اردوئے معلیٰ

Search

آج نامور شاعر ملک زادہ منظور احمد کا یوم وفات ہے

ملک زادہ منظور احمد
(پیدائش: 17 اکتوبر 1929ء – وفات: 22 اپریل 2016ء)
——
ملک زادہ منظور احمد اردو کے مصنف، شاعر، نقاد، پروفیسر اور مشاعروں میں اپنے منفرد فن نظامت کے لیے شہرت رکھتے تھے۔
——
پیدائش
——
ملک زادہ منظور احمد 17 اکتوبر، 1929ء کو بھارت کے فیض آباد ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کاخاندان ایک سادات گھرانہ تھا۔
——
تعلیم
——
ملک زادہ نے تین مختلف شعبوں، یعنی انگریزی، تاریخ اور اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد: فکروفن کے عنوان سے مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی مکمل کی۔
——
ملازمت
——
ملک زادہ 1951ء میں جی وی ایس کالج، مہاراج گنج میں تاریخ کے لیکچرر بنے۔ 1952ء میں وہ جارج اسلامیہ کالج، گورکھپور میں تاریخ کے لیکچرر بنے۔ اس کے بعد 1964ء تک وہ انگریزی ادبیات کے لیکچرر بنے۔ 1964ء سے 1968ء تک ریڈر، صدر شعبہ اور پروفیسر بنے۔ وہ 1990ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔
——
دیگر عہدے
——
مدیر، رسالہ امکان۔ یہ ایک ماہنامہ کی شکل میں شروع ہوا۔ اس میں منظور ایک کالم کسک کے عنوان سے لکھتے جو بہت مشہور ہوا۔ اسی کالم میں ایک بار منظور نے لکھا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ امکان ان کی زندگی میں بند نہ ہو
صدر، آل انڈیا اردو رابطہ کمیٹی۔
——
یہ بھی پڑھیں : کیفِ یادِ حبیب زیادہ ہے
——
صدر، فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ۔
رکن، ایگزیکیٹیو کمیٹی، لکھنؤ یونیورسٹی۔
——
تخلیقات
——
کالج گرل، 1954ء (ناول)۔
اردو کا مسئلہ (مقالہ)، 1957ء۔
سحر سخن، 1961ء، (مجموعہ کلام)
ابوالکلام آزاد: فروفن، 1964ء (تحریروں کا تنقیدی جائزہ)
ابوالکلام آزاد الہلال کے آئینے میں۔
غبارخاطر کا تنقیدی جائزہ۔
سحر ستم (مجموعہ کلام)
رقص شرر، 2004ء (خود نوشت سوانح حیات) : اس کتاب کے مطالعے سے اُس دور کی ادبی تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس زمانے میں خاص شاعرات کے مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ اس طرح کا پہلا مشاعرہ منظور کی کوششوں سے گورکھپور میں منعقد ہوا تھا۔ شاعرات بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر مشاعرے میں آتی تھیں۔ یہ لوگ دلکش ترنم سے سطحی اور غیر معیاری غزلیں پڑھا کرتی تھیں جن کا خالق کوئی اور ہوا کرتا تھا۔
انتخات غزلیات نظیر اکبر آبادی (منتخب غزلیں)
200 کتابوں کے پیش لفظ
——
اعزازات
——
زندگی بھر اردو ادب میں تعاون کرنے کے لیے اترپردیش اردو اکادمی کا اعزاز
اترپردیش اردو اکادمی کا ایوارڈ برائے فروغ اردو
زندگی بھر اردو ادب میں تعاون کرنے کے لیے مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا اعزاز
آل انڈیا میر اکیڈمی کی جانب سے امتیاز میراعزاز
آل انڈیا میر اکیڈمی کی جانب سے افتخاز میراعزاز
