اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف نعت گو شاعر‘ بیوروکریٹ‘ ماہر لسانیات اور دانشور عبدالعزیز خالد کا یوم پیدائش ہے۔

 

عبدالعزیز خالد (پیدائش: 14 جنوری، 1927ء – وفات: 28 جنوری، 2010ء)
——
عبدالعزیز خالد 14 جنوری 1927ء کو موضع پرجیاں کلاں تحصیل نکو در ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے اور کالج کے مجلے کریسنٹ کے مدیر بھی رہے تھے۔ 1950ء میں وہ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انکم ٹیکس آفیسر مقرر ہوئے اور 13 جنوری 1987ء کو انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
عبدالعزیز خالد شاعری میں ایک ممتاز اور منفرد اسلوب کے مالک تھے۔ انہوں نے اردو شاعری کو عربی ادبیات سے ہم آمیز کیا جس سے ان کی شاعری میں اس مشرقی روح کا احیا با انداز دگر ہوا جو مغربی اثرات سے گم ہوچلی تھی۔
عبدالعزیز خالد کی تصانیف کی فہرست بہت طویل ہے جن میں زرداغ دل، ماتم یک شہر آرزو، فار قلیط، طاب طاب، ثانی لاثانی، منحمنا، حمطایا، ماذ ماذ، کلک موج، برگ خزاں، دکان شیشہ گر، کف دریا، ورق نا خواندو، دشت شام، حدیث خواب، زنجیر رم آہو اور غزل الغزلات کے علاوہ سیفو، ٹیگور اور ہوچی منہ کی نظموں کے تراجم شامل ہیں۔
عبد العزیز خالد 28 جنوری 2010 ء کو لاہور میں وفات پا گئے۔
عبدالعزیز خالد لاہور میں ڈیفنس کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
——
نعت گو شاعر‘ بیوروکریٹ‘ ماہر لسانیات اور دانشور عبدالعزیز خالد از خالد بہزاد ہاشمی
——
معروف نعت گو شاعر‘ بیوروکریٹ‘ ماہر لسانیات اور دانشور عبدالعزیز خالد بطور نعت گو منفرد لہجے کے شاعر تھے۔ انکی شاعری عربی‘ فارسی کی آمیزش سے مرصع ہوتی اور انہوں ے اردو نعت گوئی کو ایک نئے آہنگ‘ رنگ اور اسلوب سے روشناس کرایا۔ عبدالعزیز خالد نہ صرف ایک معروف اور قادر الکلام بلکہ ایک مشکل گو شاعر تھے۔ وہ معروف ماہر لسانیات بھی تھے۔ انہیں اردو کے علاوہ انگریزی‘ فارسی‘ عربی اور سنسکرت پر بھی غیرمعمولی عبور حاصل تھا۔ انہوں نے انگریزی‘ یونانی‘ چینی‘ اور دیگر زبانوں کے شعری تراجم بھی کئے جن میں غبارِ شبنم‘ سرودِ رفتہ اور بادِ شمالی وغیرہ شامل ہیں۔ وہ ایک محب وطن شاعر تھے اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کو انہوں نے بہت شدت سے محسوس کیا تھا جس کا اظہار انکی قومی و ملی نظموں میں بھی ملتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : نوجوان شاعر خالد محبوب کا یوم پیدائش
——
وہ ایک درویش صفت شاعر تھے۔ اللہ‘ اسکے رسول‘ قرآن مجید اور اسلام سے محبت انکے خون میں دوڑتی تھی۔ انکے وجدان کی آنکھ نے موت کے قدموں کی چاپ واضح طور پر سن لی تھی جس کا اظہار انہوں نے اپنی آخری نظم میں کیا ہے جو ماہنامہ ”الحمرائ“ کے فروری کے آمدہ شمارہ میں شائع ہوگی۔ اسکا عنوان ”اے اجل اجلت نہ کر‘ اے عمر مستعجل نہ ہو“ جبکہ اسکے دیگر اشعار میں بھی موت کا حوالہ موجود ہے
