اردوئے معلیٰ

Search

آج نامور شاعر راغب مراد آبادی کا یومِ پیدائش ہے۔

راغب مُراد آبادی(پیدائش: 27 مارچ، 1918ء- وفات: 18 جنوری، 2011ء)
——
راغب مراد آبادی کا اصل نام اصغر حسین تھا۔ راغب تخلص کرتے تھے۔ 27 مارچ 1918ء(13 جمادی الثانی 1336ھ) میں دلی میں پیدا ہوئے۔ وطن مراد آباد تھا۔ ہندوستان میں دہلی کالج سے بے اے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی آئے اور ملازمت لیبر ڈیپارٹمنٹ میں کی۔ 1980ءمیں اسی ڈپارٹمنٹ میں پبلک ریلیشن آفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے دو شادیاں کی، دونوں بیویاں وفات پا گئیں ان کے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔
راغب مراد آبادی کا شمار ان ممتاز صاحب فکر اساتذہ میں ہوتا ہے جو کلاسیکی روایات کی باریکیوں کا بھر پور ادراک رکھتے ہیں۔ انہیں شاعری کی مختلف اضاف پر عبور حاصل ہے لیکن تاریخ گوئی اورفی البدیہ میں بے مثل ہیں زبان و بیاں اور فنی رموز کے حوالے سے ان کا کلام سند کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے لیکن انکی پہچان ان کی رباعیات ہیں۔ ان کے اب تک 40مجموعات کلام شائع ہو چکے ہیں۔ جس میں غزلیں ، نظمیں ، نعت اور پنجابی شاعری شامل ہیں۔ ان کی شاعری پر تو مقالہ لکھا جا سکتا ہے اس مضمون میں صرف ان کی رباعی گوئی پیش نظر رہی ہے۔
بحیثیت انسا ن وہ مجھے اخلاص و محبت اور انکساری و عاجزی کا نمونہ نظر آئے۔ ان کی شاعری مفاہیم و رموز کی ایک وسیع دنیا ہے۔ ان کے عہد میں شاعری کی راہ گزر مطالعے اور مشاہدے کے گزرتی ہے۔آخری عمر تک تخلص علم کرتے رہے اور خود کو طالب علم سمجھتے رہے۔کبھی اسادی کا دعویٰ نہیں کیا۔ ایک شاعر کو دوسرے شاعر پر ترجیح نہیں دیتے۔ انکا کہنا تھا کہ ہر شاعر عزیز ہے پر پھول کا رنگ و بو جدا ہے۔
انکی شاعری کے فکری چائزہ سے یہ انداز ہ ہوتا ہے کہ یہ مومن ،میر، غالب، اقبال، سیماب، اور ثاقب وغیرہ کے دور کے شاعر کا ذہن نظر آتے ہیں۔ راغب مراد آبادی نے اپنی شاعری کے ذریعہ سماجی ، معاشی مسائل اور عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اس طرح بیان کیاہے۔
——
حکام نہ صدرِ خوش بیاں کی جانب
رینجرز نہ فوج کامراں کی جانب
ہر شخص سے ہو چکے ہیں مایوس عوام
اب ان کی نظر آسماں کی جانب
مانگو اللہ سے معافی جھٹ پٹ
دن امن واماں کے جلد آئیں پلٹ
نوبت نہ کہیں، فاقہ کشی تک پہنچے
ہنگاموں نے کر دی ہے معیشت تلپٹ
——
رباعی کا اعتراف کرتے ہوئے کسی نے ان کی شاعری کی بابت کیا خوب کہا ہے۔
——
راغب کے یہاں عام نظر آتی ہیں
ترکیبیں نہیں ہوتیں جو سیدھی سادھی
یوں کہئے کہ راغب کی غزل میں اکثر
آتے ہیں نظر جوش ملیح آبادی
——
راغب مرادآباد ی کا شمار پاکستان کے قدیم نسل کے اساتذہ شعر و سخن میں ہوتا ہے۔ پاکستان و ہندوستا ن میں چرچہ رہا۔ اپنی شعری زندگی میں پہلے غزل اور مابعد رباعی کی طرف رجحان ہوا۔ حساس دل و ذہن کے مالک تھے۔ تخلیقات کا رخ رباعیت کے طرف ہوگیا۔ دل میں جو خیال آیا چشم زدن میں شعر میں ڈھل گیابے شمار اشعار فی البدیہہ کہے گئے۔ راغب مراد آباد نے اردو ادب کی خدمت کی اور اردو کے بڑے نامور شعراءکی تربیت بھی کی۔
راغب مراد آبادی خطاط نہ تھے لیکن انکی تحریر خطاط جیسی ہے سخن گوئی کی رفتار تیز تھی۔ چائے کی پیالی کے ختم ہوتے ہوتے نظم تیار ہو جاتی۔ دنیا کے بے شمار اخبارات و رسائل میں انکا کلام شائع ہوتا ایک مزاحیہ شاعر نے کہا۔
——
اخبار اٹھایا تھا کہ ہاکر چیخا
یا پیسے دے اخبار کے یا آگے بڑھ
میں نے جو رباعی پڑھی وہ چیخ اٹھا
