ہوئی یکلخت طوفانوں کے دھاروں سے بچت میری
کرائی میرے آقا نے خساروں سے بچت میری
مرے ہاتھوں نے جب سے دامنِ سرکار تھاما ہے
ہوئی ہے عارضی سارے سہاروں سے بچت میری
ردا انکے کرم کی اوڑھ لی میری خطاؤں نے
ہوئی اس واسطے عصیاں شراروں سے بچت میری
گرا ہی چاہتی تھی میں ،نہ دیتے جو سہارا وہ
کہاں ممکن تھی دوزخ کے کناروں سے بچت میری
چمک جس کی دوامی ہے، اسے اپنا لیا میں نے
ہوئی سب ڈوبنے والے ستاروں سے بچت میری
ہوائے نفس، شیطاں ، دولتِ دنیا ، انانیت
کرم ہو آپکا ، ہو جائے چاروں سے بچت میری
نبی کے گلشن رحمت میں میرا آشیانہ ہے
صدف یوں ہوگئی دنیا کے خاروں سے بچت میری