کیا بتلائیں بعد کسی کے آنکھوں میں کیا کیا رکھا ہے
ساری عمر نبھانا ہے جو ایسا وعدہ رکھا ہے
اس کی آنکھ نے خوابوں کی تعبیریں ایسے ڈھونڈیں تھیں
جیسے لوحِ حیات پہ اک کاغز کورا سا رکھا ہے
چشمِ کشائی کا لمحہ تو ایسا نازک لمحہ تھا
ہر سائل کے ہاتھوں پر اپنا ہی کاسہ رکھا ہے
رنگ و نور کی یہ محفل تو دھوکا تھا اور دھوکا ہے
ہم نے ایک چراغ کو اس خاطر ہی اپنا رکھا ہے
خاک نشیں اب گوشہ نشیں ہے قصر ریحانہ میں ہائے
ہر اک یاد کو خون جگر سے میں نے طاہر لکھا ہے