راغب کی رباعی کے پھوکٹ میں نہ پڑھ
——
راغب مراد آبادی نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا لیاقت علی خان اور قائد اعظم محمد علی جناح سے قرب رہا ۔ علامہ اقبال سے خط و کتابت رہی مولانا ظفر علی خاں کی شاگردی میں رہے۔ راغب مراد آبادی کے اساتذہ میں ایک نام صفی لکھنوی کا بھی ہے۔ ان کو اردوم پنجابی، عربی، انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ راغب اپنی ذات میں ادارہ تھے انکو شہنشاہِ رباعیت کہاجاتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : پھر نعتِ مصطفیٰ پر راغب ہوئی طبیعت
——
رباعی پر تو راغب صاحب کی گرفت جس قدر ہے اسکی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔ چار مصرعوں میں بات کہہ کے ماحول کو حیرت زدہ کرنے کا فن جانتے ہیں۔ انکی رباعیات میں ان کے عہد کی تاریخ رقم ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں تاریخ نویسی اور شواہدو واقعات کو نظم کیا۔ ان کے کلام میں شعور ، انسان دوستی اور درد مندی کی جھلک نمایاں ہے وہ معاشرے کے دینی، ادبی تہذیبی اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ کراچی کے حالات سے متاثر ہو کر کہتے ہیں۔
——
قتل و غارت کی گرم بازاری ہے
مرنے اور مارنے کی تیاری ہے
بھائی بھائی کے خون کا ہے پیاسا
اسلام میں کیا یہی رواداری ہے
اپنا ہے یہ شہر جس میں بے بس ہیں عوام
آئے گا زباں پر نہ مری کلانعام
جمہوریت عصر کا اللہ رے نظام
ہر روز ہی قتل ہو رہے ہیں سر عام
——
راغب مراد آبادی کی فکر مثبت اور اظہار اثر انگیز ہے وہ انسانوں میں حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
——
اپنے دل کی مراد ، ہم نے پائی ہے
جو بات سمجھے تھے، سمجھ میں آئی ہے
——
ارشادِ رسول ِ عربی ہے راغب
اہلِ ایماں بہم ہیں بھائی بھائی
——
شہر کراچی کو لہولہان تصویریں راغب صاحب کے اشرات میں نظر آتی ہیں اندرونی کرب، تردد اور تالیف کے ساتھ مایوسی نہیں رجائیت کا پلو نمایاں ہے کیفیات کا اظہار حقیقت نگاری کے ذریعہ کیا ہے۔
——
کیا گائے گا ایسے میں کوئی طربیہ گیت
ہے کرودہ کپٹ عام کہاں ہے اب پریت
جو روشنیوں کا شہر تھا اے راغب
اس میں رقصاں ہے تیرگی کا عفریت
——
عام الناس کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات و جذبات کو کس سادگی سے ادا کیا ہے۔
——
کس جرم کی یہ سزا ہے مرے داتا
تجھ کو بھی ترس ہم پہ نہیں آتا
کیا شہر میں فائرنگ ہے معمولِ حیات
اک روز بھی ناغہ نہیں ہونے پاتا
——
منظوم سفر ناموں کا سرمایہ اردو ادب میں بہت کم ہے۔ راغب مرادآبادی نے سفر نامے منظوم کئے ان میں وہ خود بھی منظر کا ایک حصہ ہیں۔ یہ سفر نامے بھی رباعی ہی کی ہیئت میں ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار قمر جلال آبادی کا یوم وفات
——
مارچ 1984ءمیں سفر حجاز کے لئے روانہ ہوئے اور ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری کے مہمان رہے لکھتے ہیں۔
——
صاحب دل و نکتہ داں غنی الاکرم
خوش طینت و مہرباں غنی الاکرم
ہم سب کے نفضل حق تعالیٰ امروز
مکہ میں ہیں میزباں غنی الاکرم
——
میزبانی کے علاوہ اپنی گاڑی میں غنی الاکرم سبزواری راغب صاحب کو مقدس مقامات کی زیارت کے لئے لے گئے اس موقع کی رباعی ملاخط فرمائیے۔
——
غافل نہ رہے شکر خدا سے ہم بھی
آگاہ تھے آداب دعا سے ہم بھی
موٹر میں سبزواری ہی کی آج
گزرے مزدلفہ و منیٰ سے ہم بھی
ہاں مرکز علم وآگہی کو دیکھا
ہاں محورِ عقل و روشنی کو دیکھا
ہمراہ جناب سبزواری راغب
اللہ رے مولدِ نبی کو دیکھا
——
