وہ ذرا انتظار کر لیتا
میں خزاں کو بہار کر لیتا
ہم نہ تم کو بھُلا سکے ورنہ
ہم سے بھی کوئی پیار کر لیتا
دیپ رکھ کر منڈیر پر دِل کی
زندگی کو مزار کر لیتا
کچھ بھی تو حوصلہ نہ تھا اُس میں
جتنے دریا تھے پار کر لیتا
کاش میں اُس کے ’’آج‘‘ سے اشعرؔ
اپنا ’’کل‘‘ یادگار کر لیتا