——
آرہی ہے قریب تر خالد
وقت کے ساتھ صوتِ جرس
کریں کس سے پتہ کہ باقی ہیں
کتنے دن‘ کتنے ماہ‘ کتنے برس
——
انکی ایک آخری نظم ”آزاد صدی دو روزہ عالمی سیمینار“ کے موقع پر شائع ہونیوالے تعارفی کتابچے میں ”کھلا خط بندہ آزاد کے نام“ سے شائع ہوئی ہے جبکہ وہ بیماری کے سبب کانفرنس میں شرکت نہ کرسکے تھے۔ انکے دیگر قابل ذکر مجموعوں میں فارقلیط‘ منحمنا‘ ماذ ماذ‘ طاب طاب‘ عہد نامہ‘ حدیث خواب‘ ورق ناخواندہ‘ چراغِ لالہ‘ غزل الغزلات‘ کان شیشہ‘ برگِ خزاں‘ کلک موج‘ سراب ساحل‘ کف دریا اور زنجیر دم آہو قابل ذکر ہیں۔ انہیں قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا جبکہ انہوں نے حضرت علیؓ کی شان میں 313 اشعار پر مشتمل منقبت بھی لکھی۔ انکا تعلیمی کیرئیر بہت شاندار تھا اور انہوں نے 1944ءمیں میٹرک کے امتحان میں پنجاب بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انہیں حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ہاتھوں بہت سے گولڈ میڈل لینے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ 1946ءمیں گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے حبیبہ ہال میں قائداعظم محمد علی جناحؒ تشریف لائے اور جب بار بار یکے بعد دیگرے سٹیج پر انہیں چھ مرتبہ گولڈ میڈلز لینے کیلئے بلایا گیا تو حضرت قائداعظمؒ انہیں دیکھ کر مسکرانے لگے اور فرمایا ”نوجوان کچھ میڈلز دوسروں کیلئے بھی چھوڑ دو“۔ بعدازاں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس‘ نقوش ایوارڈ‘ آدم جی ادبی ایوارڈ‘ گلڈ ایوارڈ بھی ملے۔ وہ ایک روز گھر میں اچانک گر پڑے تھے اور انکی ریڑھ کی ہڈی بھی میں چوٹ آئی تھی۔ وہ تقریباً دس بارہ سال سے گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے رہے اور کسی ادبی تقریب یا جلسہ میں بھی شرکت نہیں کرتے تھے۔ وہ آج کل کے ادیبوں اور شعراءکے روئیے سے شاکی تھے جو انکے مقام و مرتبہ سے ناواقف تھے۔ کراچی کے معروف شاعر اور ادیب انور افسر شعور نے انکے بارے میں ”اردو ادب کے والد‘ عبدالعزیز خالد“ کا نعرہ لگایا تھا جو بہت مشہور ہوا تھا۔ انکے تعلیمی کیرئیر کو سنوارنے میں قابل فخر اساتذہ پروفیسر علیم الدین سالک‘ پروفیسر حمید اللہ خاں‘ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی اور پروفیسر رفیق خاور کا بھی ہاتھ تھا۔ معروف انشائیہ نگار اور دانشور ڈاکٹر وزیر آغا نے عبدالعزیز خالد کی وفات پر اظہارِ غم کرتے ہوئے کہا تھا کہ عبدالعزیز خالد کی رحلت نے مجھے دکھی کردیا ہے۔ وہ درویش صفت انسان ہونے کے علاوہ ایک جید عالم اور عالمی سطح کے ایک اہم تخلیق کار بھی تھے۔ عربی زبان اور ادب سے انہیں گہرا لگاﺅ تھا۔ دوسری زبانوں پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ جس معاشرہ میں میں انہوں نے اپنی تخلیقی کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ ابھی انکی تخلیقات کے تناظر سے پوری طرح آگاہ نہیں تھا اسی لئے وہ شاعری کے میدان میں ہردلعزیزی کے مقام کو چھو نہ سکے لیکن انکے کلام میں ایک بڑی تعداد ایسے اشعار کی بھی تھی جنہیں اگر الگ طور سے شائع کیا جاتا تو انکے ہاں بڑی شاعری کے شواہد ایک عام قاری کو بھی نظر آجاتے۔ میں نے انہیں کئی بار کہا کہ وہ اپنے لطیف اشعار کا ایک الگ انتخاب پیش کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ کس مقام پر ہیں مگر وہ شعر صرف اس لئے کہتے تھے کہ اپنے اعماق کے تخلیقی سلسلوں سے ہم آہنگ رہ سکیں۔ شہرت کا حصول انکا مطمع نظر ہرگز نہیں تھا مگر اب اس جہان سے رخصت ہوچکے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : اقبال اورشاہینوں کے شہر کے دیدہ ور شاہین خالد اقبال یاسر کا یومِ پیدائش
——
ہمارے علمی اور ادبی اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ نہ صرف انکے وسیع علمی تناظر کے حوالے سے تحقیقی کام انجام دیں بلکہ انکے لطیف‘ سادہ اور دل کو چھو لینے والے اشعار کے انتخاب بھی شائع کریں۔ عبدالعزیز خالد جیسے بڑے انسان اور تخلیق کار کو یاد رکھنے کی یہی ایک احسن صورت ہوسکتی ہے۔ معروف دانشور اور نقاد ڈاکٹر انور سدید نے عبدالعزیز خالد کی وفات کو ایک بہت بڑا ادبی سانحہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام سے انہیں عشق تھا‘ انہوں نے نظموں کے علاوہ قرآنی رباعیات بھی لکھیں۔ وہ سادہ مزاج اور انکسار پسند تھے۔ وہ بیشتر اوقات پیدل چلتے جبکہ کار انکے ساتھ رواں ہوتی۔ بطور کمشنر ریٹائر ہوئے۔ انکی دیانتداری کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ معروف ادیب محمد بدر منیر نے کہا تھا کہ عبدالعزیز خالد کی کمی کو تادیر محسوس کیا جائیگا۔
——
انتخابِ اشعارِ عبدالعزیز خالد از خالد علیم
——
عبدالعزیز خالد کے نام کے ساتھ ہی ایک مشکل گو ، بھاری بھرکم اور عربی آمیز لہجے کے شاعر کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس کہ انھوں نے اپنی شاعری کو اتنے دقیق اور گنجلک پیرائے میں پیش کیا کہ شاعری براے نام ہی رہ گئی ، لیکن جب اُن کے مجموعی کلام کو خلوصِ نیت کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ احساس کمتر ہونے لگتا ہے بلکہ اُن کی شاعری کی حیرت انگیز جہات دیکھ کر ایک بالغ نظر قاری کویہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ وہ اپنے عہد کے منفرد اور پُرگو شاعر تھے ۔ شاعری میں بے پناہ تخلیقی بہاؤ کے لحاظ سے وہ اپنے ہم عصروں میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے ۔ بنیادی طور پر وہ نظم کے شاعر تھے اور اُن کی طبیعت کا اصل جوہر اُن کی مختصر اور طویل نظموں میں کھلتا ہے ۔ اُن کے بیشتر مجموعہ ہاے کلام میں غزل کی نسبت نظم میں اُن کی شاعری کی اثرانگیزی نمایاں تر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اساطیری روایات پر مشتمل ان کے تمام منظوم ڈراموں کی صورت میں بھی وحدتِ تاثر ، بے تکلف تسلسلِ بیان اور تخلیقی ہنرکاری اپنے جمالیاتی پیرائے میں فزوں تر ہے ۔ اپنی نظم نگاری کے اعتبار سے وہ چند ایک بڑ ے شاعروں میں شمار کیے جا سکتے ہیں ۔تاہم اُن کی غزل کا اسلوب بھی ان کے انفرادی رنگ کا آئینہ دا ر ہے ۔ یہاں انتحاب کے طور پر ان کی غزلوں سے چند اشعار قارئینِ ’’بیاض‘‘ کی نذر ہیں۔
