (Generation Gap) کو وہ اپنی ایک نظم میں اس طرح پیش کرتے ہیں۔ غور کیجیے کہ اس نظم کے کرافٹ میں کیسی کرب آگیں تخلیقیت ضم ہوگئی ہے:
——
بیٹھے بیٹھے یونہی قلم لے کر/ میں نے کاغذ کے ایک کونے پر
اپنی ماں/ اپنے باپ، کے دو نام/ ایک گھیرا بنا کے کاٹ دیے
اور اس گول دائرے کے قریب/ اپنا چھوٹا سا نام ٹانک دیا
میرے اٹھتے ہی، میرے بچے نے/ پورے کاغذ کو لے کے پھاڑ دیا
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر امید فاضلی کا یوم پیدائش
——
یہاں کاغذ پھاڑنے کے ساتھ ساتھ، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر کا دل بھی دو نیم ہوگیا ہے۔ یہی ہے وہ احساس کی لطافت جس میں شدت کی پھواریں ہیں اور یہی ہیں وہ پھواریں جو ندا کی شاعری کو ترفع (Sublimation) عطا کرتی ہیں۔
رشتوں کا تحفظ ہو یا اقدار انسانی کا، دونو ں انسانی معاشرے کے لیے اہم ہیں۔ سیاسی بازی گروں اور مذہبی ٹھیکے داروں نے بھی انسانی قدروں کو خراب و پامال کیا ہے۔ ایسے میں کسی بھی سچے تخلیقی فنکار کے لیے خاموش رہنا مشکل ہوتا ہے۔ ندا، خدا، سماج اور انسانی رشتوں پر کچھ اس طرح اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں:
——
کسی گھر کے کسی بجھتے ہوئے چولھے میں ڈھونڈ اُس کو
جو چوٹی اور داڑھی تک رہے وہ دین داری کیا
——
بندرابن کے کرشن کنہیا اللہ ہو
بنسی، رادھا، گیتا، گیّا اللہ ہوٗ
مولویوں کا سجدہ، پنڈت کی پوجا
مزدوروں کی ہیّا ہیّا اللہ ہوٗ
——
اتنی خونخوار نہ تھیں پہلے عبادت گاہیں
یہ عقیدے ہیں کہ انسان کی تنہائی ہے
——
ندا فاضلی کے اس رویے کو مذہب مخالف نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اس میں انسانی دردمندی اور عظمت آدم کو پس پشت ڈال کر مذہب کے نام پر لڑنے لڑانے والو ںکے لیے دور سے آتی ہوئی ایک کرن ہے۔ معاشرے کے تاریک سینے میں ندا نے ایک شمع روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہیں، یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ ندا کی شاعری میں جہاں انسانی دردمندی کے نغمے ہیں وہیں بچوں کی معصومیت کے تحفظ کا گیت بھی ہے:
——
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہوجائیں گے
——
ہمیشہ مندر و مسجد میں وہ نہیں رہتا
سنا ہے بچوں میں چھپ کر وہ کھیلتا بھی نہیں
——
اسی طرح ان کی ایک مختصر سی نظم ’چھوٹی سی شاپنگ‘ ہے جس میں نہایت ہی سادگی کے ساتھ پانچ سال کی بچی کے لیے ایک گڑیا کی خریداری کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور پھر اس کی منظرکشی میں ندا نے جو تخلیقیت کے رنگ بھرے ہیں، اس سے وہ گڑیا رقص کناں ہوگئی ہے، ملاحظہ کیجیے:
——
گوٹے والی/ لال اوڑھنی/ اس پر/ چولی گھاگھرا
اسی سے میچنگ کرنے والا/چھوٹا سا اک ناگرا
چھوٹی سی!/ یہ شاپنگ تھی/ یا/ کوئی جادو ٹونا
لمبا چوڑا شہر اچانک/ بن کر ایک کھلونا
اتہاسوں کا جال توڑ کے/ داڑھی، پگڑی، اونٹ چھوڑ کے
الف سے/ اماں/ بے سے/ بابا/ بیٹھا باج رہا تھا
پانچ سال کی بچی/ بن کر/ جے پور ناچ رہا تھا
——
دیکھیے کہ کس تخلیقی ہنرمندی کے سبب ’داڑھی پگڑی اور اونٹ‘ جو کہ جے پور (راجستھان) کی تہذیبی شناخت خلق کرتے ہیں، ایک دم سے پانچ سال کی بچی کے لیے خریدی گئی گڑیا میں مبدل ہوکر ناچنے لگتے ہیں۔ یہ ان اشیا کی محض ظاہری تبدیلی نہیں ہے بلکہ اس لطیف جذبے کی قلب ماہیت ہے جو شاعر کے دل میں اس بچی کے لیے پل رہا ہے۔ ندا نے رشتوں کے باطن میں اترنے اور انھیں محسوس کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی معصوم رشتہ جب گاؤں، گھر، خاندان کی طرف مراجعت کرتا ہے تو تخلیقی شعور کی کہکشاں آسمانِ شاعری پر یوں ابھرتی ہے:
——
میں برسوں بعد/ اپنے گھر کو تلاش کرتا ہوا/ اپنے گھر پہنچا/ لیکن میرے گھر میں
اب میرا گھر نہیں تھا/ اب میرے بھائی اجنبی عورتوں کے شوہر بن چکے تھے/ میرے گھر میں
اب میری بہنیں/ انجانے مردو ںکے ساتھ مجھ سے ملنے آئی تھیں/ اپنے اپنے دائروں میں تقسیم
میرے بھائی بہن کا پیار/ اب صرف تحفوں کا لین دین بن چکا تھا/ میں جب تک وہاں رہا
شیو کرنے کے بعد/برش، کریم، سیفٹی ریزر/ خودد ھوکر اٹیچی میں رکھتا رہا/ میلے کپڑے
خود گن کر لانڈری میں دیتا رہا/ اب میرے گھر میں وہ نہیں تھے/ جو بہت سوں میں بٹ کر بھی
پورے کے پورے میرے تھے/ جنھیں میری ہر کھوئی چیز کا پتہ یاد تھا
مجھے کافی دیر ہوگئی تھی/ دیر ہوجانے پر کھویا ہوا گھر/ آسمان کا ستارہ بن جاتا ہے
جو دور سے بلاتا ہے/ لیکن پاس نہیں آتا ہے
(نظم: دور کا ستارہ)
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر امید فاضلی کا یوم وفات
——
اس نظم میں محض ’ندا‘ کا مشاہدہ یا نجی تجربہ نہیں بلکہ گھر خاندان کے افراد کا الگ الگ ہوکر زندگی گزارنا، بھائی بہنوں کی شادیاں ہونے کے بعد آنگن میں ’اجنبیت‘ کا آجانا، تحفے کا لین دین— اس طرح دھیرے دھیرے قربتوں کا دوریوں میں بدل جانا، سب کچھ شامل ہے۔ یہ بہت ہی سچا Landscape ہے جسے ندا فاضلی نے بنایا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں معاصر اردو غزل کی شعریات – پروفیسر قدوس جاوید )
یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ندا نے، اگر غلط نہیں، تو صرف رشتوں کی شاعری کی ہے۔ خاندانی افراد کے رشتوں کی، بہن بھائی اور ماں باپ کے رشتوں کی، پہاڑ اور چرند و پرند کے رشتوں کی، یعنی مظاہر قدرت میں بھی وہ ایک طرح سے رشتوں کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ انھیں شاید رشتوں کی کہانی سنانے میں روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں ایک ’نظم‘ جو کہ غزل کے فورم میں ہے، ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ ندا نے ’ماں‘ کے روپ کو کس طرح پینٹ کرنے کی کوشش کی ہے:
——
بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے چوکا باسن چمٹا پھُکنی جیسی ماں
بانس کی کھرّی کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے
آدھی سوئی، آدھی جاگی، تھکی دوپہری جیسی ماں
چڑیوں کی چہکار میں گونجے رادھا موہن علی علی
مرغی کی آواز سے کھُلتی گھر کی کنڈی جیسی ماں
بیوی، بیٹی، بہن، پڑوسن تھوڑی تھوڑی سی سب میں
دن بھر اک رسّی کے اوپر چلتی نٹنی جیسی ماں
بانٹ کے اپنا چہرہ، ماتھا، آنکھیں، جانے کہاں گئی
پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں
——
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ندا نے ماں پر پورا ایک ناول تحریر کردیا ہے۔ کتنی جہتیں ہیں۔ اردو شاعری میں ’ماں‘ کو طرح طرح سے عقیدتوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ غزل میں، نظم میں، لیکن فی الحقیقت ندا نے جس طرح کی نظم اور جس ڈکشن میں کہی ہے، میں نے ایسی نظم کہیں نہیں پڑھی۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایسی شاعری کا تجزیہ کرنے سے جذبہ و احساس کی لطافت ماند پڑجاتی ہے۔ آخر کے شعر میں تو ماں کے وجود کے بکھرنے یا یہ کہہ لیں کہ ماں کے اپنے وجود کو اپنی نئی نسل میں بانٹ کر خرچ کرکے مٹ جانے کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ آپ ملاحظہ کیجیے کہ کس طرح یہ شعر پورے Sensory Nerves میں سنسناہٹ پیدا کردیتا ہے:
——