انکا خواب تھا کہ زندگی میں چین کا دورہ کریںچنانچہ یہ خواب 1988ءمیں شرمندہ تعمیر ہوا۔ چین کے سفر کو شعری رنگ دیا اور ہر شعر اخوت و محبت کا ایک مہکتا ہوا پھول نظر آتا ہے۔ چینیوں کی تعریف میں کہتے ہیں۔
——
رہتی ہے ادائے فرضی پر سب کی نظر
ہر فرد ہے اک عزم و عمل کا پیکر
پابندی نظم و ضبط کیا ہے راغب
یہ راز کھلا چین میں آ کہ مجھ پر
——
زندگی میں چینی طرزِ حیات سے متاثر ہوئے۔ اک طرف دوستی و محبت دوسری طرف لطافتِ بیان ملا خط ہوا۔
——
آگاہ رموز دور بینی ہوجا
منت کش اسرارِ زمینی ہوجا
بیجنگ کی فضا جانفزا میں راغب
کہتا ہے یہ دل مجھ سے کہ چینی ہوجا
——
راغب مراد آبادی چینی شاعری کے میر و غالب یعنی لی پاؤ (701 ۔ 762ء) اور توفو( 712ھ سے 770) کے کلام کو اردو شاعری میں ڈھالنے کا عزم رکھتے تھے۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کے دوران یہ نیت کی کہ ایک ایسا مجموعہ نعت مرتب کیا جائے جسکی ہر نعت کی ردیف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو قرآن حکیم میں سورة محمد موجود ہے اور یہ اسمِ پاک کلمہ کے حصہ ہے۔ جیسے ہی وطن پہنچے اور ادارہ کو عملی شکل دی اور 76 اشعراءو شاعرات کی نعتیں پر مشتمل مجموعہ مرت کیا۔
اساتذہ نے ندیہہ گوئی کو اظہار کا مستقل ذریعہ نہیں بنایا لیکن راغب مرادی نے بدیہہ گوئی کو اپنی شناخت کا وسیلہ بنا لیا۔ اپنے بے شمار مشاعروں کی میزبانی کی جو دنیا بھر میں ہوئے۔ ان کے بے شمار شاگرد ہیں جن میں ایک نمایاں نام حبیب جالب کا ہے۔ راغب مراد آبادی طویل عرصہ سے فراش تھے۔ 18 جنوری 2011 ءکو خالقِ حقیقی سے جاملے۔
——
سائے کا بھی ہم نے اگر احسان لیا ہے
گھر کس کا ہے دیوار سے پہچان لیا ہے
——
راغب مُراد آبادی کی شاعری کی چند جہتیں اکرم کُنجَاہی کی نظر میں
——
میں نے اکرم کُنجاہی کے افسانوں کے مجموعہ ”دامنِ صَد چاک“ میں چند دن قبل اپنے اظہاریے میں لکھا تھا کہ ”کراچی کے ادبی افق پر اکرم کُنجاہی کو روشن ہوئے کم ہی عرصہ ہوا ہے۔ وہ تیزو تند ہوا کے جھونکے کی مانند آئے اور کراچی کے علمی، ادبی حلقوں میں ایسے گھل مل گئے جیسے وہ برسوں کے ادبی دوست ہوں۔ ملنسار و ہمدر، خوش اخلاق و خوش گفتار، مجازاً متمدن، خلیق و شفیق، خوش بیان و شیریں سخن انسان ہیں۔ اکرم کُنجاہی صاحب سے میری پہلی ملاقات ایک ادبی نشست میں ہوئی جسے بہت عرصہ نہیں ہوا۔ یہ تقریب تھی معروف ناول نگار و کالم نگار محترمہ نسیم انجم اور معروف کہانی کار، خاکہ نگار، سید محمد ناصر علی کی کتابوں کی تقریب اجراء جو 2مئی2019ء کو کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام پریس کلب میں منعقد ہوئی تھی، تقریب کی صدارت اکرم کُنجاہی صاحب نے کی تھی جب کہ مجھ ناچیز کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے کتاب پر کچھ کہنا تھا۔ یہاں میں نے اکرم کُنجاہی کو پہلی مرتبہ کسی بھی علمی موضوع پر گرجتے، برستے اور شعلہ بیانی کرتے دیکھا، خوب بولتے ہیں، اچھا بولتے ہیں، تسلسل اور ربط کے ساتھ بولتے ہیں، موضوع کو مکمل گرفت میں رکھتے ہوئے بولتے ہیں، موضوع پر مستعدی اور سج دھج کے ساتھ بولتے ہیں، ان کا حافظہ ماشاء اللہ غضب کا ہے۔ اس کے بعد ان سے جب بھی ملاقات ہوئی کسی نہ کسی ادبی تقریب میں ہی ہوئیں جہاں وہ بھی اسٹیج پر اور مَیں بھی اسٹیج پر ہوتے اور موضوع پر گفتگو تو تقریب کا لازمی حصہ ہوتی ہی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہم کھولتے ہیں راز کہ کس سے ہے کیا مراد
——