——
منتخب کلام
——
دروازے بند ہونے کی آواز سُنتے ہی
اُٹھتی ہے کیسی ہُوک دلِ دردمند سے
——
کب سے بے لذتِ پرواز ہیں مرغانِ اسیر
آ کریں سوختہ جانوں سے پر و بال کا ذکر
——
عجب مقامِ تحیر ہے جاے استعجاب
شبِ وصال کو ہم گفتگو میں کھو آئے
——
رِم جھم برس رہی ہے گھٹا، جی نڈھال ہے
اے یارِ دل نواز! شبِ برشگال ہے
اے بے قرار، فجر کا تارا ہوا طلوع
اے سوگوار، کس لیے آشفتہ حال ہے ؟
——
گر آرزوے ہم آغوشیِ نگار کرو گے
تو رفتہ رفتہ رہِ ترک اختیار کرو گے
نہ درد کا کہیں درماں ، نہ زخم کا کہیں مرہم
خرابے ہجر کے کیسے اکیلے پار کرو گے ؟
——
کانوں پڑ ی آواز سنائی نہیں دیتی
وہ شورِ قیامت ہے کہ شَل دستِ دعا ہے
——
راہِ اقلیمِ عدم میں رکھ قدم آہستہ تر
کر تب و تابِ دلِ پُرخوں کو کم آہستہ تر
موجِ گرداب و کفِ دریا نہیں صحرا میں کیا
بھر طرارے اے غزالِ تازہ رَم آہستہ تر
ذوقِ نغمہ آنچ کھاتا ہے نوائے تیز سے
چاہیے موجِ نفس کا زیر و بم آہستہ تر
——
تو میرے خندۂ مسرور و مطمئن پہ نہ جا
اک آرزو مرے پہلو میں سوگوار بھی ہے
——
رنجِ گراں کے بوجھ سے تارے بھی تھک گئے
اس ظلمتِ فراق کی شاید سحر نہیں
——
عرضِ تمنا نہیں ، ایک نظر سے فزوں
حرفِ تمنا مگر سلسلۂ بے کراں
——
دامن کو چاک کر کے ، دل کو فگار کر کے
کیا اعتبار کھویا، کیا اشتہار پایا
——
پرندے آشیانوں کو، مویشی مرغزاروں کو
مگر تیری طرف اُڑ کر دلِ مستانہ جاتا ہے
——
مجھ سے کیا لیتے ہو اِس کی ہرزہ گردی کا حساب
چھوڑ کر مجھ کو اکیلے ہی نکل جاتا ہے دل
——
ہے زمانے سے الگ اِس کا نظامِ اقدار
سِرِّ سربستۂ تقدیر ہے اصلیّتِ دل
——
کسی کسی کے نوشتے میں ہو رقم خالدؔ
کشادِ غنچۂ آوازِ محرمانۂ دل
——
رہے آباد خراباتِ محبت یارب
ہمیں نوشابِ لبِ لعل مِلے یا نہ مِلے
——
سراپا اس کا کس صورت بیاں ہو
کبھی مرمر کو دیکھا سانس لیتے ؟
——
ریزگاری نکال لی کس نے
کیسۂ عمر کس نے کاٹ لیا؟
——
ہم نے چاہا تھا بدل ڈالیں جہاں کی ترتیب
وہی ترتیب بہ عنوانِ دِگر ہے کہ جو تھی
——
اسرار مرے سینے کے اظہار کو ترسیں
بوے جگرِ سوختہ آتی ہے کہاں سے ؟
——
جرعۂ مے کیوں گراتے ہو ہماری خاک پر
ہم کو نا کردہ گنا ہوں پر پشیمانی نہیں
——
اُجڑ یں گے مسکن ان کے چروا ہوں کے خیموں کی طرح
جن تن پرستوں نے متاعِ اہلِ دل برباد کی
——
محبت اضطراری ہے ، ہوس بے اختیاری ہے
کِراماً کاتبیں کا پھر یہ پہرہ اے خدا کیا ہے ؟
——
کُھلے گا شمعِ کُشتہ کا دھواں کب؟
پھٹا جاتا ہے دل، دم گُھٹ رہا ہے
——
ہم اہلِ درد ہیں ، ٹوکو نہ ہم کو محتسبو!
