اردوئے معلیٰ

Search

ٹھہرے فلک بدر ، تو زمیں کے نہیں رہے

ہم کم نصیب لوگ کہیں کے نہیں رہے

 

بدلے ہماری ہاں کے مفاہیم وقت نے

لیکن ترے جواب نہیں کے نہیں رہے

 

باقی ہیں چند نقشِ کفِ پاء ہی ریت پر

دہلیز پر نشان ، جبیں کے نہیں رہے

 

ائے مستقل گریز کی عادت ، نوید ہو

ہم تھے جہاں جہاں کے وہیں کے نہیں رہے

 

تھی دید سوز ، جلوۂ ِ تعبیر کی جھلک

قابل تمام خواب ، یقیں کے نہیں رہے

 

اب تُم ، جبینِ شوق بھلے روند کر چلو

پہلے سے ناز ، خاک نشیں کے نہیں رہے

 

اب کیا مکانِ دِل کے مکینوں کا تذکرہ

آثار تک مکان و مکیں کے نہیں رہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