چھوڑ کے جانے والی عادت بد ہوتی ہے یار
ورنہ اتنی وحشت ہے کہ حد ہوتی ہے یار
ایسے کیسے وقت کا پہیہ ان کو کچلے گا
آخر کوئی چیز تو خال و خد ہوتی ہے یار
میں کم علم ہوں جو بھی لکھوں خام کہیں گے لوگ
تیری بات تو ڈگری اور سند ہوتی ہے یار
اونچے لمبے شملے والے اونچے لمبے لوگ
کچھ لوگوں کی سوچ ہی پستہ قد ہوتی ہے یار
اس کم بخت زمانے کا ڈر کھانے آتا ہے
ورنہ پیار کی عرضی ایسے رد ہوتی ہے یار ؟
چائے کے نشے جیسی لت عشقا تیری ہے
روز طلب ہوتی ہے اور بے حد ہوتی ہے یار
جن کے باپ نہیں ہوتے وہ دھوپ میں جلتے ہیں
ہائے باپ کی چھاوں تو برگد ہوتی ہے یار
میرے اندر سناٹوں نے ڈیرہ ڈالا ہے
ایسی ویرانی جیسے مرقد ہوتی ہے یار
آخر میرا جرم کہاں تک تولا جائے گا
بھول بہت سے لوگوں سے سرزد ہوتی ہے یار