بھلا ہمیں ہی نہ تمئیزِ خیر و شر ہو گی
——
میں فقط ایک خواب تھا تیرا
خواب کو کون یاد رکھتا ہے
——
یہی باعث ہے ساری الجھنوں کا
نہیں ہستی جہاں کی، اور ہے بھی
——
کیوں حرفِ سپاس آئے کسی نوکِ زباں پر؟
حاصل کبھی حسرت سے زیادہ نہیں ہوتا
——
قربتِ حُسن میں کم حوصلہ اربابِ ہوس
اپنے ہی سانس کی گرمی سے پگھل جاتے ہیں
——
عورتیں نازک ہیں شیشوں کی طرح
اکتفا نظّارہ چینی پر کرو
——
صبا کے رس میں تجھے گھونٹ گھونٹ پیتا ہوں
گلِ بہار کی خوشبو میں سونگھتا ہوں تجھے
——
کبھی سراب سے صحرا کی پیاس بجھتی ہے
ندی کنارے پہنچ کر بھی ہونٹ تر نہ کیے
——
سحر کی پلکوں سے ڈھلتا ہے رات کا کاجل
ستارے ڈوبتے جاتے ہیں ایک اک کر کے
——
نمودِ صبحِ تازہ ہو رہی ہے
پرندے اُڑ چلے ہیں آشیاں سے
——
اس امتزاج کو ممکن ہے تم سمجھ نہ سکو
تمھیں تلاشِ طرب ہے ، مجھے تلاشِ کمال
——
شعر و سرود ہے یا جادو کا کارخانہ
بادل سے آگ نکلے ، پتھر سے نکلے پانی
اے موج موج دریا، اے سیل سیل باراں
دل بوند ہے لہو کی پر محشرِ معانی
——
موجِ غبار کی طرح رنگِ وفا بکھر گیا
نقشِ امید مٹ گیا تارِ سراب کی طرح
——
کیا تکمیلِ نقشِ ناتمامِ شوق کی خاطر
جو تم سے ہو سکا تم نے ، جو ہم سے ہو سکا ہم نے
——
سانس لینا بھی ہے دُشوار، گھٹن اتنی ہے
تا دمِ بازپسیں کیا یونہی جینا ہے مجھے
——
دل اختیار سے باہر، نگاہ بے قابو
نہیں ہے کھیل چھپانا کشاکشِ دل کا
——
صدا لگاتے ہیں اہلِ فسانہ و افسوں
نئے چراغ پرانوں سے کون بدلے گا
——
گھنیرے کُنج دھڑ کتے دلوں کے راز سنیں
سکوتِ شب میں ہے آوازِ پا لبِ گویا
——
اُسے سوچا کتاب کی مانند
پیار میں احترام شامل تھا
یہ اتہام لگایا گیا براہِ حسد
وگرنہ خالدِ خوددار میں غرور کہاں
——
زنجیر کی جھنکار ہے ، آوازِ جرس ہے
زنداں کے در و بام سے اُٹھتا ہے دھواں سا
——
مہتاب وَش نکھرتی ہیں افسردہ شوخیاں
اس چہرۂ صبیح پہ عکسِ ملال سے
——
بدن سے رُوح نکلتی ہے اس طرح جیسے
پرندہ شاخِ شجر سے اچانک اُڑ جائے
——
خالدِ زمزمہ سرا چُپ ہے
اور اندوہگیں ہے محفل بھی
(مطبوعہ: ماہنامہ بیاض، لاہور)
——
حاط حاط
زبور میں نام ِ دلنواز حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہے”حاط حاط
معہ ستارہ ہیں جس طرح آسماں کے لئے
ہجوم لالہ وگل صحن گلستان کے لئے
دل ِ گداختہ جیسے غم نہاں کے لئے
"بنے ہیں مدحت سلطان دو جہاں کے لئے
سخن زبان کے لئے اور زبان وہاں کے لئے”
وہ جس کی پاکی سیرت کی چار دانگ میں دُھوم
وہ جس کی ذات ہے سرچشمہ فنون وعلوم
وہ جس سے لیتے ہیں خیرات روشنی کی نجوم
"وہ چاند جس سے ہوئی ظلمت جہاں معدوم
رہا نہ تفرقہ ء روز وشب زماں کے لئے”
ہے اس کا شیوہ عفاف وعدالت وانصاف
پیام اس کا ہے انس واخوت وایلاف
