چاند کی اُلفت میں پاگل ہو گئی
رات کی جاگی ہوئی تھی سو گئی
اسقدر پھیلے جھمیلے آس پاس
ذہن میں اِک یاد تھی سو کھو گئی
اُٹھ گئے سوچوں سے یادوں کے قدم
دھوپ سایوں کے تعاقب کو گئی
رات آنکھوں‘‘ میں اُداسی کی لکیر’’
شام گہری ، کتنی گہری ہو گئی
خودنمائی دو (۲) دلوں کے درمیاں
بیج اشعرؔ نفرتوں کے بو گئی