میں فقیر ان کے در کا جو حبیبِ کبریا ہیں
وہ بسے ہیں تجھ میں آ کر ہے ترا شرف مدینہ
ملا اذن حاضری کا شہِ دوسریٰ سے جن کو
وہ طواف کعبہ کر کے چلے صف بہ صف مدینہ
تو شفیعِ مذنباں کا بنا ہے زمیں پہ مسکن
ہیں ترے نصیب کے تو سبھی معترف مدینہ
نہ بھلا سکا زمانہ کبھی آج تک وہ منظر
کہ جب آمدِ نبی پر بجے خوب دف مدینہ
ہو کرم یہ وارثیؔ پر دم آخریں یہ مالک
کہ ہوں بند جب یہ آنکھیں دکھے ہر طرف مدینہ