ہے اس کی شان کریمی کا ہر کوئی وصاف
"وہ لحظہ لحظہ تفقد، وہ دم بدم الطاف
رضائے خاطر یاران جانفشان کے لئے”
وہ بے نیازی کا برتاؤ اہل جاہ کے ساتھ
برابری کا سلوک اہل اشک وہ آہ کے ساتھ
وہ کرنا سلب گناہوں کا اک دعاء کے ساتھ
"صفائے قلب حسودان کینہ خواہ کے ساتھ
دعائے خیر بد اندیش وبدگماں کے لئے”
ہر اک پر فرض ہے پاس حقوق ھمسایہ
ہوا زمانے میں صالح معاشرہ پیدا
شریک حال ہے جس کا خدائے نادیدہ
"مدینہ مرجع وماوائے اہل مکہ ہوا
مکیں سے رتبہ یہ حاصل ہوا مکان کے لئے”
زبان پر لائے نہ جو غیر زکر،حرف دگر
ہمیشہ نام ہے اللہ کا جس کے ہونٹوں پر
عیاں حقائق اشیا ہیں جس پہ سر تاسر
” بس اب نہ ہول کاکھٹکا،نہ راہزن کاخطر
ہوا وہ قافلہ سالار کا ر واں کے لئے”
ہر ایک طرز عمل اس کا زندگی آموز
ہے اس کی دید بہر زاویہ نظر افروز
ہے اس کا ہر کلمہ جامع وخرد اندوز
"شفاعت نبوی ہے وہ برق عصیاں سوز
کہ حکم حق ہے جہاں کفر دو جہاں کے لئے”
اسی کی ذات کتاب معارف واسرار
اسی کا نام ہے جس پر نثار عزووقار
اسی کا کام ہے حاصل جسے ثبات واقرار
"اسی کادیں ہے کہ ہے گلشن ہمیشہ بہار
وگرنہ ہر گل وگلزار ہے خزاں کےلئے”
نہیں ہے اس سا کوئی سرور وکرم گستر
ہر ایک امت گم کردہ راہ کارہبر
کیافراخی ہفت آسماں میں اس نے سفر
"عبور لجہ عصیاں سے کس طرح ہواگر
وہ ناخدا نہ ہو اس بحر بیکراں کے لئے”
ہے نخل بندی الفاظ کا ثمر حسرت
نصیب اہل بیاں ہے خجالت وخفت
کہ ہے بضاعت مزجات علم کی دولت
"نہ حرف وصوت میں وسعت نہ کام ولب میں سکت
حقیقت شب معراج کے بیاں کے لئے”
کرے نہ عاشق رمز آشنا کبھی فریاد
بقدر حوصلہ واجب ہے مال وجاں کاجہاد
یہی ہے رہرو ملک وفا کا توشہ وزاد
اسی سے ہوتا ہے ظاہرعیاراستعداد
محک ہے حُب نبی دل ک امتحاں کے لئے
لحمد میں پیش نظر اس کا رُوئے انور ہو
اُسی کے نورسے تربت مری منور ہو
رہِ عدم میں اسی کا خیال رہبر ہو
"اگر بقیع میں گز بھر زمیں میسر ہو
کروں نہ طول امل روضہ جناں کے لئے
اصول عدل وجہانبانی وتدبر میں
شعور وحکمت وآگاہی وتفکر میں
وہ لا مثال ہے جانبازی وتہور میں
"سمایا اس کا جو نقش قدم تصور میں
ہجوم عشق میں بوسے کہاں کہاں کےلئے
ہے گو سخن پہ ابھی عالم جواں سالی
یہی ہے میرا بھی خالد بیان اقبالی
نہ کام آئے یہاں ندرت ہنر خالی
"حریف نعت پیمبر نہیں سخن حالی
کہاں سے لایئے اعجاز اس بیاں کےلئے”
لہو کی موج رگوں میں رواں رہے جب تک
چمن میں مرغ چمن نغمہ خواں رہ جب تک
بساطِ خاک نہ آسماں رہے جب تک
"نبی کا نام ہو وردِ زباں رہے جب کہ
سخن زباں کے لئے اور زباں وہاں کےلئے”
——
غلامِ محمد کا رتبہ بڑا ہے
ہر اورنگ زیب اس کے در کا گدا ہے
یہ گرد و غبارِ گزر گاہِ بطحا