9فروری2020ء کی بات ہے کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کی جانب تھی افسانوں کے مجموعوں کی تقریب اجراء تھی۔اکرم کُنجاہی صاحب کوئی جلدی جانا تھا اس وجہ سے اولین مقرر کی حیثیت سے افسانوں کے مجموعوں پر اظہار خیال کیا اور چلے گئے، اکرم کنجاہی صاحب بنیادی طور پر شاعر و افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ تنقید نگار بھی ہیں، اب سب لوگ ہماری طرح توصیف نگار تو نہیں ہوتے، اس لیے ان کی گفتگو میں حقیقت پسندی ہوتی ہے، کچھ کچھ تنقید بھی ہوتی ہے جو ہضم نہیں ہوپاتی، حالانکہ ایک تنقید نگار کی تنقید تعمیری ہوتی ہے وہ تنقید برائے تنقید نہیں ہوتی۔بات کہیں اور چلی گئی، اس تقریب میں ہم جوں ہی پہنچے، کنجاہی صاحب نے جھٹ اپنے بستے سے دو عدد کتابیں نکالیں اور ہمیں تھمادیں، ساتھ ہی فرمایا کہ اُنہیں جلدی جانا، اس وجہ سے کہیں یہ میرے ساتھ ہی واپس نہ چلی جائیں۔ ان دو تصانیف میں ایک شعری مجموعہ ”دامنِ صَد چاک“ تھا جس پر ہم کچھ روز قبل ہی بساط کے مطابق لکھ چکے ہیں اور دوسری کتاب’راغب مراد آبادی (چند جہتیں)‘ تھی۔ اس وقت ان کی یہی تصنیف میرے پیش نظر ہے۔
راغب مراد آبادی کو میں نے بہت قریب سے دیکھا، سنا، داد دی، پڑھا بھی، ان کی چند کتابیں میرے ذاتی ذخیرہ میں موجود بھی ہے۔ اپنی ذاتی لائبریری وفاقی جامعہ اردو کی لائبریری ”مولوی عبد الحق میموریل لائبریری“ کو دے چکاہوں، جہاں پر میرا علمی ذخیرہ میرے نام سے گوشہ کی صورت محفوظ ہے۔ راغب مراد آبادی، یو پی کے شہر مراد آباد سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت کا خاکہ جو میرے ذہن میں آرہا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے ”دبلے پتلے،دراز قد، کرتا پاجامہ، کبھی شیروانی ذیب تن کیے ہوتے، گندمی رنگ، سر پر کالے بال، اونچی ناک، چوڑا ماتھا، غلافی آنکھیں، چہرے پر سنجیدگی،لمبے ہاتھ، مخروطی انگلیاں، کلین شیو، شعر پڑھتے ہوئے دانت نمایاں ہوا کرتے، تحت الفظ میں شعر خوانی کیا کرتے تھے۔شاعری کے حوالے سے راغب مرادآبادی کی سب سے اہم خوبی یا خصوصیت ان کا فی البدیہہ شعر کہنا تھی۔ وہ محفل میں بیٹھے بیٹھے لمحہ موجود کی صورت حال کے مطابق شعر کہہ دیا کرتے تھے۔ ان کی اس منفرد خصوصیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، لوگ اس سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔حمایت علی شاعر نے راغب کی بدیہہ گوئی اور رباعی کو ان کی ’پہچان‘ لکھا ہے۔اپنے سفر نامہ ’جادہئ رحمت‘ میں وہ ہمارے ایک عزیز کے گھر رکے، بلکہ وہ انہیں ائر پورٹ سے اپنے گھر لے گئے اور پھر وہاں رہتے ہوئے انہیں مقدص مقامات کی سیر کرائی۔ راغب صاحب نے اپنے میزبان اور ان کی میرزبانی کا نقشہ شاعری میں خوبصورت انداز سے کھینچا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کنجاسے نسبت رکھنے والے شاعر، افسانہ نگار اور تنقید نگار نے شہنشاہ غزل جگر مراد آبادی کے ہم وطن، پاکستان ہجرت کر کے آنے والے اور کراچی کو اپنا مسکن بنانے والے شہنشاہ رباعی راغب ؔ مراد آبادی کی کن کن جہتوں کو ڈھونڈ نکالا اور ان کو علمی اور
تنقید ی نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔ پہلی جہت جس کا ذکر مصنف نے کیا وہ ہے مراد آباد کا وطن اول مراد آباد کے برتنوں کی صنعت، ان برتنوں پر مینا کاری، پھول بوٹے بنے ہوتے ہیں۔ مراد آباد اس صنعت کے حوالے سے بہت مشہور ہے، کراچی میں بھی ان برتنوں کو مراد آباد سے ہی منصوب کیا جاتا ہے۔ اگلی جہت میں اکرم کنجاہی نے تذکرہ جگرؔ و راغبؔ کے عنوان سے کیا ہے جس میں انہوں نے جگر ؔکو شہنشاہ غزل اور راغبؔ کو شہنشاہ رباعی کہا ہے۔ یہاں انہوں نے دلاور فگار مرحوم کا قطعہ نقل کیا، آپ بھی دیکھئے ۔
