اردوئے معلیٰ

Search

وہ ذرا انتظار کر لیتا

میں خزاں کو بہار کر لیتا

 

ہم نہ تم کو بھُلا سکے ورنہ

ہم سے بھی کوئی پیار کر لیتا

 

دیپ رکھ کر منڈیر پر دِل کی

زندگی کو مزار کر لیتا

 

کچھ بھی تو حوصلہ نہ تھا اُس میں

جتنے دریا تھے پار کر لیتا

 

کاش میں اُس کے ’’آج‘‘ سے اشعرؔ

اپنا ’’کل‘‘ یادگار کر لیتا

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