ہم تلک جو آئی ہے عشق کے وسیلے سے
اس غزل کا رشتہ ہے میرؔ کے قبیلے سے
دیکھنے میں پیڑوں پر کتنے اچھے لگتے ہیں
جن پھلوں کے ہوتے ہیں ذائقے کسیلے سے
شہر کی فضاؤں پر کیوں یہ خوف طاری ہے
سب گلاب سے چہرے پڑ گئے ہیں پیلے سے
وصل کا وہ لمحہ بھی کیا عجیب لمحہ تھا
وہ بھی تھا نشیلہ سا ، ہم بھی تھے نشیلے سے
کیسے نام لوں ساقیؔ جو بھی میرے دشمن ہیں
ہے تعلق ان سب کا اپنے ہی قبیلے سے