اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کا یوم پیدائش ہے

نسیم حجازی(پیدائش: 19 مئی 1914ء – وفات: 2 مارچ 1996ء)
——
نسیم حجازی کی ناول نگاری از راحیل قریشی
——
نسیم حجازی کے قلمی نام سے شریف حسین نے اُردو ناول میں نئی جہت کو متعارف کرایا۔ نسیم حجازی (شریف حسین) پنجاب کے ضلع گرداسپور کی تحصیل دھاری وال کے گاؤں سُوجن پور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ جب کہ علم و ادب کا یہ سورج 2 مارچ 1996ء کو راولپنڈی میں غروب ہوگیا۔
نسیم حجازی نے 1992ء میں پرائڈ آف پرفارمنس بھی حاصل کیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نسیم حجازی کو ناول نگاری کے فن میں جو مہارت حاصل تھی وہ کسی ایوارڈ کی محتاج نہیں تھی، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کسی بھی ایوارڈ کے حصول سے نسیم حجازی کی نہیں بلکہ اس ایوارڈ کی وقعت میں ہی اضافہ ہوا۔
نسیم حجازی 1940ء تا 1991ء نسلِ نو کو ناول نگاری کے ذریعے مسلم تاریخ سے آگاہ کرتے رہے۔ اُن کی ناول نگاری کا موضوع اور مواد اسلامی تاریخ ہے۔ اُنہوں نے اوّل روز سے ایک معتبر مؤرخ کا کردار ادا کیا ہے۔ فن پر ان کو مکمل قدرت حاصل ہے اور وہ ناول کی تکنیک سے اچھی طرح واقف ہیں۔
نسیم حجازی پر اسلامی تاریخ کے حوالے سے پروپیگنڈا کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
ابن ِ انشاء نے بھی شجاعت اور بہادری کے حوالے سے نسیم حجازی پر طنزیہ تبصرے کیے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جو شان اقبال ؔ کی شاعری میں موجود ہے وہی نسیم حجازی کی نثر میں نظر آتی ہے۔ اقبال ؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے جو فلسفہ برصغیر کے مسلم عوام کو پیش کیا، نسیم حجازی نے بعینہٖ وہی فلسفہ اپنی نثر کے ذریعے پیش کیا۔
نسیم حجازی نے 1940ء میں ’’انسان اور دیوتا‘‘ کا پہلا حصہ مکمل کیا، اور پھر ’’داستان ِ مجاہد‘‘ تحریر کی۔ اس کے بعد 1947ء میں ’’انسان اور دیوتا‘‘ کی تکمیل ہوئی۔
نسیم حجازی کے فنی کمال کا اندازہ لگانے کے لیے اُن کے ناول ’’محمد بن قاسم‘‘ کا مطالعہ کرکے دیکھا جاسکتا ہے کہ کس ہنر مندی اور چابک دستی سے انہوں نے صحیح تاریخ کی اصلیت برقرار رکھتے ہوئے ایک نہایت دلچسپ، خوب صورت اور پُراثر داستان ترتیب دی ہے۔ جنگ کی حالت میں بھی انسانی رشتوں اور سرگرمیوں کی روداد نے ایک قابل ِ قبول ماحول پیدا کیا۔ چھوٹے بڑے ہر کردار نے اپنا مخصوص کردار بخوبی نبھایا۔ یہاں تک کہ تمام فتوحات اور کمالات کے باوجود تاریخ ِ عالم کے اس عظیم ہیرو کا دردناک انجام بھی اس کی سیرت کے مطابق ہوا۔ وہ زندگی میں جتنا شاندار تھا اتنا ہی بلند موت کے وقت بھی نظر آیا۔ اس کی اخلاقی رفعت کے مقابلے
——
یہ بھی پڑھیں :  
——
میں سلیمان بن عبدالملک کی سلطنت بھی سرنگوں ہوگئی۔ اطاعت ِ امیر میں محمد بن قاسم کے ایثار و قربانی نے ان کی جنگی فتوحات کا اسلامی مقصد بالکل واضح کردیا۔
