اردوئے معلیٰ

Search

وہی بالوں میں دو چُٹیاں، وہی اک ہاتھ میں اِملی

تُو اتنے سال میں ویسے ذرا سی بھی نہیں بدلی

 

جھپکتی ہی نہیں تُو دیکھ کے مجھ کو پلک اب تک

تری آنکھوں میں دِکھتی ہے محبت کی جھلک اب تک

تو اب بھی دور ہے مجھ سے، مجھے ہے یہ قلق اب تک

کبھی تھا مجھ پہ جو تیرا، نہ بدلا ہے وہ حق اب تک

 

مرا جو تجھ پہ تھا حق آج بھی تجھ پہ ہے، کیا سمجھی؟

تُو اتنے سال میں ویسے ذرا سی بھی نہیں بدلی

 

ترے بالوں سے اُٹھتی ہے وہ بھیگی سی مہک اب تک

ترے چہرے کی رنگت میں ہے سورج کی دمک اب تک؟

تری انگڑائیوں میں ہے وہ پہلی سے لپک اب تک

ترے لہجے میں میرے پیار کی ہے وہ لٙلک اب تک

 

تو پاگل سی ہوا کرتی تھی جیسی اب بھی ہے، پگلی!

تُو اتنے سال میں ویسے ذرا سی بھی نہیں بدلی

 

ترے گالوں پہ رک جاتی ہے کرنوں کی چمک اب تک

ترے ہونٹوں کی قٙوسوں سے حسد میں ہے دھنک اب تک

تجھے دیکھوں تو پڑتا ہے مجھے پریوں کا شک اب تک

انا کے بھول بیٹھا، یاد تھے جتنے سبق اب تک

 

میں وہ بھی سوچتا ہوں جس پہ کہ ہوتی ہے پابندی

تُو اتنے سال میں ویسے ذرا سی بھی نہیں بدلی

 

محبت میں نظر آئی مجھے تُو بے لچک اب تک

ذرا سی بے اُصولی پہ تُو جاتی ہے بھڑک اب تک

تِرا درسِ محبت یاد ہے اِک اِک ورٙق اب تک

تیری آمادگی پہ میں تو جاتا ہوں بھٹک اب تک

 

وہ میرا پوچھنا "​سچّی؟”​، تو تیرا بولنا "​مُچّی”​

تُو اتنے سال میں ویسے ذرا سی بھی نہیں بدلی

 

ملا مٙیں یوں، کہ مجھ میں تھی وہ پہلی سی جھجک اب تک

مگر اچھا ہوا تُو پیار میں ہے بے دھڑک اب تک

مرے روشن ہیں پچھلی بار سے چودہ طبق اب تک

مگر ہونٹوں پہ ہے میرے وہ شیرینی تلک اب تک

 

تُو اس دن لگ رہی تھی مجھ کو پوری شیر کی بچی

تُو اتنے سال میں ویسے ذرا سی بھی نہیں بدلی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