ہم گلستاں میں اگر نعت سنانے لگ جائیں
گل تو گل خار بھی خوشبو میں نہانے لگ جائیں
وصفِ شہ ایک طرف‘ وصف کا عنواں لکھنے
کبھی خامہ جو اٹھائیں تو زمانے لگ جائیں
بات جب حسنِ شہنشاہِ حسیناں کی چِھڑے
حور و غلمان بھی چہرے کو چھپانے لگ جائیں
جب نکل آئے جمالِ نبوی کا سورج
شمعِ حُسن اپنی ملک آپ بجھانے لگ جائیں
اور کیا چاہئے ‘ کیا مانگیے ‘ گر ہاتھ اپنے
اُلفت و عشقِ پیمبر کے خزانے لگ جائیں
آئیں جب عرصۂ محشر میں شفاعت کو حضور
نعمتیں خلد کی ہم ایسے بھی پانے لگ جائیں
یہ حقیقت ہے کہ بن جائیں جو ہم اُن کے غلام
نفس و شیطان کے بھی ہوش ٹھکانے لگ جائیں
عین ممکن ہے ملائک تری خاطر ازہرؔ
قبر میں اطلس و کم خواب بچھانے لگ جائیں