وحشت کدے میں ڈھونڈ رہا تھا پناہ دل
جب اتفاق سے تری آغوش وا ہوئی
خوابوں کے برگِ زرد جدا شاخچوں سے ہیں
تو ہوبہو مزاج میں موجِ صبا ہوئی
وسعت کی بات اب نہیں گہرائیوں کی ہے
اب ناخدا سے عمر سپردِ خدا ہوئی
ڈھانپا تھا جس نے جسم کو پوشاک کی طرح
آخر بدن سے کھال کی صورت جدا ہوئی