اردوئے معلیٰ

Search

آج ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مقبول و معروف شاعر وسیم بریلوی کا یوم پیدائش ہے

وسیم بریلوی(پیدائش:8 فروری 1940ء)
——
نام زاہد حسن اور تخلص وسیمؔ ہے۔ 8 فروری 1940ء کو بریلی(یوپی) بھارت میں پیدا ہوئے۔
آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔
ابتدائی درجات سے ایم اے تک انھوں نے امتیازی پوزیشن حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا پھربریلی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔
انھوں نے روہیل کھنڈ یونیورسٹی میں ڈین آف فیکلٹی آرٹس ہونے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔
بھارت میں پروفیسر وسیم بریلوی کے فن اور شخصیت پر ڈاکٹر جاوید نسیمی نے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
وسیم بریلوی کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۵۹ء سے ہوا۔ جب انھوں نے باقاعدہ شاعری شروع کی تو سب سے پہلے اپنے والد صاحب کو غزلیں دکھائیں۔ بعد میں *منتقم حیدری صاحب* سے باقاعدہ اصلاح لی۔
ان کا ترنم بہت اچھا ہے اور یہ مشاعرے کے کامیاب شاعر ہیں۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’تبسّمِ غم‘‘،
’’آنسو میرے دامن میں‘‘ (شعری مجموعہ۔دیوناگری رسم الخط میں)،
’’مزاج‘‘، ’’آنسو آنکھ ہوئی‘‘، ’’پھرکیا ہوا‘‘ (مجموعہ کلام)۔
’’مزاج‘‘ پر اردو اکیڈمی لکھنؤ کا اعلیٰ تحقیقی ایوارڈ ملا۔
میراکادمی کی جانب سے ’’امتیازِ میرؔ ‘‘ ملا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف ادیب سید الطاف علی بریلوی کا یوم وفات
——
ان کے علاوہ انھیں اورکئی ایوارڈ اور اعزازات عطا کیے گئے۔
——
وسیم بریلوی:نئی نعت کا پیشرو شاعر از احمد جاوید ، بھارت
——
کھڑی ہیں دست بستہ خوشبوئیں پھولوں کی پلکوں پر
کسی کا جیسے نعت پاک کہنے کا ارادہ ہے
——
شعور کی رو خود بخود ماضی کے ان ایام میں چلی گئی جب یہ اور اس طرح کے اشعارکانوں میں پڑتے تھے تو نعت کی محفلوں،جلسوں اور مشاعروں میں گھڑی بھر کو ایک نئی دنیا آباد ہوجاتی تھی اور ایک تازہ ہوا کے جھونکے مشام جاں کو معطر کر دیتے تھے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ قمر گونڈوی صاحب نے وسیمؔ بریلوی پر اپنی زیر طبع کتاب کا مسودہ دیااوراصرار کرنے لگے کہ یہ ناچیز بھی کچھ لکھے۔ میرے ایک عزیزدوست اور شاعر ڈاکٹر عمیر منظرؔ اکثر یہ شعر بڑی وارفتگی کے ساتھ پڑھتے اور اپنے مخصوص انداز و الفاط میں کہتے ہیں’ اردو کی نعتیہ شاعری میں وسیم بریلوی کے اس شعر کا کوئی جواب نہیں ہے:
——
فلک کو میزبانی کی سعادت جب ملی ہوگی
تو بے چاری زمیں کی رات آنکھوں میں کٹی ہوگی
——
بے شک اردو فارسی کی نعتیہ شاعری کے ذخائر میں تغزل کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے موجود ہیں،جن میں نازک خیالی اور ندرتِ بیان اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے لیکن خیال کی یہ نزاکت،اسلوب کی یہ ندرت اور لب و لہجہ کی یہ تازگی کہیں اور مشکل ہی سے ملے گی، اوروہ بھی اس سادگی کے ساتھ جو اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتی ہے، دل سے نکلتی ،دل میں اتر جاتی ہے۔