زندگی بھر اردو ادب میں تعاون کرنے کے لیے خدابخش کتب خانے کا اعزاز
مے کش اکبرآبادی ایوارڈ
ہری ونش رائے بچن ایوارڈ
صوفی اجمل اختر ایوارڈ
——
یہ بھی پڑھیں : اب جھٹک دیتی ہوں تیری یاد میں
——
عالمی اردو کانفرنس، نئی دہلی کی جانب سے فراق سمان
زندگی بھر کی کامیابیوں کے لیے مومن خان مومن اعزاز
گریٹر شکاگو کی سابق عثمانیہ یونیورسٹی کے سابقہ طلبا کی جانب سے فخر اردو ایوارڈ
پریاگ کوی سمیلن کی جانب سے ساہتیہ سرسوت ایوارڈ
——
وفات
——
22 اپریل 2016 کو وفات پائی ۔
——
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد: شخصیت و شاعری از سفیان احمد انصاری قاسمی
——
اردو مشاعروں کی دنیا میں منفرد لب ولہجے کی نظامت کے لیے مشہور نثرنگار،قلم کاراور مصنف، بے باک مقرر اور صحافی،ایک کامیاب اور بلند پایہ شاعر، عظیم نقاد، ادبی رسالہ ’’امکان‘‘ کے مُدیر،تحریک اردو رابطہ کمیٹی کے قائداور ایک کامیاب معلم واستادپروفیسر ملک زادہ منظور احمد ،ماضی کے فیض آباد اور حال کے امبیڈنگر کے ایک معروف قصبہ کچھوچھہ سے متصل ایک چھوٹے سے گاؤں میں ملک عبداللہ کے چھوٹے فرزند ملک محمود احمد کے گھر 17اکتوبر 1929 کو متولد ہونے والے چاراولاد میںسب سے بڑے تھے،چونکہ ان کے والد گورکھپور میں ملازم تھے، اس لیے ملک زادہ منظوراحمد نے ابتدائی تعلیم سے لے کر پوسٹ گریجویشن تک گورکھپورہی میں حاصل کی،1941 میں مڈل، 1951میں تاریخ میں ایم،اے کیا، ہسٹری کے علاوہ اردو اور انگریزی میں بھی پوسٹ گریجویشن کیا، پھر پہلے گنیش شنکر ودیارتھی اسمارک انٹرکالج میں ٹیچر،پھر شبلی کالج اعظم گڑھ میں لیکچرار رہے، 1964 میں گورکھپور یونیورسٹی میں اردوکے لیکچرر،پھر 1968 میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ اردومیں لیکچرر،لیکچرر سے ریڈر اورریڈرسے پروفیسر ہوکر 1990میں ضابطے کے مطابق ساٹھ سال کی عمرمیں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ 1
ملک زادہ منظوراحمد کے قلمی سفر کا آغاز ماہنامہ ’نکہت‘ میں مزاحیہ مضمون ’ کھٹمل‘ سے ہوا، ماہنامہ ’نکہت‘ کا پہلا شمارہ جولائی 1948 میں منظرعام پرآیاتھااورکم وبیش دس سالوں تک نکلتا رہا،جس میں 1954 تک پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کے تقریباً دو درجن افسانے شائع ہوئے۔2
اسی طرح ’کالج گرل‘ نامی افسانہ ’باغی کی ڈائری‘ اور ’باغی کے خطوط‘ ہر اردو کے 26 ادبا و شعرا کے حیات و کارناموں پر مشتمل ’شہر سخن‘ نامی تصنیف ’مولانا ابوالکلام آزاد فکر و فن‘ پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ کے علاوہ ’غبارِ خاطر کا تنقیدی جائزہ‘، ’مولانا آزاد: الہلال کے آئینے میں‘، ’انتخابِ غزلیات نظیر‘ غزلوں اور نظموں پر مشتمل اکلوتا شعری مجموعہ ’شہر ستم‘، ’رقص شرر‘ جیسی علمی اور ادبی خودنوشت، اور ادبی خودنوشت، اور’دوسو سے زائد کتابوں پر پیش ِ لفظ ‘تحریر فرماکر آسمان قرطاس وقلم پر اپنانام درج کروایا، اپنی انھیں تخلیقات و تصنیفات کے ذریعے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد آج بھی دنیائے علم وادب میں زندہ وتابندہ ہیں۔