——
دریا تو بہت سے ہیں علوم و فن کے
ایک ان میں سے ہے علم کا دریا راغبؔ
دریا وہ جنہیں کہیے مراد آبادی
وہ ان میں ہیں مشہور جگرؔ اور راغبؔ
——
راغبؔ کی جہتوں کی تلاش میں اکرم کنجاہی صاحب راغب ؔ کے شعری سفرکو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے ان کا الگ الگ تجزیہ کرتے ہیں۔ پہلا دور 1939-1930کے درمیان کا ہے، امیر اور داغ کے شاگردوں کے درمیان راغبؔ مراد آبادی نے شاعری کی ابتدا عشقیہ شاعری سے ہی کی اور غزلیں کہیں۔ اس دور کا تجزیہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔ راغب کا ایک شعر
——
بلا سے ان کے جوکوئی تباہ ہوتا ہے
کہ یہ تو مشغلہ یک نگاہ ہوتا ہے
——
راغب ؔ کی شاعری کا دوسرا دور اکرم کنجاہی کے خیال میں 1939-1947ء کا ہے۔اس دو ر میں قیام پاکستان کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے بلکہ تحریک عروج پر تھی اور 1947 ء میں قیام بھی عمل میں آگیا۔ اس دور میں قومی اور ملی شعور کو اہمت دی گئی۔ اس دور میں جاری ہونے والے ادبی جرائد کا ذکر بھی ہے۔ اس دور کی شاعری کی مثال مصنف نے اس طرح نقل کی ہے
——
ہے لیگ ایک کشتی مردان حق پرست
اور اس کا ناخدا ہے محمد علی جناح
عمر خضر نصیب ہو تجھ کو خدا کرے
راغبؔ کی یہ دعا ہے محمد علی جناح
——
تیسرا دور 1947ء 1960ء یعنی قیام پاکستان کے بعد 13سال تک کے دور کو تیسرا دور شمار کیا گیا ہے۔ اس دور کی شاعری میں راغب مراد آباد کی تخلیق ”آزادی“ اور”کشمیر“اور ”نذر شہدائے کربلا“شائع ہوئیں۔ اس دور کے بارے میں اکرم کنجاہی لکھتے ہیں کہ ”یہ وہ زمانہ تھا جب شعراء کی اکثریت تو اقبالؔ کے فکر و فلسفہ کے ساتھ بہہ گئی مگر جوشؔ، ندیم ؔاور راغبؔجیسے بزرگوں نے افکار اقبال سے استفادہ کیا، پیغام اقبال کو آگے بڑھایا، ساتھ ہی ساتھ نئے مضامین کی تلاش میں چل نکلے“۔ اس دور میں جوشؔ کی شاعری کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ادب سے جو بھی مدینے میں سر جھکاتے ہیں
——
اکرم کنجاہی راغب ؔ کی شاعری کا چوتھا دور1960ء سے 1975ء کے درمیان کو گردانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس دور میں ملک کے جوحالات تھے ان میں شعراء و ادباء نے جو معاشرے کا حساس طبقہ ہوتے ہیں نے فیض ؔ کے اس شعر کے مطابق سوچنا شروع کردیا۔
——
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظا رتھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
——
اس دور کا تجزیہ کرتے ہوئے کنجاہی لکھتے ہیں کہ”راغب صاحب کے فن کی نمو افکار ِ اقبال ؔ کے سائے میں ہوئی۔ وہ جانتے تھے فکر اقبال نے جو سفر طے کیا ہے اس سفر کی روداد ہی کو انہوں نے اپنے اشعار میں سمیٹ کرایک آرام طلب اور غافل قوم کو عملیت پسندی کا درس دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اقبالؔ کی اس مثبت سوچ کی باز گشت جن شعراء کے کلام میں نظر آئی ہے۔ ان میں ایک نام راغبؔ صاحب کا بھی ہے“۔
——
قدم نہ رکھا یقین محکم کی راہ میں جس نے والہانہ
زباں پہ آئی اسی کی اکثر شکایت گردش زمانہ
——
