یکسر ہی لامکان تو گاہے مکان ہم
ایندھن گمان کا ہی رہے خوش گمان ہم
دنیا کو دیکھتے تھے کسی اور جہت سے
ائے وسعتِ خیال ، ترے کشتگان ہم
آندھی تصورات کی پہنچی جہاں تلک
بھرتے رہے ہیں خاک کی صورت اڑان ہم
دھرتی پہ گر پڑا ہے پھر اک بار آسماں
اور آ گئے ہیں خیر سے پھر درمیان ہم
لہجے میں جیسے وجد کا عالم تھا ان دنوں
جب داستان گو سے ہوئے داستان ہم
خود بھی مٹے مٹے سے زمیں بوس ہو گئے
اک جنتِ خیال کے صورت گران ہم
آخر پگھل کے جذب ہوئے ریگِ راہ میں
ائے ناقہِ جنون ، ترے ساربان ہم