پروفیسرملک زادہ منظور احمدکی علمی و ادبی خدمات اور کارناموں کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی بقا کے لیے جد وجہد اور سعی و کوشش کو زمانہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ اردو زبان وادب کی خدمت ملک زادہ کے خمیر میں رچی بسی تھی تو غلط نہ ہوگا۔ تحفظِ اردو اوربقاء اردو کے سپہ سالار تھے، حتی کہ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بحیثیت پروفیسر ریٹائر ہونے کے بعد اردو کے گم شدہ حقوق کی بازیافت کے لیے آل انڈیا اردو رابطہ کمیٹی تشکیل دیا جس کے پلیٹ فارم سے اردو کے فروغ، تحریک، ترویج اور اس کا جائز وآئینی حق دلانے کے لیے ہمیشہ ایک مجاہد کی طرح ڈٹے رہے اور اردو کی لڑائی لڑتے رہے،گویا انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو کے تحفظ و بقا کے لیے وقف کردیا تھا، اس طرح گویا ملک زادہ صاحب کی ذات گرامی فنا فی الاردو تھی۔
پروفیسرملک زادہ صاحب جہا ں ایک اچھے نثرنگار تھے وہیں ایک عظیم اور بلند پایہ شاعر بھی تھے،موصوف کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ کم سخنی،زود گوئی پر حاوی تھی،اگرچہ چھیالیس تخلیقات پر مشتمل ایک ہی شعری مجموعہ ’شہر ستم‘ کے نام سے 1991 میں شائع ہوا،جس میں پینتیس غزلیں اور گیارہ نظمیں ہیں۔3
لیکن تنہا یہی مجموعہ ملک زادہ کو ایک کامیاب اور عظیم ترین شاعرتسلیم کر انے کے لیے کافی ہے جیسا کہ خود انھیں کے دانشورانہ ا قوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ:
’’کسی شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے اس کا ایک ہی شعر کافی ہو سکتا ہے۔‘‘
علی سردار جعفری ملک زادہ کے شعری مجموعے ’شہر ستم‘ کے دیباچے میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ان کے سارے الفاظ اوراستعارے جانے پہچانے ہیں لیکن ان کے استعمال میں ایک نُدرت اور تازگی ہے، خوف جوآج کی شاعری کااہم موضوع بن گیاہے ملک زادہ کے اشعار میں بھی جھلکتاہے لیکن ان کو پڑھ کر دل پر خوف طاری نہیں ہوتا بلکہ ایک لطیف احساس بن جاتا ہے، یہ ان کے کلاسیکی ریاض کا اثر ہے اور غالب کی عطا کی ہوئی میراث ہے۔‘‘4
آگے لکھتے ہیں :
’’ملک زادہ منظوراحمد کی شعری تربیت کلاسیکی ہے اوران کاذوق آج کے عہد کی رومانیت سے بھی آشنا ہے، ان دونوں کیفیات کاامتزاج چھوٹی چھوٹی خوبصورت غزلوں کی شکل میں نمایاں ہوا ہے۔‘‘5
’شہرِ ستم‘ میں پہلی نظم کے طور پر یہ اشعار دیکھیے ؏
——
ہمارے شعروں میں مقتل کے استعارے ہیں
ہماری غزلوں نے دیکھا ہے کوچۂ قاتل
صلیب و دار پہ غزلیں ہماری لٹکی ہیں
ہماری فکر ہے زخمی ، لہو لہان ہے دل
ہر ایک لفظ پریشاں، ہر ایک مصرع اُداس
ہم اپنے شعروں کے مفہوم پر پریشاں ہیں 6
——
ان اشعار کے متعلق پروفیسر شارب ردولوی فرماتے ہیں:
’’ یہ اشعار اس نظم کا حصہ ہیں جسے انھوں نے ابتدائیہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ پوری نظم ان کے فکری زاویوں کی علامت ہے، اس نظم کا ایک ایک مصرع اپنے زمانے کے سیاسی و معاشرتی حالات کی تصویر ہے۔ یہ نظم اردو میں علامتی اظہار کی ایک خوبصورت مثال ہے۔اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی ایک عہد یا زمانۂ شاعر تک محدود نہیں ہے۔ یہ نظم ہر اس عہد کی تصویر پیش کرتی ہے جہاں ظلم ہے، زیادتی ہے، ناانصافی ہے۔اگر پچھلے ساٹھ ستر سال کی تاریخ کوسامنے رکھیں یا اور پیچھے پہلی جنگ آزادی تک چلے جائیں تو نظم کا ہر لفظ، ہر استعارہ اور ہرعلامت آپ کو ظلم وستم کی ایک نئی کہانی سناتی نظرآئے گی،اورفکر کب اورکس طرح ’لہو لہان ‘ ہوتی ہے اس کا مفہوم واضح ہوجائے گا۔ آج بھی حالات وہی ہیں۔ آج کے شاعر کی فکر بھی’ لہو لہان‘ہوتی ہوگی لیکن اس کا لہجہ بدل چکاہے،ملک زادہ کا عہد اور تھا۔
ملک زادہ منظوراحمد نے اس نظم کو جس طرح ختم کیا ہے، وہ ان کی امن پسندی، مذہبی وقومی یکجہتی اوران کے محبت ودوستی کے جذبے کی ترجمان ہے۔ ایک طرف یہ نظم ملک کے بدترین فسادات کااشاریہ ہے، اس کی علامتیں، اس کی تراکیب اورالفاظ پر اگر توجہ دیں تومحسوس ہوتاہے کہ فصیل دار، سروں کے چراغ، رقص جنوں، دریدہ پیرہنی، چاک دامنی، وحشت برق، آشیاں، صیاد ایک ایسے شدید ہیجانی دور کی تصاویر پیش کرتے ہیں جس پر تاریخ بھی شرمندہ ہوگی،لیکن نظم یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یہی اس کی خوبی ہے کہ وہ محبت کی کاشت کرتی ہے اورایک بہت خوبصورت دعا پر ختم ہوتی ہے ؏
——
خدا کرے کہ جو آئیں ہمارے بعد کے لوگ
ہمارے فن کی علامت کو وہ سمجھ نہ سکیں
——
چراغِ دیر و حرم سے کسی کا گھر نہ جلے
نہ کوئی پھر سے علامات خوں چکاں لکھے
——
یہاں پر نظم کا یہ رخ توجہ طلب ہے انھوں نے صرف دعا نہیں کی کہ آنے والا زمانہ محبت و دوستی اور صلح وآشتی کا زمانہ ہو بلکہ ایسی یگانگت، رواداری، اور محبت کازمانہ ہو کہ وہ ہماری ان ملاقات اور اشعار کو سمجھ بھی نہ سکیں کہ جوایک ایسے موسم کی یاددلاتے ہیں جو نفاق اور تعصب یا دشمنی کا زمانہ تھا اور نہ پھر کسی کا گھر جلے، اور نہ کوئی اور روایات رفتگاں اور علامات خوں چکاں لکھے۔ یہ نظم منظوراحمد کے جذبے اور نظریے دونوں کی ترجمان ہے۔‘‘7
’شہرستم‘ کی ہر غزل روانی و سلاست، حسنِ زبان وبیان کے اعتبار سے کلاسیکی شاعری کا در جہ رکھتی ہے، تمام تر اصطلاحات، ترکیبات ولفظیات ان کی غزلوں میں جلوہ گر ہیں، اسی طرح ترقی پسندافکار، اعلیٰ نظریات اور توانا احساسات وجذبات ان کے اشعار کی خاص پہچان ہے،تلخیٔ زمانہ کا ذکر ان کی غزلوں میں جا بجا نظر آتا ہے، جیسا کہ درج ذیل اشعار میں ملاحظہ فرمائیے ؏
——
گرتے خیمے، جلتی طنابیں، آگ کادریا، خوں کی نہر
ایسے منظم منصوبوں کو دوں کیسے آفات کے نام
——
پروفیسرملک زادہ صاحب کے اشعار میں مفاہیم کی جدّت، خیالات کی ندرت اور افکار کی وسعت کے ساتھ ساتھ ان کی غزلوں اور نظموں میں آفاقیت اور ہمہ گیریت بدرجۂ اتم موجود ہے،جیسا کہ درجِ ذیل شعر دیکھیے ؏
——