راغبؔ مراد آبادی کی شاعری کا پانچواں دور اکرم کنجاہی نے اپنی اس کتاب کی اشاعت تک کا مقرر کیا۔ یعنی 1975ء تا حال، حال سے مراد 2000ء ہی لینا چاہیے اس لیے کہ یہ کتاب فروری 2001ء میں منظر عام پر آئی۔ راغبؔ مراد آبادی اس کتاب کی اشاعت کے 10 سال بعدتک زندہ رہے یعنی ان کا انتقال 18جنوری 2011ء میں ہوا۔ممکن ہے کہ کنجاہی صاحب نے راغب ؔ سے اپنی محبت اور عقیدت کو سامنے رکھتے ہوئے بقیہ 10سالوں کی شاعری کا حال بھی کسی جگہ مضمون کے طور پر لکھاہو وہ میرے علم میں نہیں۔اگر نہیں تو اس گیپ کو اکرم کنجاہی بہت آسانی سے پر کرسکتے ہیں۔ راغبؔ مراد آبادی کے پانچویں دور کی شاعری کے بارے میں اکرم کنجاہی نے لکھا ہے کہ ”راغب صاحب کے تجربات وسیع ہیں۔ مشاہدے کی حس بہت تیز ہے۔ حساسیت کا یہ عالم ہے کہ جو سوچ ذہن میں آجائے اسے فوراشعری جامہ پہنادیتے ہیں“۔ جیسا کہ ابتداء میں کہا کہ راغب ؔ کو فی البدیہہ شعر کہنے میں کمال حاصل تھا۔ مزید واضح کیا کہ ”1975ء کے بعد ان کے شعری موضوعات میں گہرائی کا عنصر زیادہ ہوا۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ خیال خو اہ کتنا ہی ارفع کیوں نہ ہو، مگر فہم و ادراک سے بالا تر نہ ہو۔ دوسرے کے لیے معنی ہو“۔راغب ؔ نے کہا۔راغبؔ کا یہ شعر موجودہ دور کے حالات معاشی صورت حال کا بھر پور اظہار ہے۔
——
آزاد تو ہم ہوگئے راغب لیکن
قبضے میں ہے غیروں کے معیشت اپنی
شہر کی سڑکوں پہ دوڑتی ہے اب فکر معاش
تیل ڈیزل کا ہے، رَم خوردہ ہرن کے پاؤں میں
——
راغبؔ مراد آبادی کی شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے اس کا تجزیہ کرنے کے بعد راغب نے شاعری کی مختلف اصناف جیسے راغبؔ اور ربا عی گوئی، منظوم سفر نامہ، فن اور شخصیت، سوانح،ا کتساب ِ فیض کے تحت اظہار خیال کیا ہے۔ آخر میں چند شعری محاسن، سماجی،علمی ور ادبی خدمات، اہم علمی و ادبی موضوعات جیسے کشمیر، ندائے شہدائے کربلا، حبِ انسانیت، راغب کی صحافتی شاعری، راغب کے ممددح، تصوف، نونہال، جوش سناسی وغیرہ کے عنوان سے راغب ؔ کی شاعری کے تمام تر جہتوں کو خوبصورت انداز سے بیان کیا گیا ہے۔
اکتسابِ فیض کے حوالے سے کنجاہی نے لکھا کہ ”آپ نے ادب میں جن شخصیات سے استفادہ کیا، ان میں صفیؔ لکھنوی، سید علی اخترؔ اور یگانہؔ چنگیزی کے نام نمایاں ہیں۔ مولانا ظفر علی خان سے آپ نے فارسی پڑھی۔ اس طرح وہ فارسی دانی میں بھی آپ کے استا ہوئے۔ ان کے بارے میں دلا ور فگار کا قطعہ۔
——
شاگروں میں مولانا ظفر کے وہ رہے
یہ دور بھی ارباب نظر نے دیکھا
اس شعر کی قسمت پہ ہیں نازاں راغبؔ
جس شعر کو مولانا ظفر نے دیکھا
——
کنجاہی صاحب کے شہر کنجا اور وہاں جنم لینے والی علمی و ادبی شخصیات کا ذکر میں کنجاہی صاحب کے افسانے کے مجموعہ ”دامنِ صد چاک“ میں تفصیل سے کر چکا ہوں۔ دلچسپی رکھنے والے میرا وہ تبصرہ مطالعہ کر سکتے ہیں۔یہاں انہیں دھرانہ مناسب نہیں۔ اکرم کنجاہی آج کل کراچی کی ادبی محفلوں میں گھن گرج کے ساتھ موجود ہوتے ہیں، پیشے کے اعتبار سے بنکار ہیں، حمایت علی شاعرنے کتاب پر جائزہ کے عنوان سے اکرم کنجاہی کے بارے میں لکھا کہ ’وہ اچھے شاعر و ادیب ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ کی طرح اُن کا تعلق بھی بینکنگ سے ہے“۔ پہلے اسٹیٹ بنک میں اب نیشنل بنک میں حساب کتاب کے ہنر سکھانے پر معمور ہیں۔وہ شاعر بھی ہیں نثر نگار، تنقید نگاربھی۔ وہ ایک ادبی کتابی جریدہ ”غنیمت“ کے مدیر ہیں۔غنیمت‘ کنجاہی سے تعلق رکھنے والے عالم جناب غنیمت کنجاہی کے نام سے منسوب ہے۔ یہ ادبی جریدہ جو سہ ماہی ہے کراچی اور گجرات سے بیک وقت شائع ہوتا ہے۔ ان کے کئی شعری مجموعے’ہجر کی چتا‘،’بگُولے رقص کرتے ہیں‘،’محبت زمانہ ساز نہیں‘ اور ’دامنِ صد چاک‘ شائع ہوئے۔ جب کہ شعری انتخاب ”امن و مان اور قومی یکجہتی“ کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