دراصل شاعری تخلیقی عمل ہے،محض صناعی یااختراع ہرگز نہیں،جو لوگ اوزان و قوافی کو شاعری سمجھتے اور لفظوں کی صنعت گری میں لگے رہتے ہیں،مصرعوں کی نوک پلک سنوارتے عمر گزر جاتی ہے ، شاعری کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہوتی ،کاریگری ہوجاتی ہے ،فن لطیف کا در وانہیں ہوتا کیونکہ یہ جذبوں کے جمالیاتی اظہار کا فن ہے، الفاظ جب احساس سے ہم آہنگ ہوتے ہیں تو شعر میں جان پڑتی ہے۔ ورنہ لاکھ الفاظ کے موتی پرو دیں، لعل و زمرد لے آئیں،چاہے جتنا رنگ و روغن بھریں وہ بے روح بدن ہوتا ہے ،مکان بے مکیں۔کسی نے کتنی خدا لگتی بات کہی ہے کہ ’نغمے تو آدمی کی روح میں ربِ صوت و آہنگ،مالکِ حرف و نوا،خالقِ اظہارو بیان رکھ دیتا ہے۔یہ صوت و نوا آدمی کے ساتھ نشوونما پاتی ہے اور پھر کسی لمحہ اس کا اظہار ہوجاتا ہے‘ مگر وسیم بریلوی کو جس نے بھی دیکھا سنا ہے وہ شخصیت کا سراپا شعر ہونایا کسی کے تار نفس کی ہرتان کا نغمہ سرمدی ہوجانابہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔
یاد نہیں آتا کہ وسیم بریلوی کو میں نے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا تھا،پٹنہ یا کلکتہ کے کسی مشاعرے میں یاٹیلیویژن کی آمد کے ساتھ اس کے پردے پر، میرے لیے استاذ گرامی حسان العصر علامہ شبنم کمالی کے بعد یہ کسی شاعر کی دوسری شخصیت تھی جس کے ریشمی سراپا اوراس کے لب و لہجہ کی لطافت و نزاکت میں ناقابل تصور مطابقت تھی اور جس کے الفاظ و احساس کی ہم آہنگی ماحول پر چھا جانے کی بے پناہ قوت رکھتی تھی۔اب اس واقعہ کوتیس پینتیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن کوئی اور ان کی جگہ نہ لے سکا۔ان دونوں میں ایک اور قدر مشترک بھی تھی اور وہ تھی ان کی نعت گوئی اور نعت میں ان کے لب و لہجہ کی جدت و ندرت۔ اس مدت میں نئی غزل کی کئی آوازیں ابھریں اور ڈوب گئیں، مشاعروں کے اسٹیج پر توکیسے کیسے’ فنکار‘ اورگویے آئے اور گئے لیکن جو پائدار مقبولیت و محبوبیت وسیم نے پائی وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ نصف صدی کے طویل عرصے میں یہ لازوال مقبولیت کسی کے حصہ میں نہیں آئی،ان کے پیشروؤں میں بھی صرف جگرؔ ؔ مرادآبادی نظر آتے ہیں جو طویل عرصہ تک مشاعروں کی دنیا پر چھائے رہے لیکن وہ زمانہ اور تھا۔(نہ دنیا اتنی پھیلی تھی نہ اتنی سمٹی تھی نہ ایسی تیز رفتار تھی۔ ابھی پرانی قدریں زندہ تھیں اور ان کو اس شکست و ریخت سے دوچار ہونا باقی تھاجو آنے والے وقتوں نے دیکھا)۔یاد آتا ہے کہ ایک مصاحبہ میں وسیم بریلوی سے کسی صحافی نے ان پر عمر کا اثر نظرنہ آنے کا راز جاننا چاہا تھااور وہ کوئی تشفی بخش جواب دینے کی بجائے صرف اتنا کہہ کر رہ گئے تھے کہ قدرت نے جس معصوم شکل و صورت کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے اسی معصومیت کے ساتھ دنیا سے واپسی کروں گا ۔ دراصل اس سادگی ، شائستگی اور طہارت کو کوئی اور نام دیاہی نہیں جاسکتا جو قدرت نے ان کی شخصیت اور شاعری میں رکھی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف ادیب سید الطاف علی بریلوی کا یوم پیدائش
——
