گردِ سفر نہیں ، بانگِ درا نہیں
حدِ نگاہ تک ، تیرا پتہ نہیں
ہاں میں ہوں بیوفا ، تو بیوفا نہیں
میرا قصور ہے ، تیری خطا نہیں
اے دشتِ آرزو ، کر تو ہی گفتگو
اب تو یہاں کوئی ، میرے سوا نہیں
سچ پوچھیے تو اب اہلِ جنوں کو بھی
وحشت کا ان دنوں کچھ حوصلہ نہیں
میں نے یہ کب کہا میں بھی ہوں دیوتا
راہیؔ برا سہی ، اتنا برا نہیں