اکرم کُنجاہی جب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو ان کا انداز بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ تقریر کے فن سے خوب آگاہ، اور زمانہ طالب علمی میں مقرر رہ چکے ہیں۔ میری اس رائے کی تائید ان کی وہ تصانیف ہیں جو انہوں نے اُصول تقریر اور فن خطابت کے عنوان سے تحریر کیں۔ وہ ٹی وی میں میزبانی بھی کرنے کا شرف حاصل کرچکے ہیں، پنجاب رنگ کے نام سے انہوں نے خود ایک مبصر کی حیثیت سے پروگرام پیش کیے۔انہیں معروف شاعر جناب راغب مراد آبادی کا تلمیذ ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ اپنے شاعر استاد کا حد درجہ احترام، عزت و عظمت کرتے ہیں، اسی عقیدت اور تعلق کا حاصل یہ کتاب ہے جسے اکرم کنجاہی صاحب نے بہت ہی محبت اور فنی مہارت کے ساتھ تحریر کیا ہے۔اگر وہ راغب مراد آبادی کو اپنے ایم فل یا پی ایچ ڈی کا موضوع بنالیتے تو انہیں اس پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوجاتی۔ اس لیے کہ یہ کام ایم فل یا پی ایچ ڈی کے جملہ لوازمات، فنی ضروریات کے عین مطابق لکھی گئی ہے۔بس حوالہ جات کی کمی ہے۔ میرے علم میں ہے کہ راغب مراد آبادی کی زندگی میں ایک خاتون نسرین شگفتہ نے راغب ؔ مراد آبادی کی شخصیت اور شاعری کو پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا تھا، جامعہ کراچی میں انرول ہوئیں، کام بھی شروع کیا، ان کے سپر وائیزر میرے دوست جامعہ اردو کے شعبہ اردو کے سابق پروفیسرو چیرئ مین پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل تھے۔ لیکن وہ خاتون یہ کام نہ کرسکیں اور راغبؔ صاحب اس دنیا سے چلے گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہر مراد منہ مانگی بالیقیں وہ پائیں گے
——
آخر میں اپنی بات پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد قادری کی اس بات پر ختم کرنا چاہوں گا کہ ”یہ مقالاتی جائزہ اُن کی وسعت مطالعہ کا ثبوت ہے۔ راغب صاحب پر کام کرتے ہوئے وہ موصوف کے اسرار و غوامض کو کھولتے چلے گئے ہیں، تقابلی مطالعہ کا اُسلوب، اصل متن کے عمیق مطالعے کی عکاسی کررہا ہے۔قاری آپ کے قلم کے ساتھ نظر ملا کر آگے بڑھے گا اور موضوع پر اُن کی گرفت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے گا“۔اللہ تعالیٰ راغبؔ مراد آبادی کے درجات بلند فرمائے۔ اکرم کنجاہی صاحب نے اپنے تلمیذ ہونے کا عملی ثبوت دے کر ثابت کردیا کہ ابھی دنیا میں
استاد کا احترام، توقیر، تعظیم، تکریم اور عزت کرنے والے موجود ہیں۔(6مارچ2020ء)
——
منتخب کلام
——
جسے کہتے ہو تم اک قطرۂ اشک
مرے دل کی مکمل داستاں ہے
——
حقیقت کو چھپایا ہم سے کیا کیا اس کے میک اپ نے
جسے لیلیٰ سمجھ بیٹھے تھے وہ لیلیٰ کی ماں نکلی
——
خدا کاتب کی سفاکی سے بھی محفوظ فرمائے
اگر نقطہ اڑا دے نامزد نامرد ہو جائے
——
کون کسی کا یار ہے سائیں
یاری بھی بیوپار ہے سائیں
یہ بھی جھوٹا، وہ بھی جھوٹا
جھوٹا سب سنسار ہے سائیں
ہم تو ہیں بس رمتے جوگی
آپ کا تو گھر بار ہے سائیں
کب سے اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جس کو مجھ سے پیار ہے سائیں
کرودھ کپٹ ہے جس کے من میں
مفلس اور نادار ہے سائیں
ڈول رہی ہے پریم کی نیا
داتا کھیون ہار ہے سائیں
بات کبھی ہے پھول کی ڈالی
بات کبھی تلوار ہے سائیں
گاؤں کی عزت کا رکھوالا
گاؤں کا لمبردار ہے سائیں
——
اپنے دل ہی پہ بھروسا میں سفر میں رکھوں
کون ہے راہ نما، کس کو نظر میں رکھوں
جب قدم میں تری یادوں کے نگر میں رکھوں
یہ بھی اک خواب ہے، سودا یہی سر میں رکھوں