بلاشبہ لالہ کی حنا بندی فطرت خود بہ خود کرتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس پر خارجی عوامل کا اثر نہیں ہوتا، ماحول کے سردو گرم اسے متأثر نہیں کرتے یایہ کسی شعوری کاوش کا نتیجہ نہیں ہوتی۔حق تو یہ ہے کہ اظہارو بیان کی اس منزل کو پانے کے لیے ایک مدت کی مشق و مزاولت اور ایک عمر کی ریاضت درکار ہوتی ہے بلکہ اس کا تقاضہ عبادت کی طرح کرنے کا ہوتا ہے ۔وسیمؔ بریلوی کی شاعری اور شخصیت دونوں اس حقیقت کا آئینہ ہے۔وہ اپنی شاعری بالخصوص نعت گوئی کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں لیکن وہ اپنے عہد اور اپنے ماحول سے گہرا ارتباط بھی رکھتی ہے:
——
وسیم کیسے زمانہ ہمیں بھلائے گا
ہمارے شعروں میں اک دور سانس لیتا ہے
——
وسیم ؔ کی شاعری اپنے عہد کی ایک درد آگیں داستان سناتی ہے،ان کے ہر لفظ میں ایک ٹیس اور ہر لے میں ایک آہ سی محسوس ہوتی ہے جو ایک چنگاری سی دلوں میں اتار دیتی ہے لیکن ایک عجیب سی مٹھاس اور ایک بے حد پرکیف نغمگی کے ساتھ۔وہ احتجاج بھی کرتے ہیں توکچھ اس انداز سے کہ :
——
تم گرانے میں لگے تھے ،تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہوجاؤں گا
——
کھلی چھتوں کے دئیے کب کے بجھ گئے ہوتے
کوئی تو ہے جو ہواؤں کے پر کترتا ہے
——
چراغ راہ کی قسمت پہ رحم آتا ہے
ہوا کے زور سے لڑنا بھی اور جلنا بھی
——
دھوپ کے ایک ہی موسم نے جنہیں توڑ دیا
اتنے نازک بھی یہ رشتے نہ بنائے ہوتے
——
ہنسی جب آئے ،کسی بات پر آتی ہے
اداس ہونے کا اکثر سبب نہیں ہوتا
——
میں اپنے پاؤں میں زنجیر ڈال کر خود ہی
یہ سوچتا ہوں کہ آخر مری خطا کیا ہے
——
غزل کے نازک آبگینہ میں غم روزگار کی حکایتیں پیش کرنا کوئی وسیمؔ بریلوی سے سیکھے۔وسیم ؔ نے ترقی پسندی کے دور میں آنکھیں کھولیں،جدیدیت کا عروج و زوال دیکھا، مابعد جدید رجحانات کا زمانہ بھی دیکھ رہے ہیں۔اس دوران شعرو ادب کی دنیا کیا سے کیا ہوگئی، کتنوں نے اپنا قبلہ بدلا ، آستانے بدلے اور روئے سخن بدل لیالیکن وسیم ؔ بریلوی کو اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔انہوں نے شعوری طور پر اپنی ایک راہ نکالی تھی جس سے وہ کبھی نہیں ہٹے۔بہ غور دیکھیں تو وہ ان شعراء میں ہیں جو اردو کی دو نسلوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔بالخصوص اردو کی نعتیہ شاعری کو جن شعرا نے جدید حسیت، نئی لفظیات اور فکری و فنی تازگی سے ہمکنار کیا،ان میں ایک نام وسیمؔ کا بھی ہے۔ بلکہ جس طرح نئی غزل کے پیش روؤں کا ذکر آتے ہی سب سے پہلے یاس یگانہؔ چنگیزی کا نام ذہن پر دستک دینے لگتا ہے پھر شادؔ ، فراقؔ ، فانیؔ ، اصغرؔ ، حسرتؔ اور جگرؔ کے نام آتے ہیں۔ اسی طرح نئی نعت کے پیش رؤوں میں سب سے پہلے وسیم کانام، ذہن پردستک دیتاہے۔وسیم آج ایک غزل گوشاعر کی حیثیت سے شہرت ومقبولیت کے جس مقام پر ہیں،وہاں ان کے تعلق سے مشکل ہی سے کسی کا ذہن اس جانب جائے گا کہ ان کی شاعری کاابتدائی و تشکیلی دورنعتوں، مرثیوں اور نوحوں کا ہے اور یہ کہ اپنے شعری سفر میں انہوں نے نعت پاک کے دامن کوکبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہ ذکر پہلے ہی آچکاہے کہ وہ نعت گوئی کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں ۔یقیناًاس میں اس ماحول کا بڑا ہاتھ ہے جس میں وسیم ؔ کی نشوو نما ہوئی۔انہوں نے بریلی میں آنکھیں کھولیں جس کی فضا امام احمد رضاؔ بریلوی اور حضرت حسن ؔ بریلوی کی نعتوں اور سلاموں سے معطر تھی ،ان کی ابتدائی زندگی کا ایک بڑاحصہ رامپور میں گزراجس کواردو شعروادب میں ایک دبستان کا درجہ حاصل رہا ہے اوران کے والد نسیم ؔ مرادآبادی خود بھی شاعر تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز استاد، محقق، نقاد اور مصنف ڈاکٹر عبادت بریلوی کا یوم وفات