’’آخری چٹان‘‘ میں عالم ِ اسلام کے خلاف منگولوں کی تباہ کن یلغار کا تنہا مقابلہ کرکے سلطان جلال الدین شاہ خوارزم نے بغداد کی خلافت ِ عباسیہ پر منڈلانے والے خطرات کو ایک مدت تک روکے رکھا۔ اس ناول میں وسط ایشیا کے جغرافیہ و تاریخ اور تہذیب و تمدن کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں اور عہد ِ وسطیٰ کے ہندوستان میں ایک نئی مسلم سلطنت کے آغاز کا حال بھی معلوم ہوتا ہے۔ یہ ناول منگولوں کے سیلاب اور وقت کے طوفانوں اور فتنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی آخری اجتماعی عالمی مزاحمت واضح کرتا ہے۔
’’قیصر و کسریٰ‘‘ اور ’’قافلہ ٔ حجاز‘‘ کے عنوانات سے دو ناولوں میں نسیم حجازی نے اسلام کے دور ِ زرّیں کو اپنی ناول نگاری کا موضوع بنایا ہے۔ وہ سچے واقعات کو افسانوی قالب میں ڈھال کر ماجرا سازی اور کردار نگاری کا جادو جگاتے ہیں۔
مسلم اسپین (ہسپانیہ، قرطبہ اور غرناطہ) کا نوحہ پڑھنے کے لیے نسیم حجازی کے قلم نے چار ناول تحریر کیے ہیں جن کو بالترتیب پڑھنا بہتر رہے گا:
’’یوسف بن تاشفین‘‘، ’’شاہین‘‘، ’’اندھیری رات کے مسافر‘‘، ’’کلیسا اور آگ‘‘۔
اندلس، غرناطہ، قرطبہ اور الحمرا کی داستان آپ کو ماضی میں لے جائے گی، خاص طور پر ’’کلیسا اور آگ‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ کو اس بات کی سچائی کا علم ہوجائے گا کہ ’’کیا مغرب کبھی مہذب رہا ہے؟‘‘
نسیم حجازی کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا ہے، وہ جس ماحول کو پیش کرنا چاہتے ہیں اس کی جزیات و تفصیلات سے واقف ہیں اور حالات کے تجزیے میں انہیں ید ِطولیٰ حاصل ہے، ان کی سیاسی بصیرت تاریخی واقعات کے تمام مضمرات کھول کر سامنے رکھ دیتی ہے۔
نسیم حجازی یقینا ایک مبلغ ہیں، لیکن ان کا جذبۂ تبلیغ ہی انہیں بلاغت ِ فن کی طرف متوجہ کرتا ہے اور وہ اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ دل آویز بنانے کے لیے حُسن ِ اظہار کی آخری حدوں تک جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا اُسلوب ِ نگارش سحر آفریں بن جاتا ہے۔ کم نظر ناقدین اسے پروپیگنڈا کہہ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ درحقیقت ادب کے اسرار و رموز سے واقف نہیں، اور محض اپنے تعصبات و جذبات کو اصول و معیار سمجھتے ہیں۔ جب کہ نسیم حجازی کے ناولوں کے ساتھ ان کے قارئین کی ذہنی وابستگی درحقیقت ناول نگار کی مہارتِ فن کا ثبوت ہے۔
بعض مواقع پر جمالیاتی ذوق کی تصویرکشی سے نسیم حجازی کا مقصد رومان انگیزی نہیں، نہ آثار ِ قدیمہ کی پرستش ہے۔ بلکہ وہ اسلامی تاریخ کے ہیروز کی شجاعت کا نمونہ پیش کرکے آج کے نوجوانوں میں سعی و عمل کی شمشیریں دینا چاہتے ہیں اور انہیں ماضی کے خوابوں میں گم ہوجانے کے بجائے زمانہ ٔ حال کے معرکوں میں پنجہ ٔ فگن ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ نسیم حجازی تاریخی ناول نگار ہیں جن کے محرکات و مقاصد دینی و اخلاقی ہیں اور اسلام کے آفاقی نصب العین کے عَلم بردار ہیں، اور اس کی روشنی میں ایک انقلاب کے نقیب۔ اُن کے فن کا کارنامہ اردو ادب میں وہی ہے جو اقبال ؔ کی شاعری کا ہے۔ دوسری طرف نسیم حجازی کے ناول عبرت و بصیرت کا مرقع بھی ہیں۔ خیالات میں لطافت و جمالیات شاعری سے مخصوص سمجھی جاتی ہے، لیکن نسیم حجازی کی نثر میں یہ خوبیاں موجود ہیں۔ عراق، قرطبہ، غرناطہ، ہسپانیہ اور ہندوستان میں جو کچھ مسلمانوں پر بیتی اُس کا نوحہ نسیم حجازی کے اسلوب میں موجود ہے۔
نسیم حجازی کے بعض کردار جذباتی مکالمے پیش کرتے ہیں اور طویل مکالموں سے قاری کو ہرگز بوریت کا احساس نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ حقیقت سے بالکل دُور نہیں ہوتے۔ اُن کی ہر کتاب کے شروع ہوتے ہی حکمت و دانش کے موتی بھی ہر صفحے پر چمکتے مل جاتے ہیں۔
نسیم حجازی کی تصانیف
تاریخی ناول : قیصر و کسریٰ،قافلہ حجاز، داستان ِ مجاہد،محمد بن قاسم،آخری چٹان، یوسف بن تاشفین،شاہین،اندھیری رات کے مسافر،کلیسا اور آگ، پردیسی درخت،گمشدہ قافلے،آخری معرکہ،معظم علی، اور تلوار ٹوٹ گئی،خاک اور خون،انسان اور دیوتا
طنز و مزاح : ثقافت کی تلاش، سو سال بعد، سفید جزیرہ،پورس کے ہاتھی۔
سفرنامہ ٔ حج: پاکستان سے دیار ِ حرم تک
——
اقتباسات
——
میں بارگاہِ خداوندی کے جاہ و جلال کے تصور سے لرزتا ہوا اندر داخل ہوا۔ صحن میں پاؤں رکھتے ہی خانہ کعبہ پر نظر پڑی اور مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا کہ اس کی چھت آسمان کو چھو رہی ہے۔ سینکڑوں آدمی وہاں طواف کر رہے تھے۔ کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنا گوارا نہ تھا۔ جو طواف سے فارغ ہو چکے تھے، ان میں سے کوئی حطیم کے اندر نفل پڑھ رہا تھا اور کوئی غلافِ کعبہ تھام کر گریہ و زاری کر رہا تھا۔ کسی کو کسی سے سروکار نہ تھا۔ کسی کو کسی سے دلچسپی نہ تھی۔ دو تین چکر لگانے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میں‌ کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میری آواز بیٹھ گئی۔ میری قوت گویائی جواب دے گئی اور آنسوؤں کا سیلاب جو نہ جانے کب سے اس وقت کا منتظر تھا میری آنکھوں سے پھوٹ نکلا۔ یہ ایک ایسا مقام تھا جہاں بچے کی طرح سسکیاں لینا بھی مجھے معیوب معلوم نہیں ہوتا تھا۔ کسی نے میری طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں‌ کی، کسی نے یہ نہ پوچھا کہ تم کیا کر رہے ہو، ان کی بے اعتنائی اور بے توجہی ظاہر کر رہی تھی کہ ایک انسان کے آنسو اسی مقام کے لیے ہیں.
(اقتباس: نسیم حجازی کے سفرنامے "پاکستان سے دیارِ حرم تک” سے)
——
میری بہنوں یاد رکھو گرتی ہوئی قوم کا آخری سہارا قوم کی بیٹیاں ہی ہوا کرتی ہیں ۔تم قوم کا آخری سہارا ہو۔ جب تک تمھارے سینے نور ایمان سے منور ہیں تمھارے بیٹوں تمھارے شوہروں اور تمھارے بھائیوں کو دنیا کی کوئی بھی طاقت مغلوب نہیں کر سکتی
(آخری چٹان سے اقتباس)
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