کاش اتنی تو در و دیوار کو وسعت مل جائے
اپنے دشمن کو بھی میں اپنے ہی گھر میں رکھوں
لاکھ مغلوب کرے نیند، اندھیرا کھنکے
وا درِ چشم کو امید سحر میں رکھوں
پا برہنہ ہیں ابھی اور بھی آنے والے
برسرِ خار قدم راہ گذر میں رکھوں
تیری یادوں کا سفینہ ادھر آئے نہ اگر
ایک آنسو بھی نہ میں دیدہء تر میں رکھوں
بعد مدت کے پھر آج ان کا خیال آیا ہے
اک دیا آج تو میں، دل کے کھنڈر میں رکھوں
شعلہء غم ، کہ بھڑکتا ہے جو دل میں پیہم
بن پڑے تو میں دل شمس و قمر میں رکھوں
تتلیاں جمع کروں اور تیری تصویر بناؤں
اس کو خوشبوکدہ عود و اگر میں رکھوں
ہجر کو وصل کہوں، وصل کو اک خواب بناؤں
کوئی پہلو تو میں حیرت کا خبر میں رکھوں
راغب ایسا میں کروں قصرِ محبت تعمیر
رخنہ باقی کسی دیوار نہ در میں رکھوں
——
موج نسیم صبح نہ جوش نمو سے تھا
جو پھول سرخ رو تھا خزاں کے لہو سے تھا
تیرے سکوت نے اسے ویران کر دیا
دل باغ باغ تھا تو تری گفتگو سے تھا
اب دل کے رہ گزار میں وہ چاندنی کہاں
اپنا بھی ربط و ضبط کسی ماہ رو سے تھا
مدت ہوئی کہ دل کا وہ گلشن اجڑ گیا
شاداب جو ترے نفس مشکبو سے تھا
خواب و خیال ہیں وہ نشاط آفرینیاں
رقص بہار دل میں تری آرزو سے تھا
سوئے ادب کہوں کہ اسے بے تکلفی
راغبؔ بجائے آپ مخاطب وہ تو سے تھا
——
حق بات ہی کہیں گے سر دار دیکھنا
اہل قلم کی جرأت اظہار دیکھنا
دیکھیں جنہیں ہیں دیر کے دیوار و در عزیز
ہم کو تو صرف سوئے در یار دیکھنا
کرتا رہا قلم یوں ہی شاخیں جو باغباں
ناپید ہوگا سایۂ اشجار دیکھنا
سرکار آپ پر جو چھڑکتے ہیں جان آج
بچ کر چلیں گے کل یہ نمک خوار دیکھنا
بنیاد جس کی ہے ہوس اقتدار پر
ہونے کو ہے وہ قلعہ بھی مسمار دیکھنا
ڈالا جو تم نے ہاتھ کلاہ عوام پر
لگ جائیں گے سروں کے بھی انبار دیکھنا
——
ہٹ جائیں اب یہ شمس و قمر درمیان سے
میری زمیں ملے گی گلے آسمان سے
سینے میں ہیں خلا کے وہ محفوظ آج بھی
جو حرف ادا ہوئے ہیں ہماری زبان سے
وہ میرے ہی قبیلے کا باغی نہ ہو کہیں
اک تیر ادھر کو آیا ہے جس کی کمان سے
صیاد نے کیا ہے اسی کو اسیر دام
طائر جو دل گرفتہ رہا ہے اڑان سے
ناکامیوں نے اور بڑھائے ہیں حوصلے
گزرا ہوں جب کبھی میں کسی امتحان سے
کہلائے جس میں رہ کے ہمیشہ کرایہ دار
کیا انس ہو مکین کو ایسے مکان سے
کیوں پیروی پہ ان کی ہو مائل مرا دماغ
غالبؔ کے ہوں نہ میرؔ کے میں خاندان سے
راغبؔ بہ احتیاط ہی لازم ہے گفتگو
دشمن کو بھی گزند نہ پہنچے زبان سے
——
عجیب انتشار ہے زمیں سے آسمان تک
غبار ہی غبار ہے زمیں سے آسمان تک
وبائیں قحط زلزلے لپک رہے ہیں پے بہ پے
یہ کس کا اقتدار ہے زمیں سے آسمان تک
بساط خاک بھی تپاں خلا بھی ہے دھواں دھواں
بس اک عذاب نار ہے زمیں سے آسمان تک
گرفت پنجۂ فنا میں خستہ حال و خوں چکاں
حیات مستعار ہے زمیں سے آسمان تک
فغان و اشک و آہ کا جگر گداز سلسلہ
بلطف کردگار ہے زمیں سے آسمان تک
متاع جبر زندگی ہمیں بھی جس نے کی عطا
اسی کا اختیار ہے زمیں سے آسمان تک
فراز عرش کے مکیں شکستہ دل ہمیں نہیں
ہر ایک بے قرار ہے زمیں سے آسمان تک
——
میں ہی بولوں گا نہ تو بولے گا
بے گناہوں کا لہو بولے گا
موسم گل میں یہ اعجاز جنوں
ایک اک تار رفو بولے گا
مے کدہ بھی ہے کرامت کا مقام
دست ساقی میں سبو بولے گا
پاس پیمان محبت ہے مجھے
چپ رہیں دوست عدو بولے گا
میں بد اخلاق نہیں ہوں مجھ سے
کیوں بت عربدہ جو بولے گا
جرم حق گوئی میں سر جانے پر
میرا اک اک بن مو بولے گا
ہوک اٹھے گی مرے دل سے راغبؔ
جب پپیہا لب جو بولے گا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