وہی قاتل، وہی منصف، عدالت اس کی، وہی شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرفداری بھی ہوتی ہے
——
حالات ِ زمانہ کی صحیح اور سچی ترجمانی کرتے ہوئے عدل وانصاف کا بھرم رکھنے والوں کوآئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ؏
——
دیکھوگے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
دریا میں تلاطم ہو تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو سا حل نہ ملے گا
——
اس شہر ستم میں پہلے تو منظور بہت سے قاتل تھے
اب قاتل خود ہی مسیحا ہے یہ ذکر برابر ہوتا ہے
——
ملک زادہ صاحب کی شاعری میں بنیادی احساس، انسان دوستی، محبت، تعلق، اپنائیت اور مساوات بکثرت موجود ہے، ساری دنیا ان کے نزدیک ایک خاندان کی حیثیت رکھتی ہے، ان کا یہ تصور ان کی غزلوں میں صاف جھلکتا ہوا محسوس ہوتاہے ؏
——
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے
——
الجھن ، گھٹن، ہراس، تپش، کرب، انتشار
وہ بھیڑ ہے کہ سانس بھی لینا محال ہے
——
محفل محفل دار کا چر چا ، مجلس مجلس ذکرِ رسن
مقتل مقتل خونِ شہیداں کل بھی تھا اور آج بھی ہے
دشنۂ ابرو، خنجرِ مژگاں، کل بھی تھا اور آج بھی ہے
خون سے رنگیں دامنِ جاناں کل بھی تھا اور آج بھی ہے
بستی بستی ظلمِ فراواں کل بھی تھا اور آج بھی ہے
امن وسکوں اک خوابِ پریشاں کل بھی تھااور آج بھی ہے
——
ملک زادہ صاحب کے یہ اشعار اپنے زمانے کا شکوہ بھی کررہے ہیں اور کرب واذیت کے اس درد کااظہار بھی، جسے دوسرے لفظوں میں شاید ظاہر کرنامشکل ہو۔
ملک زادہ صاحب نے اپنی زندگی میں مختلف اتار، چڑھاؤ، نشیب وفراز دیکھے ہیں جن کا ذکر انھوں نے اپنے اشعار میں بھی جا بجا کیا ہے،بلکہ حالات اور ستم رانیوں کا ذکر ان کی غزلوں میں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ عشق کے ذکر پر بھی حالاتِ زمانہ کاپرتو سایہ فگن ہے ؏
——
کچھ غمِ جاناں، کچھ غمِ دوراں، دونوں میری ذات کے نام
ایک غزل منسوب ہے اس سے، ایک غزل حالات کے نام
موجِ بلا دیوارِ شہر پر اب تک جو کچھ لکھتی رہی
میری کتابِ زیست کو پڑھیے درج ہیں سب صدمات کے نام
——
اس طرح ملک زادہ منظور احمد کی شاعری تعداد اور کمّیت کے اعتبارسے اگرچہ کم ہے لیکن کیفیت اور معنویت کے اعتبار سے کسی دیوان سے کم نہیں ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے ؏
——
سُرخیِ لب کے، رنگِ قبا کے، نقشِ حنا کے خواب نہ پوچھ
وقتِ سحر تعبیر میں ہم نے خونِ رگِ دل دیکھا ہے
زنداں زنداں شورِ سلاسل، گلشن گلشن شورش ِ گُل
اب کے برس منظور نے طوفاں ساحل ساحل دیکھا ہے
——
علاجِ زخمِ دل ہوتا ہے ، غم خواری بھی ہوتی ہے
مگر مقتل سے میرے خو ں سے گُل کاری بھی ہوتی ہے
——
اب خون کو مَے ، قلب کو پیمانہ کہا جائے
اس دور میں مقتل کو بھی مَے خانہ کہا جائے
ہر ہونٹ کو مرجھایا ہوا پھول سمجھیے
ہر آنکھ کو چھلکا ہوا پیمانہ کہا جائے
——
گلشن میں تار تار ہے کیوں گُل کا پیرہن
کب تک چلے گی بادِ خز اں کچھ جو اب دو
——