بانٹ کے اپنا چہرہ ماتھا، آنکھیں جانے کہاں گئیں
پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں
——
وارث علوی نے ندا پر لکھے گئے اپنے مضمون ’جدید شاعری کا معتبر نام- ندا فاضلی‘(مشمولہ ’ناخن کا قرض‘) میں لکھا ہے اور کہا ہے کہ اقبال کی نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ اچھی ہے مگر فلسفیانہ خیالات سے بوجھل ہے۔ پھر یہ لکھا ہے کہ:
’’میرے نزدیک اردو میں ’ماں’ کے موضوع پر صرف دو نظمیں یادگار رہیں گی۔ فراق کی نظم ’جگنو‘ اور ندا کی منقولہ بالا نظم۔‘‘ (ص 91)
۔حالانکہ ندا نے یہ نظم بغیر کسی عنوان کے کہی ہے اور غزل کی ہیئت میں کہی ہے۔ وارث علوی نے دو صفحات میں اسی نظم کے مختلف نقوش اور جہتوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ندا نے ایک ہندوستانی ماں کی تصویر ہندوستانی پس منظر میں خوبصورت لفظوں کی مدد سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں اختر الایمان :ملاقاتیں اورباتیں – فضیلؔ جعفری )
اس طرح ندا کی شاعری میں انسانی جذبوں کی سرشاری اور زندگی کی بالکل ہی سچی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہے۔ انسانی زندگی اور انسانیت دونوں کو مستحکم کرنے والے جو بھی عوامل اور عناصر شاعری کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں، ندا نے انھیں بہت ہی خوش اسلوبی سے استعمال کیے ہیں۔ پوری کائنات اور بالخصوص ہندوستانی زمین اور اس زمین پر تنے ہوئے نیلے شامیانے اور اس شامیانے میں جڑے ہوئے چاند سورج اور ستارے اور ان دونوں کے بیچ خلاؤں میں اڑتے ہوئے رنگ برنگ پرندوں کو ندا نے بہت ہی قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ چاند، مانجھی، ندی، دریا، گوریا، پیپل کے پتے، برکھارُت، ساون، بھادوں، انگیٹھی، کٹیا، بگلوں کی ڈاریں، کٹورے سا تال، مٹکے کا پانی او ربھی ایسے نشانات و آیات جو ہماری ہندوستانی تہذیبی بساط کو خوب صورت بناتے ہیں، ندا نے انھیں اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ آپ ان الفاظ پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ بہت کم اُرد وکے شعرا ہیں جو ان کو اپنی شاعری میں جگہ دے پاتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے، اپنی تہذیبی جڑوں سے دوری یا کم ازکم ان کی طرف توجہ کا فقدان۔ اگر یہاں الفاظ کے اچھے یا برے ہونے کی بحث چھیڑ دی جائے تو بات غیرضروری طور پر نظریاتی مباحث کی لیک پر چل نکلے گی اور ایسے میں ندا فاضلی کے شعری منشور سے چھن کر آنے والی ست رنگی شعاعوں سے ہمارے ذہن منور نہیں ہوسکیں گے، اس لیے اس بحث کو یہیں موقوف کیا جاتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : خدا کے نام سے ہی ابتدا ہے
——
اب تک جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی، ندا نے ان کے علاوہ بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ شاعروں کا محبوب موضوع عشق بھی رہا ہے۔ عشقیہ مضامین اور ان کے ارتعاشات بھی ندا کی شاعری میں ملتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی نظم ’ایک ملاقات‘ دیکھیے:
——
نیم تلے دو جسم اجانے چم چم بہتا ندیا جل
اُڑی اُڑی چہرے کی رنگت کھلے کھلے زلفوں کے بل
دبی دبی کچھ گیلی سانسیں جھکے جھکے سے نین کنول
نام اس کا؟ دو نیلی آنکھیں
ذات اس کی؟ رستے کی رات
مذہب اس کا؟ بھیگا موسم
پتا؟ بہاروں کی برسات
——
نظم پڑھتے ہوئے آپ الفاظ و تراکیب میں قطعی نہیں الجھتے بلکہ اس کی روانی میں آپ بھی بہتے چلے جاتے ہیں۔ سچا جذبہ، سچا اور سیدھا اسلوب اظہار، یہی ہے ندا کی شاعری کا واضح نقش۔ فکری پیچیدگی سے پرے اور پیچیدہ اسلوب سے دور ندا کی شاعری الگ سے پہچانی جاسکتی ہے۔ ان کی شاعری میں عشق کا جذبہ کچھ یوں بھی اترتا ہے:
——
جب جب موسم جھوما ہم نے کپڑے پھاڑے شور کیا
ہر موسم شائستہ رہنا کوری دنیا داری ہے
——
ہر اک رستہ اندھیروں میں گھرا ہے
محبت اک ضروری حادثہ ہے
——
تم سے چھُٹ کر بھی تمھیں بھولنا آسان نہ تھا
تم کو ہی یاد کیا تم کو بھلانے کے لیے
——
اکیلے کمرے میں گلدان بولتے کب ہیں
تمھارے ہونٹ ہیں شاید گلاب میں شامل
——
اب بھی یوں ملتے ہیں ہم سے پھول چنبیلی کے
جیسے اُن سے اپنا کوئی رشتہ لگتا ہے
——
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اُتر کیوں نہیں جاتا
——
اور پھر ایک خوب صورت مشورہ کہ:
——
عشق کرکے دیکھیے اپنا تو یہ ہے تجربہ
گھر، محلہ، شہر، سب پہلے سے اچھا ہوگیا
——
اگر بغور دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ندا نے عشقیہ مضامین کو زیادہ وسعت نہیں دی ہے۔ چونکہ انھوں نے زندگی کے تلخ تجربے اور مشاہدے سمیٹے ہیں، ان کے گلے گلے دکھوں اور جدوجہد کا پانی آیا ہے، لہٰذا زمانے کے اندر اتر کر ان کی تخلیقی حسیت نے انھیں ایک ایسے شاعر کے روپ میں ابھارا ہے جو اپنے ہم عصروں میں مضامین اور اسالیب اظہار دونوں سطحوں پر الگ نظر آتا ہے۔
ایسے میں کبھی شان قلندری بھی پیداہوجاتی ہے او رکبھی زندگی کے مختلف اچھے برے نقوش بھی ابھرتے ہیں:
——
ہر اک آنگن میں دیواریں کھڑی ہیں
سبھی کے پاس کچھ پرچھائیاں ہیں
——
آنکھیں کہیں، نگاہ کہیں، دست و پا کہیں
کس سے کہیں کہ ڈھونڈو بہت کھو رہے ہم
——
رستوں کے نام وقت کے چہرے بدل گئے
اب کیا بتائیں کس کو کہاں چھوڑ آئے ہیں
——
مسمار ہورہی ہیں دلوں کی عمارتیں
اللہ کے گھروں کی حفاظت نہیں رہی
——
خوشی منائیے آئینہ سامنے رکھ کر
خود اپنے کھونے کا ڈر بھی خیال میں رکھیے
——
او رپھر ندا ایک اُچٹتی سی نگاہ پوری کائنات پر ڈالتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں:
——
زمین پیروں تلے سر پہ آسماں کیوں ہے
جہاں جہاں جور کھا ہے وہاں وہاں کیوں ہے
——
بڑا شاعر، بڑا فنکار کائنات اور اشیائے کائنات پر سوالات قائم کرتا ہے۔ غالب کے یہاں تو اس کی مثالیں بھری پڑی ہیں:
——
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
——
کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لب بے سوال ہے
——
اسی طرح دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے، والی پوری غزل سوالوں پر قائم ہے۔ اس غزل کے یہ اشعار:
——
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
عشوہ و غمزہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
——
اور دیوانِ غالب کی پہلی غزل کا مطلع ہی سوال قائم کرتا ہے:
——
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
——
خیر، عرض یہ کرنا ہے کہ ندا فاضلی نے اس پوری کائنات کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی بیشتر اشیا کو اپنے باطن میں اتارنے، سنوارنے اور پھر الفاظ کے پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے نظموں اور غزلوں کو کم و بیش مساوی طور پر اپنی تخلیقات میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے ایک خاص بات جو سمجھ میں آتی ہے، وہ ہے ان کا اپنی مٹی اور اس کی جڑوں سے پیار۔ بلکہ ایسا جیسے ان کے لہو میں اس دھرتی کا رنگ (Ochre) حلول کرگیا ہے۔ ان کے دوہے تو اس بات کی توثیق کرتے ہی ہیں، مفرس و معرّب الفاظ و تراکیب سے وہ تقریباً بچتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں صوفی سنتوں کے اقوال احساس کی حد تک اور ہندوستانی رنگ تنفس کی حد تک نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں Urban کردار کے بجائے ایک Rural اور دیہی کردار ابھرتا ہے اور اسی لیے انھوں نے اپنے کلیات کو بھی ’شہر میں گاؤں‘ سے موسوم کیا ہے۔ آخر میں یہ شعر ملاحظہ کیجیے جو میرے خیال سے، ندا فاضلی کی شعری اساس تک پہنچنے کا راستہ دیتا ہے:
——
کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے
رنگ اڑائے، پھول کھلائے، چڑیوں کو آزاد کیا
——
یہ بھی پڑھیں : خدا و ندا (مدینہ میرامسکن ہو) توکیا کہنا
——
نمونہ کلام
——
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
——
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
اُن چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
——
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
——
فاصلہ نظروں کا دھوکا بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
——
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
——
مجھ جیسا اک آدمی میرا ہی ہمنام
اُلٹا سیدھا وہ چلے مجھے کرے بدنام
——
پیا نہیں جب گاؤں میں
آگ لگے سب گاؤں میں
کتنی میٹھی تھی املی
ساجن تھے جب گاؤں میں
سچ کہہ گُیّاں اور کہاں
ان جیسی چھب گاؤں میں
ان کے جانے کی تاریخ
دنگل تھا جب گاؤں میں
دیکھ سہیلی دھیمے بھول
بیری ہیں سب گاؤں میں
کتنی لمبی لگتی ہے
پگڈنڈی اب گاؤں میں
من کا سودا، من کا مول
کیسا مذہب گاؤں میں
——
لہریں پڑیں تو سویا ہوا جل مچل گیا
پربت کو چیرتا ہوا دریا نکل گیا
رنگوں کے امتزاج میں پوشیدہ آگ تھی
دیکھا تھا میں نے چھو کے مرا ہاتھ جل گیا
اکثر پہاڑ سر پہ گرے اور چپ رہے
یوں بھی ہوا کہ پتّہ ہلا، دل دہل گیا
پہچانتے تو ہوگے نِدا فاضلی کو تم
سورج کو کھیل سمجھا تھا، چھوتے ہی جل گیا
——
شعورِ مرگ
اسے نہیں معلوم
کہ امّا ں کیوں روتی ہیں
سر لٹکاے بہنیں کیوں بیٹھی رہتی ہیں
سورج ڈھلتے ہی
کتّا رونے لگتا ہے
گھڑی گھڑی دروازے کو تکنے لگتا ہے
گھر کا آنگن
میلا میلا کیوں رہتا ہے؟
جگہ جگہ پر پانی پھیلا کیوں رہتا ہے
اسے نہیں معلوم
کہ گُڑیا کب آئ تھی
مٹّی کی ہنڈیا کس نے دلوائ تھی
لیکن جب کوئ پھیری والا آتا ہے
یا کوئ گھر والا اس کو دھمکاتا ہے
جانے وہ کیا ادھر ادھر دیکھا کرتا ہے
جیسے کوئ کھوئ شے ڈھونڈھا کرتا ہے
اور اچانک چِلّا کر رونے لگتا ہے
اسے نہیں معلوم
——
بوجھ
میرے بکھرے بالوں پر اور بھی تو ہنستے ہیں
میری خستہ حالی پر قہقہے لگاتے ہیں
میری ہر تباہی پر حاشئے چڑھاتے ہیں
اب تو جو بھی ملتے ہیں اجنبی سے ملتے ہیں
آنکھیں کھوئ رہتی ہیں، صرف ہونٹ ہلتے ہیں
صرف ایک تم اتنے کیوں خموش رہتے ہو
میری تلخ باتوں کو ہنس کے ٹال دیتے ہو
میں جہاں نظر آؤں، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہو
جان بوجھ کر میں نے کپ کو نیچے پھینکا ہے
بے سب ہی شبنم کو مار کر رلایا ہے
پین کے نئے نِب کو میز پر چلایا ہے
کیوں خفا نہیں ہوتے، کیوں بگڑ نہیں جاتے
کس لئے بھلا مجھ سے اب جھگڑ نہیں پاتے
ٹیڑھی میڑھی نظروں سے گھور کر جدا ہو جاؤ
دوست چند لمحوں کو آج پھر خفا ہو جاؤ
اور بھی تو ہنستے ہیں
——
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین تو کہیں آسمان نہیں ملتا
جسے بھی دیکھئے وہ اپنے آپ میں گم ہے
زبان ملی ہے مگر ہم زبان نہیں ملتا
بجھا سکا ہے بھلا کون وقت کے شعلے
یہ ایسی آگ ہے جس میں دھواں نہیں ملتا
تیرے جہاں میں ایسا نہیں کے پیار نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی،وہاں نہیں ملتا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