ہیں رؤُوف الرّحیم و نور آقا
بندہ پرور مرے حضور آقا
ق
در پہ " جاؤُکَ " پڑھ کے آیا ہوں
سب مٹا دیجیے قصُور ، آقا
بخشوا دیجیے مجھے رب سے
آ گیا آپ کے حضُور ، آقا
ق
شاہ رگ سے خُدا قریں جب ہے
مان لو پھر نہیں ہیں دُور آقا
پھر بلا لیں مجھے مدینے میں
پھر عطا ہو وہی سرُور ، آقا
آپ کا نام لینے لگتا ہے
جس کو ملتا ہے کچھ شعُور ، آقا
مدح ہے آپ کی کلامِ خُدا
آپ ہی ہیں پسِ سطُور ، آقا
اپنے قدموں میں اب بلا لیجیے
مجھ کو رہنا نہیں ہے دُور ، آقا
نعت گوئی کمال ہو میری
ایسا دے دیں مجھے عبُور ، آقا
وُہ تجلّی بھی آپ نے دیکھی
جل گیا تھا کہ جس سے طور ، آقا
کچھ نہیں بڑھ کے خاکِ طیبہ سے
کوئی غلماں نہ کوئی حور ، آقا
حشر میں اُمّتی پکاریں گے
میرے آقا ! مرے حضُور ! آقا
چھانٹ کر خود الگ کِیا حق نے
جس کے دل میں تھا کچھ فتُور ، آقا
کائنات آپ ہی کے دم سے ہے
ہیں مدینے سے رنگ و نُور ، آقا
کیف آگیں تھا رہنا طیبہ میں
پھر میسّر ہو وہ سرُور ، آقا
حشر کا ڈر نہیں کہ رکھّیں گے
میرا پردہ وہاں ضرور آقا
آپ ہی افضل البشر لاریب
آپ اللہ کا ہیں نور ، آقا
لاج دانش کی رکھنا محشر میں
اے کریم النّسب غیور آقا