شاعر جب قوم ووطن کو قابلِ اطمینان حالت میں نہیں پاتا تواس کادل تڑپ اٹھتا ہے اور ہر تڑپ،درد، خلوص اور جذبۂ حب الوطنی میں ڈوبی ہوئی ایک نظم بن جاتی ہے، آپ ملک زادہ کی نظموں کو پڑھیے تو ضرور میری ہم نوائی کریں گے، ایک نظم کے چنداشعار ملاحظہ فرمائیے ؏
——
جیون کی اندھیری راہوں پر، ہم دیپ جلایا کرتے ہیں
آکاش کے جھلمل تاروں پر، نظریں بھی اٹھا یا کرتے ہیں
آدرش کے پھولوں کی خاطر، کانٹوں میں گذارا کرتے ہیں
دنیا کو سُکھی رکھنے کے لیے، دکھ، درد، گوارا کرتے ہیں
جب آنچ وطن پر آتی ہے، تلوار اُٹھا یا کرتے ہیں
گیتا سے سبق بھی لیتے ہیں، قرآں کی زباں بھی رکھتے ہیں
گوتم کی صدا، نانک کی کتھا، چشتی کی اذاں بھی رکھتے ہیں
ٹیپو کا عَلم بھی ہاتھ میں ہے، ارجُن کی کماں بھی رکھتے ہیں
منظور بتادو دنیا کو، ہم عزمِ جواں بھی رکھتے ہیں
جب آنچ وطن پر آتی ہے، تلوار اُٹھا یا کرتے ہیں8
——
ان اشعار کاایک ایک لفظ امن، شانتی، قومی ایکتا، آپسی میل جول، اتحاد واتفاق کے پیغام اور حب الوطنی کے جذبے سے معمور ہے۔ان اشعار میں حُبِّ وطن بھی ہے، قومی یکجہتی بھی،بھائی چارہ اور ہندوستانی تہذیب کا خوبصورت نظارہ بھی۔ ملک زادہ منظوراحمد کے اندر حب الوطنی، اور وطن کے لیے کس قدر تڑپ تھی ؟ ان اشعار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی غزلوں اور نظموں میں ملک کے حالات کی منظر کشی،قوم کی زبوں حالی، امن وایکتا، قومی یکجہتی،بھائی چارہ، اتحادواتفاق اور ملک کی تعمیروترقی کی روشن تصاویر اور فرحت بخش مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔
——
حوالہ جات:
.1,2,3اردو کاایک عظیم مجاہد پروفیسرملک زادہ منظور احمد : شفیق احمد باغبان، ملخصاً صفحاتِ متفرقہ
.4,5 دیباچہ شہرِ ستم : ملک زادہ منظوراحمد، ص7
.6 ملک زادہ منظور احمد: انورؔ جلال پوری، ص222
.7 شہرِ ستم: ملک زادہ منظوراحمد، ص9
.8 شہرِ ستم: ملک زادہ منظوراحمد، ص71.72
——
منتخب کلام
——
نہ خوفِ برق نہ خوفِ شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
——
روشن چہرہ ، بھیگی زلفیں ، دوں کس کو کس پر ترجیح
ایک قصیدہ دھوپ کا لکھوں ، ایک غزل برسات کے نام
جن کے لیے مر مر کے جئے ہم ، کیا پایا اُن سے منظورؔ
کچھ رسوائی ، کچھ بدنامی ، ہم کو ملی سوغات کے نام
——
شمع کی طرح شبِ غم میں پگھلتے رہیے
صبح ہو جائے گی ، جلتے ہیں تو جلتے رہیے
——
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
——
دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا
——
کچھ غم جاناں کچھ غم دوراں دونوں میری ذات کے نام
ایک غزل منسوب ہے اس سے ایک غزل حالات کے نام
موج بلا دیوار شہر پہ اب تک جو کچھ لکھتی رہی
میری کتاب زیست کو پڑھیے درج ہیں سب صدمات کے نام
گرتے خیمے جلتی طنابیں آگ کا دریا خون کی نہر
ایسے منظم منصوبوں کو دوں کیسے آفات کے نام
اس کی گلی سے مقتل جاں تک مسجد سے مے خانے تک
الجھن پیاس خلش تنہائی کرب زدہ لمحات کے نام
صحرا زنداں طوق سلاسل آتش زہر اور دار و رسن
