اردوئے معلیٰ

Search

نہ پُھول کی نہ کسی نافۂ غزال کی ہے

سُخن کے دشت میں خوشبو ترے خیال کی ہے

 

زمیں سے تا بہ فلک روشنی کمال کی ہے

فضا میں آج شباہت ترے جمال کی ہے

 

نہ دیکھ بالکنی سے غُروب کا منظر

جمالِ یار ! سنبھل ، یہ گھڑی زوال کی ہے

 

ترا نہ ہونا بھی اب تو ہے تیرے ہونے سا

فراق میں بھی مری کیفیت وصال کی ہے

 

میں تجھ کو دیکھ کے ہنستا ہوں اور سوچتا ہوں

پرائی چیز سہی ، چیز تُو کمال کی ہے

 

نگاہِ یار بھلے بے نیاز ہو فارس

نگاہِ یار ہی محرم تمہارے حال کی ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