اردوئے معلیٰ

Search

نعت کہنے کو جب بھی اٹھایا قلم، میرے جذبات کو جانے کیا ہو گیا

خامشی لب پہ مدحت سرا ہو گئی، اشک آنکھوں میں حرفِ دعا ہو گیا

 

شکلِ احمد تصور میں سجنے لگی، بُعدِ فُرقت کے سب فاصلے مِٹ گئے

میری پلکیں مدینے کی گلیاں بنیں، میرا سینہ ہی غارِ حرا ہو گیا

 

آپکی چشمِ عرفاں کے فیضان سے، سارباں ریگزاروں کے رہبر بنے

جو عمر تھا وہ فاروقِ اعظم بنا، جو علی ؑ تھا وہ شیر خدا ہو گیا

 

میں نے جس گام پر کھائی ٹھوکر مرا، رحمتِ عالمیں ہی سہارا بنے

جس دوراہے پہ آ کے میں بھٹکا وہیں، آپ کا نقشِ پا رہنما ہو گیا

 

عظمتیں اسکے قدموں کی مٹی بنیں، جس نے اشکوں سے لکھی ہے نعت نبی

جو جھُکا آپ کے در کی دہلیز پر، فی الحقیقت وہ قد سے بڑا ہو گیا

 

پھر لرزتے ہوئے لب پہ ہے یہ دعا، راہِ طیبہ کا مجھ کو مسافر بنا

اس سے پہلے بھی اے شاہِ ہر دوسرا، میں نے جو کچھ بھی مانگا عطا ہو گیا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