اردوئے معلیٰ

Search

آج ممتاز شاعر اور ڈرامہ نگار عدیم ہاشمی کا یوم وفات ہے ۔

عدیم ہاشمی (پیدائش: یکم اگست، 1946ء – وفات: 5 نومبر، 2001ء)
——
عدیم ہاشمی یکم اگست، 1946ء کو ڈلہوزی، بھارت برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام فصیح الدین تھا۔۔ عدیم ہاشمی کا شمار اردو کے جدید شعرا میں ہوتا تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں ترکش، مکالمہ، فاصلے ایسے بھی ہوں گے، میں نے کہا وصال، مجھے تم سے محبت ہے، چہرا تمہارا یاد رہتا ہے، کہو کتنی محبت ہے اور بہت نزدیک آتے جا رہے ہو کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ایک ڈراما سیریل آغوش بھی تحریر کیا اور مشہور ڈراما سیریز گیسٹ ہاؤس کے لیے بھی کچھ ڈرامے تحریر کیے۔
شعری مجموعے
مکالمہ
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو
چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے
فاصلے ایسے بھی ہوں گے
ترکش
کہو کتنی محبت ہے
میں نے کہا وصال
مجھے تم سے محبت ہے
ڈرامے
گیسٹ ہاؤس
عدیم ہاشمی 5 نومبر، 2001ء کو شکاگو، ریاستہائے متحدہ امریکا میں وفات پا گئے اور شکاگو میں پاکستانیوں کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔
——
’سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا‘ عدیم ہاشمی نے جدید غزل پر انمٹ نقوش چھوڑے
تحریر : عبد الحفیظ ظفر
——
60اور 70کی دہائی میں پاکستان میں جدید غزل کے رجحانات منظرِعام پر آئے اور کئی ایک شعرا نے اس میدان میں اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ ظفر اقبال کا نام اس سلسلے میں اہم ترین ہے۔ ان کے علاوہ خالد احمد‘ نجیب احمد‘ صابر ظفر‘ جاوید شاہین‘ سلیم شاہد اور کئی دوسروں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : جمیلہ ہاشمی کا یومِ پیدائش
——
اس فہرست میں اگر ایک نام شامل نہ کیا جائے تو یہ فہرست ہر لحاظ سے نامکمل رہے گی۔ اس کا نام ہے عدیم ہاشمی۔عدیم ہاشمی یکم اگست 1946ء کو ڈلہوزی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ کچھ حلقے کہتے ہیں کہ انہوں نے فیصل آباد میں جنم لیا۔ ان کا اصلی نام فصیح الدین ہاشمی تھا۔ ابتدائی تعلیم کے دوران ہی ان کی شعری صلاحیتیں کھل کر سامنے آ گئیں۔ بعد میں وہ جدید غزل کے اہم شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے ٹی وی کیلئے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ انہوں نے سرکاری ٹی وی کیلئے ڈرامہ سیریل ’’آغوش‘‘ لکھی اور اس میدان میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو منوایا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ بڑا زبردست ڈرامائی شعور رکھتے ہیں۔ وہ اداکار تو نہیں تھے لیکن اداکاری کے اسرارو رموز سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے ہم عصر شاعر یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ عدیم ہاشمی جدید غزل کے بڑے اہم شاعر ہیں۔ لیکن بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح انہیں بھی نظرانداز کیا گیا۔ عدیم ہاشمی بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر تھے لیکن انہوں نے رومانوی شاعری کو نئی سمتوں سے روشناس کرایا۔ چھوٹی بحر میں لکھی گئیں ان کی غزلیں خاص طور پر بہت مشہور ہوئیں۔ کبھی کبھی ان کی شاعری میں اداسیوں کی مہک بھی محسوس ہوتی ہے۔ مہک اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اداسیوں میں بھی خوشبو ڈھونڈ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قنوطی نہیں تھے بلکہ رجائیت پسند تھے۔ ان کی شاعری میں ہمیں حیات افروز رجائیت ملتی ہے۔ ان کی شاعری کا ایک اور اہم پہلو نکتہ آفرینی ہے۔ وہ ایسے نکات نکالتے تھے کہ قاری ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا تھا۔ شاعری میں ایک اور بڑی اہم چیز ہوتی ہے جسے قوت متخیلہ (Power of Imagination) کہتے ہیں۔ عدیم ہاشمی کی شاعری میں یہ وصف بھی بڑی آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : امیر الاسلام ہاشمی کا یومِ وفات
——
جدید غزل کے حوالے سے کچھ باتیں بڑی ضروری ہیں۔ جدید غزل کے لئے ایک تو جدید طرز احساس ضروری ہے اور دوسرا مختلف انداز بیاں۔ یہ دونوں عوامل مل کر جدید غزل کی تشکیل کرتے ہیں۔ باقی رہا شعری طرز احساس تو وہ کسی بھی اچھے شعر کی بنیادی ضرورت ہے۔ عدیم ہاشمی کو کلاسیکل شاعری کا مکمل ادراک تھا۔ کہنا یوں چاہیے کہ بعض جگہ انہوں نے روایت اور جدت کے امتزاج سے بڑے خوبصورت اشعار تخلیق کیے۔کچھ نقادوں کی رائے ہے کہ عدیم ہاشمی کی غزل کا کینوس محدود ہے کیونکہ انہوں نے اپنے لیے گنے چنے موضوعات کا انتخاب کیا ہواتھا۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ عدیم ہاشمی کی شاعری میں ہمیں عصری کرب کا بھی عکس ملتا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شاعر معروضی صورت حال سے بے خبر رہے۔ اگر وہ جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے تو اس کی کسی صورت تحسین نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے دانش ورانہ بددیانتی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مرحوم عارف عبدالمتین کہا کرتے تھے کہ کوئی شاعر جان بوجھ کر معروضی صورتحال کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ معروضی حقائق (Objective realities) کو شعر کی زبان دینا شاعر کی ذمہ داری ہے اور اسے بہرحال اس ذمہ داری کو نبھانا چاہئے۔ رومانوی شاعر ہونے کا مفہوم ہرگز یہ نہیں کہ آپ حقیقت پسندی کو ایک طرف رکھ دیں۔ یہ دونوں عوامل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور شاعر اگر چاہے بھی تو ان عوامل کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔عدیم ہاشمی نے کئی شعری مجموعے تخلیق کیے جن میں ’’ترکش‘ مکالمہ‘ فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘ وصال‘ مجھے تم سے محبت ہے‘ چہرا تمہارا یاد رہتا ہے‘ کہو کتنی محبت ہے اور بہت نزدیک آتے جا رہے ہو‘‘ شامل ہیں۔ جس غزل نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا وہ تھی
’’فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا‘‘
ہم عدیم ہاشمی کی غزلوں کے کچھ اشعار قارئین کی نذر کریں گے جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کی شاعری کتنے خوبصورت پہلوؤں کی حامل تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : رسولِ ہاشمی کا جو بھی شیدا ہو نہیں سکتا
——
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
——
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
——
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یوں ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
——
غم کے ہر ایک رنگ سے مجھ کو شناسا کر گیا
وہ مرا محسن مجھے پتھر سے ہیرا کر گیا
——
اسے پانا تھا اس کو کھونا تھا
یہ بھی ہونا تھا وہ بھی ہونا تھا
——
دریا سے کوہسار سے پہلے کی بات ہے
انساں ہر اعتبار سے پہلے کی بات ہے
——
اس کی نظر کو داد دو جس نے یہ حال کر دیا
میرا کمال کچھ نہیں اس نے کمال کر دیا
——
کیوں اداس ہیں شجر اے عدیم ہاشمی
کون لے گیا ثمر اے عدیم ہاشمی
——
اب اسے چاہا تو چاہا ہر طرح کے حال میں
ہر طرح کا حسن دیکھا اس کے خدوخال میں
——
5نومبر 2001ء کو عدیم ہاشمی 55سال کی عمر میں راہی ملک عدم ہوئے۔
ان کا انتقال شکاگو (امریکہ) میں ہوا اور وہ وہیں آسودۂ خاک ہیں ۔
جدید غزل کے حوالے سے ان کا نام بھلایا نہیں جا سکتا۔
——
منتخب کلام
——
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
——
مرے ہم راہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے
مگر جیسے کوئی کم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
——
صدائیں ایک سی یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یاد رہتا ہے
——
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا
——
پرندہ جانب دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا
——
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
——
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
——
دل عجب گنبد کہ جس میں اک کبوتر بھی نہیں
اتنا ویراں تو مزاروں کا مقدر بھی نہیں
ڈوبتی جاتی ہیں مٹی میں بدن کی کشتیاں
دیکھنے میں یہ زمیں کوئی سمندر بھی نہیں
جتنے ہنگامے تھے سوکھی ٹہنیوں سے جھڑ گئے
پیڑ پر پھل بھی نہیں آنگن میں پتھر بھی نہیں
خشک ٹہنی پر پرندہ ہے کہ پتا ہے عدیمؔ
آشیانہ بھی نہیں جس کا کوئی پر بھی نہیں
جتنی پیاری ہیں مری دھرتی کو زنجیریں عدیمؔ
اتنا پیارا تو کسی دلہن کو زیور بھی نہیں
——
رخت سفر یوں ہی تو نہ بے کار لے چلو
رستہ ہے دھوپ کا کوئی دیوار لے چلو
طاقت نہیں زباں میں تو لکھ ہی لو دل کی بات
کوئی تو ساتھ صورت اظہار لے چلو
دیکھوں تو وہ بدل کے بھلا کیسا ہو گیا
مجھ کو بھی اس کے سامنے اس بار لے چلو
کب تک ندی کی تہہ میں اتاروگے کشتیاں
اب کے تو ہاتھ میں کوئی پتوار لے چلو
پڑتی ہیں دل پہ غم کی اگر سلوٹیں تو کیا
چہرے پہ تو خوشی کے کچھ آثار لے چلو
جتنے بھنور کہو گے پہن لوں گا جسم پر
اک بار تو ندی کے مجھے پار لے چلو
کچھ بھی نہیں اگر تو ہتھیلی پہ جاں سہی
تحفہ کوئی تو اس کے لئے یار لے چلو
——
ہم بہر حال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
تم بھی اک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے
عکس پانی میں محبت کے اتارے ہوتے
ہم جو بیٹھے ہوئے دریا کے کنارے ہوتے
جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے
کیا ابھی بیچ میں دیوار کوئی باقی ہے
کون سا غم ہے بھلا تم کو ہمارے ہوتے
آپ تو آپ ہیں خالق بھی ہمارا ہوتا
ہم ضرورت میں کسی کو نہ پکارے ہوتے
ساتھ احباب کے حاسد بھی ضروری ہیں عدیمؔ
ہم سخن اپنا سناتے جہاں سارے ہوتے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