اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف نقاد، محقق اور افسانہ نگار ڈاکٹر محمد باقر کا یوم وفات ہے

ڈاکٹر محمد باقر(پیدائش: 4 اپریل، 1910ء- وفات: 25 اپریل، 1993ء)
——
ڈاکٹر محمد باقر 4 اپریل، 1910ء کو لاہور بنگلہ، لائل پور (موجودہ فیصل آباد)، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
1939ء میں انہوں نے لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
1950ء سے 1970ء تک وہ جامعہ پنجاب کے شعبۂ فارسی کے صدر رہے اور 1965ء میں جامعہ پنجاب کے اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔
——
تصانیف
——
اُردوئے قدیم – دکن اور پنجاب میں
احوال و تعلیمات شیخ ابو الحسن ہجویری داتا گنج بخش
لندن سے لاہور تک
لندنی دوست کے نام خطوط
لندن سے خطوط
خدا کی لاٹھی
سیاہ کار اور دوسرے افسانے
شعرائے پنجاب
تہذیب عمل
شرح بانگ درا
احوال و آثار اقبال
——
وفات
——
ڈاکٹر محمد باقر 25 اپریل، 1993ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور کے ماڈل ٹاؤن قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
——
اقتباس از احوال و آثارِ اقبال رح
——
حدیث سے شغف اور اعتقاد کی کیفیت کو مولانا مودودی نے 1938 ء میں یوں بیان فرمایا :
” ایک مرتبہ ایک صاحب نے اقبال رح کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحابِ ثلاثہ کے ساتھ کوہِ احد پر تشریف رکھتے تھے ۔ اتنے میں کوہِ احد لرزنے لگا ۔ حضور نے فرمایا کہ ٹھہر جا ، تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ۔ اس پر پہاڑ رُک گیا
اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہے ۔ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں ۔ اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں ہے ۔ اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آ کر مادے کے بڑے بڑے تودے بھی لرز جاتے ہیں ۔
مجازی طور پر نہیں بلکہ واقعی لرز اٹھتے ہیں ۔ ”
——
یہ بھی پڑھیں : سجاد باقر رضوی کا یوم پیدائش
——
اس موقع پر ضمناََ اس حقیقت کے اظہار کی بھی ضرورت ہے کہ علامہ کے متعلق ان کے نام نہاد مداحوں یا مخالفین نے جو یہ رائے قائم کرنے کی جسارت کی ہے کہ وہ صرف عقیدۃََ مسلمان تھے وہ کس قدر غلط ہے ۔
صرف مولانا مودودی کا ایک بیان ملاحظہ ہو :
” اقبال کے متعلق ایک عام خیال ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھے ، عمل سے اُن کو کوئی سروکار نہ تھا ، بد گمانی پیدا کرنے میں خود ان کی افتاد طبیعت کا بھی دخل ہے ۔ اُن میں کچھ فرقہ ملامتیہ کے سے میلانات تھے جن کی بنا پر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انہیں کچھ مزہ آتا تھا ۔ ورنہ در حقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے ۔
قرآنِ مجید کی تلاوت سے اُن کو خاص شغف تھا ۔ اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔ مگر اخیر زمانے میں رقت کا یہ حال ہو گیا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے ۔
نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر ۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ میں نرا گفتار کا غازی ہوں ”
——
بحوالہ : مجلۂ جوہر ( اقبال نمبر ) ، جامعہ ملیہ ، دہلی ، 1938 ء
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