کیا لکھوں میں مدحت نبی مرسل
وصاف ہے جن کا خود خداوند ازل
لیکن جب عجز کی ہو دل میں بنیاد
ہوتا ہے خود بخود ہر اک مسئلہ حل
جاری ہیں مری زباں پہ سبحان اللہ
اوصاف و محامد رسول اکمل
اعرابی و اعجمی ہیں جن کے مداح
اُن کی توصیف ہے مرا حسن عمل
وہ سرور سروراں، امیر کونین
وہ سید مرسلاں، نبی مرسل
سلطان جہاں، معلم پیر و جواں
سرخیل شہاں، پیمبر عز وَ جل
کونین پناہ و سرور عالمیاں
اقوام و ملل کے تاجدار اول
وہ امی لقب ، وہ دفتر علم و ادب
وہ فاضل و افضل و جمیل و اجمل
کہسار حرا کی دلنشیں گھاٹی سے
لے کر اترے پیمبری کی مشعل
لرزاں ان سے جہان کفر و طغیاں
اُن کی تعظیم کو جھکے لات و ہبل
اُن کا جاہ و جلال اللہ اللہ!
قصر پرویز میں مچائے ہلچل
انوار ہدیٰ کو چارسو بکھرا کر
اقلیم ظلام کو کیا مستاصل
شیرازہ تیرگی کو کر کے برہم
شام ابدیت کو کیا صبح ازل
ظلمت گہ دہر میں ہوئی ہے اُن سے
روشن ایمان و آگہی کی مشعل
دے کر ایمان کا سبق انساں کو
پیدا کیے رحمتوں کے اسباب و علل
نفرت کے جھلستے ہوئے صحراؤں میں
اُن کے لطف و کرم کا برسا بادل
وہ منبع علم جن کی ہر ایک حدیث
قرطاس علوم کی طلائی جدول
جو آپ کا ہے سخن، وہ ہے مستحسن
جو قول ہے آپ کا، وہ قول فیصل
گفتار حضور ہے لسان معسول
ہر قول مسلم ان کا ہے مثل عسل
عشق احمد سے دل اگر ہے خالی
کیا شرح بیان، کیا بیان مجمل
ڈالے جو حضور پر نگاہ تشکیک
خالدؔ وہ آنکھ ہے یقیناً احول