کیا کیا ہم نے دے رکھے ہیں آپ کے احسانات کے نام
روشن چہرہ بھیگی زلفیں دوں کس کو کس پر ترجیح
ایک قصیدہ دھوپ کا لکھوں ایک غزل برسات کے نام
جن کے لیے مر مر کے جئے ہم کیا پایا ان سے منظورؔ
کچھ رسوائی کچھ بدنامی ہم کو ملی سوغات کے نام
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترک محبت اپنی خطا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
وہ اب بھی پابند وفا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
دروازے پر آہٹ سن کر اس کی طرف کیوں دھیان گیا
آنے والی صرف ہوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
حال پریشاں سن کر میرا آنکھ میں اس کی آنسو ہیں
میں نے اس سے جھوٹ کہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
عرض طلب پر اس کی چپ سے ظاہر ہے انکار مگر
شاید وہ کچھ سوچ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
حد نظر تک صرف دھواں تھا برق پہ کیوں الزام رکھیں
آتش گل سے باغ جلا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
خون بہانا اس کا شیوہ ہے تو سہی منظورؔ مگر
ہاتھ پہ اس کے رنگ حنا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
علاج زخم دل ہوتا ہے غم خواری بھی ہوتی ہے
مگر مقتل کی میرے خوں سے گل کاری بھی ہوتی ہے
وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے
یہ ہے طرفہ تماشا کربلائے عصر حاضر کا
گھروں میں قاتلوں کے اب عزا داری بھی ہوتی ہے
تعلق ان سے ٹوٹا تھا نہ ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا
بہت مضبوط زنجیر وفاداری بھی ہوتی ہے
وہ میرا دوست ہے منظورؔ لیکن جب بھی ملتا ہے
خلوص دل میں شامل کچھ ریاکاری بھی ہوتی ہے
——
یہ بھی پڑھیں : جہانِ چار سُو چمکے، فضائے اندروں مہکے
——
معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
طوفاں جو ڈبو دے کشتی کو کشتی ہی کے اندر ہوتا ہے
جو فصل خزاں میں کانٹوں پر رقصان و غزلخواں گزرے تھے
وہ موسم گل میں بھول گئے پھولوں میں بھی خنجر ہوتا ہے
ہر شام چراغاں ہوتا ہے اشکوں سے ہماری پلکوں پر
ہر صبح ہماری بستی میں جلتا ہوا منظر ہوتا ہے
اب دیکھ کے اپنی صورت کو اک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے
اس شہر ستم میں پہلے تو منظورؔ بہت سے قاتل تھے
اب قاتل خود ہی مسیحا ہے یہ ذکر برابر ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی تڑپ عطا ہو کہ دنیا مثال دے
اک موج تہ نشیں ہوں مجھے بھی اچھال دے
بے چہرگی کی بھیڑ میں گم ہے مرا وجود
میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں مجھے خد و خال دے
ہر لحظہ بنتے ٹوٹتے رشتے نہ ہوں جہاں
پچھلی رفاقتوں کے وہی ماہ و سال دے
کشکول ذات لے کے نہ جاؤں میں در بدر
حاجت روا ہو سب کا وہ دست سوال دے
اس دشت پر سراب میں بھٹکوں کہاں کہاں
زنجیر آگہی مرے پیروں میں ڈال دے
منظورؔ کا یہ ظرف کہ کچھ مانگتا نہیں
مرضی تری جو چاہے اسے ذو الجلال دے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