——
اردو میں نعت گو شعراء کی بڑی طویل فہرست ہے ۔ابتدا سے آج تک شاذونادر ہی کسی شاعرنے اپنے دیوان یا مجموعہ کلام کا آغاز حمدو نعت سے نہ کیا ہو لیکن ایسے شعرا ء انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جنہوں نے نعت گوئی میں اپنی شناخت بنائی ہو یا نعت میں فکر وفن کے نئے گوشے روشن کئے ہوں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ان مٹھی بھر عندلیبان حریم قدس کے فکر وفن کی قدروقیمت جاننے یاان کے کلام کے تنقیدی مطالعہ کا کوئی نظام فروغ نہ پا سکا۔ پچھلے پندرہ بیس سال میں نعتیہ شاعری کے مطالعہ کو ضرور کچھ فروغ حاصل ہوا ہے۔رسالہ’ نعت رنگ‘ کراچی نے بہت اچھی کوششیں کی ہیں۔ اس حوالے سے ابھر نے والے بعض قلمکاروں مثلاً راجا رشید محمود، عزیز احسن، حسرت کاس گنجوی، ڈاکٹر سید شمیم گوہر وغیرہ کے کاموں کی قدر وقیمت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔ لیکن ابھی تک اردو کی نعتیہ شاعری کا کوئی مربوط مطالعہ سامنے نہیںآسکا۔ آیا ہو تو میری نگاہ سے نہیں گزرا۔ حالانکہ نعت گوشعراء پر برصغیر کی یونیورسٹیوں میں اب تحقیقی مقالے بھی لکھے جارہے ہیں اور ڈاکٹر یٹ کی ڈگریاں بھی دی جارہی ہیں۔ ایسی کئی پی ایچ ڈی خود وسیم بریلوی کی نگرانی ورہنمائی میں بھی ہوچکی ہے لیکن یہ تحقیق اور اس نوعیت کے مطالعے اس لئے نتیجہ خیز نہیں ہوتے کہ نہ تو کام کا معیار متعین ہوتاہے، نہ نعت کے صنفی ارتقا کی تاریخ اور وسعت ہی سامنے ہوتی ہے۔ جب بھی یہ کام ہوا اردو میں وسیمؔ بریلوی کی نعت گوئی کے صحیح مقام ومرتبہ کا تعین ہوسکے گا۔
ابھی تک تو ہم اردونعت میں فکر وفن کے تعلق سے باتیں کرتے ہیں تو مرزا محمد رفیع سوداؔ اور کرامت علی شہیدیؔ ؔ سے شروع کرکے غلام امام شہیدؔ ، کافیؔ مرادآبادی، محسنؔ کاکوروی، امیرؔ مینائی،امام احمد رضاؔ بریلوی اور حسنؔ بریلوی پرقصہ تمام کردیتے ہیںیا زیادہ سے زیادہ حالیؔ ، شبلیؔ ، اقبال ؔ ، محمد علی جوہرؔ اور ظفرؔ علی خاں سے امیرؔ مینائی ، محسنؔ کاکوروی، بیدم ؔ شاہ وارثی، اکبر ؔ وارثی،امام احمدرضاؔ بریلوی ، آسی غازیپوری، بہزادؔ لکھنوی،حفیظؔ جالندھری اور ماہرؔ القادری تک پہنچتے پہنچتے ہماری سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں ۔ بہت زور مارا تو حالیؔ ، شبلی ؔ اور اقبالؔ کے زیر اثرنعت کے موضوعات میں آنے والی وسعت اور تنوع وغیرہ پر گفتگو کرکے اپنی باتوں میں وزن پیداکرنے کی کوشش کرلی حالانکہ ۱۹۵۰ء کے بعد کی اردو شاعری پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تواردونعت کے تعلق سے مطالعہ کا ایک بڑا وسیع کینوس ابھر کر سامنے آتاہے۔ علامہ قتیلؔ داناپوری،ضیاؔ بدایونی، واقفؔ عظیم آبادی، نجمؔ ؔ خیرآبادی، مہرؔ شکروی، رازؔ الہ آبادی،قمر ؔ سلیمانی، ادیب ؔ مکن پوری، بیکل ؔ اتساہی، اجملؔ سلطانپوری، حفیظؔ بنارسی، شبنمؔ کمالی، علقمہ شبلیؔ ، وسیمؔ بریلوی، حبیب ؔ ہاشمی، عثمان عارفؔ نقشبندی، جوہرؔ بجنوری، قمر ؔ گونڈوی، کوکبؔ حیدرآبادی ، اعجازؔ کامٹوی، نیرؔ دموہی، ابوالمجاہد زاہدؔ ،طلحہ رضوی برقؔ ، حسیب رہبرؔ ؔ پرتاپگڈھی، عزیزؔ بگھروی ،رباب ؔ رشیدی لکھنوی، مختار احمد عاصیؔ ، ابرارؔ کرتپوری، تابشؔ مہدی، نازؔ انصاری اور پاکستان میں عبدالعزیز خالدؔ ، حٖٖفیظ تائبؔ ، عاصیؔ کرنالی، مظفرؔ وارثی ، حافظ ؔ لدھیانوی اور نعیم ؔ صدیقی وغیرہ پر نگاہیں ٹھہر جاتی ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے بعد ابھر نے والی نسل میں صبیحؔ رحمانی بڑا ہی نمایاں نام ہے جس نے نعت کے حوالے سے نئی شعر یات دریافت کی ہے ۔ ہندوستان میں یہ کام چند ربھان خیالؔ ، عنبر ؔ بہرائچی ،طاہر ؔ فراز اور حلیمؔ حاذق جیسے شعراء کررہے ہیں۔ چونکہ اس وقت اس عہد کے نعت گو شعرا کی کوئی باضابطہ فہر ست یا ان کے کلام کے نمونے ہمارے سامنے نہیں ہیں ،اسلئے عین ممکن ہے کہ کئی اہم نام چھوٹ رہے ہوں لیکن اس مختصر فہرست سے بھی اردو میں نعت گوئی کی نصف صدی کا جو منظر نامہ ابھر کر سامنے آتاہے وہ بہت ہی وقیع،وسیع اور کثیر الابعاد وہمہ جہات ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز استاد، محقق، اور مصنف ڈاکٹر عبادت بریلوی کا یوم پیدائش
——
یہ ذکر پہلے ہی آچکا ہے کہ نئی نعت کے پیش رؤوں کا ذکر کیجئے تو وسیم بریلوی کانام سب سے پہلے ذہن پر دستک دیتاہے۔ نعت کے تحقیقی وتنقیدی مطالعہ کے فروغ میں بھی وسیم بریلوی کی خدمات نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔ان کی نگرانی و رہنمائی میں روہیل کھنڈ یونیورسیٹی (بریلی )میں جواردو کے نعت گو شعرا ء بالخصوص امام احمد رضاؔ بریلوی کی شعری و نثری خدمات پر الگ الگ تحقیقی کام ہوئے ہیں، وہ بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ نئی نعت کے پیش رؤوں میں مظفر ؔ وارثی، بیکلؔ اتساہی، شبنمؔ کمالی اور ان کے بعض دیگرمعاصرین کے نام بے شک زیادہ وقیع وباوزن ہیں۔وسیمؔ اپنے ان ہمعصروں سے عمر میں بھی کم ہیں اور میدان شعر وسخن میں بھی بعد میں آئے ۔پھر یہ کہ ان شاعروں نے زیادہ تو اتر اور تسلسل سے نعتیں کہی ہیں اور عین ممکن ہے کہ وسیم کی نعتیہ شاعری کی ضخامت ان سے بہت کم ہو لیکن نعت میں نئے رنگ وآہنگ اور نئی لفظیات کے برتاؤ میں ان کو ان پر سبقت بھی حاصل ہے اور یہ رجحان ان کی نعتوں میں زیادہ نمایاں بھی ہے۔
——
منتخب کلام
——
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
——
تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
——
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا
——
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
——
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
——
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
——
ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف
پھر یہ بھی چاہتا ہے اسے راستا ملے
——
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا
رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا
وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا
جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا
آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے
یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا
اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ
اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا
——
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے
پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے
لاکھ تلواریں بڑھی آتی ہوں گردن کی طرف
سر جھکانا نہیں آتا تو جھکائیں کیسے
قہقہہ آنکھ کا برتاؤ بدل دیتا ہے
ہنسنے والے تجھے آنسو نظر آئیں کیسے
پھول سے رنگ جدا ہونا کوئی کھیل نہیں
اپنی مٹی کو کہیں چھوڑ کے جائیں کیسے
کوئی اپنی ہی نظر سے تو ہمیں دیکھے گا
ایک قطرے کو سمندر نظر آئیں کیسے
جس نے دانستہ کیا ہو نظر انداز وسیمؔ
اس کو کچھ یاد دلائیں تو دلائیں کیسے
——
محبت نا سمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے
جو دل میں ہے اسے آنکھوں سے کہلانا ضروری ہے
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
نئی عمروں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے
کہاں سے بچ کے چلنا ہے کہاں جانا ضروری ہے
تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیے لوٹیں
سلیقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے
بہت بے باک آنکھوں میں تعلق ٹک نہیں پاتا
محبت میں کشش رکھنے کو شرمانا ضروری ہے
سلیقہ ہی نہیں شاید اسے محسوس کرنے کا
جو کہتا ہے خدا ہے تو نظر آنا ضروری ہے
مرے ہونٹوں پہ اپنی پیاس رکھ دو اور پھر سوچو
کہ اس کے بعد بھی دنیا میں کچھ پانا ضروری ہے
——
حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں
زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں
تم نے میرے گھر نہ آنے کی قسم کھائی تو ہے
آنسوؤں سے بھی کہو آنکھوں میں آنا چھوڑ دیں
پیار کے دشمن کبھی تو پیار سے کہہ کے تو دیکھ
ایک تیرا در ہی کیا ہم تو زمانہ چھوڑ دیں
گھونسلے ویران ہیں اب وہ پرندے ہی کہاں
اک بسیرے کے لئے جو آب و دانہ چھوڑ دیں
——
نظم : دیوانے کی جنت
میرا یہ خواب کہ تم میرے قریب آئی ہو
اپنے سائے سے جھجکتی ہوئی گھبراتی ہوئی
اپنے احساس کی تحریک پہ شرماتی ہوئی
اپنے قدموں کی بھی آواز سے کتراتی ہوئی
اپنی سانسوں کے مہکتے ہوئے انداز لئے
اپنی خاموشی میں گہنائے ہوئے راز لئے
اپنے ہونٹوں پہ اک انجام کا آغاز لئے
دل کی دھڑکن کو بہت روکتی سمجھاتی ہوئی
اپنی پائل کی غزل خوانی پہ جھلاتی ہوئی
نرم شانوں پہ جوانی کا نیا بار لئے
شوخ آنکھوں میں حجابات سے انکار لئے
تیز نبضوں میں ملاقات کے آثار لئے
کالے بالوں سے بکھرتی ہوئی چمپا کی مہک
سرخ عارض پہ دمکتے ہوئے شالوں کی چمک
نیچی نظروں میں سمائی ہوئی خوددار جھجک
نقرئی جسم پہ وہ چاند کی کرنوں کی پھوار
چاندنی رات میں بجھتا ہوا پلکوں کا ستار
فرط جذبات سے مہکی ہوئی سانسوں کی قطار
دور ماضی کی بد انجام روایات لئے
نیچی نظریں وہی احساس ملاقات لئے
وہی ماحول وہی تاروں بھری رات لئے
آج تم آئی ہو دہراتی ہوئی ماضی کو
میرا یہ خواب کہ تم میرے قریب آئی ہو
کاش اک خواب رہے تلخ حقیقت نہ بنے
یہ ملاقات بھی دیوانے کی جنت نہ بنے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