یہ کُحلِ جواہر ہے خاکِ شفا ہے
یہاں کا ہر اک ذرہ ہے سنگِ پارس
مہوس! یہ مٹی نہیں کیمیا ہے
ہیں جارُوب کش اس جگہ کے فرشتے
یہ آرامگاہِ شرِ انبیا ہے
وہ تعبیر خوابِ خداوند بیچوں
وہ نقشِ ہیولائے ارض و سما ہے
جو پچھلے پہر کالی کملی میں لپٹا
تہِ چرخِ دوّار محوِ دُعا ہے
محبت ہے گو اس کی شبو و زن سے
مگر ٹھنڈک آنکھوں کی ذکرِ خدا ہے
بشر کو ملا ہے، رسالت کا رتبہ
وہ ہم میں سے ہے، ہم سے لیکن جدا ہے
یہ اَسماؔ ہے ذات النِّطاقین دیکھو
یہ سارا گھرانہ ہی اس پر فدا ہے
بجاتے ہیں دَف زہرہ چشمانِ یثربؔ
مدینےؔ میں ماہِ تمام آگیا ہے
مکیں یاد آئے مجھے ذی سلم کے
جگر کا لہو آنسوؤں میں ملا ہے
ہر اک شے ہے آساں مگر ذکرِ خوباں
بیانِ جفا ہے حدیثِ وفا ہے
کہاں ہو سکی عشق کی پردہ داری
برستا ہے پانی دھواں اُٹھ رہا ہے
بسی ہے فضاؤں میں خوشبوئے رفتہ
کفِ دستِ صحرا پہ رنگِ حنا ہے
سُراقہؔ کے ہاتھوں میں کُسریٰؔ کے کنگن
عمرؓ پیش گوئی پہ سر دُھن رہا ہے
فراشِ محمد پہ مشرک نہ بیٹھے
یہ اُمِ حبیبہ نے کس سے کہا ہے؟
کسے وصلہ اس کی نعت و ثنا کا
امامِ رسل ہے امینِ خدا ہے
صدا نَحْنُ اَقْرَبْ کی آتی ہے پیہم
یہ ڈھرکن ہے دل کی کہ بانگِ درا ہے
صبا گُد گُداتی ہے جب تک گُلوں کو
لبِ سارباں پر نشید و حُدا ہے
تری رحمت اس کی کرے دستگیری
دلِ خالدؔ آماجِ رنج و بلاء ہے
پریشان و مخزون و خاموش و حیراں
صنم آشنا، رہنِ خوف و رجا ہے
رہے ذکر سے عمر معمور اس کی
کہ خواب و خورش اس کا حرف و نوا ہے
عوض سے معرّا غرض سے مبرّا
سخن ور ہے لوح و قلم مانگتا ہے
یکے جرعہ دریا! یکے قطرہ باراں!
ہے لبہ تشنہ، جویائے آبِ بقا ہے!
——
فردِ واحد کی اس آشوب میں قیمت کیا ہے
نفسِ گل کی بیاباں میں حقیقت کیا ہے
——
نخچیر ہوں میں کشمکش فکر و نظر کا
حق مجھ سے ادا ہو نہ در و بست ہنر کا
مغرب مجھے کھینچے ہے تو روکے مجھے مشرق
دھوبی کا وہ کتا ہوں کہ جو گھاٹ نہ گھر کا
دبتا ہوں کسی سے نہ دباتا ہوں کسی کو
قائل ہوں مساوات بنی نوع بشر کا
ہر چیز کی ہوتی ہے کوئی آخری حد بھی
کیا کوئی بگاڑے گا کسی خاک بسر کا
دلگیر تو بے شک ہوں پہ نومید نہیں ہوں
روشن ہے دل شب میں دیا نور سحر کا
پوشیدہ نہیں مجھ سے کوئی جزر و مد شوق
محرم ہوں صدا دلبر انگیختہ بر کا
زنداں و سلاسل سے صداقت نہیں دبتی
ہے شان کئی سلسلہ بس رقص شرر کا
تصویر کوئی بنتی دکھائی نہیں دیتی
کیا صرفہ عبث ہم نے کیا خون جگر کا
کیا شغل شجر کار ہے افکار سے بہتر
سودا سر شوریدہ میں گر ہو نہ ثمر کا
کیوں سر خوش رفتار نہ ہو ہو قافلۂ موج
رہزن کا ہے اندیشہ نہ غم زاد سفر کا
ڈالی ہے ستاروں پہ کمند اہل زمیں نے
زہرہ کا وہ افسوں نہ فسانہ وہ قمر کا
ہر بات ہے خالدؔ کی زمانے سے نرالی
باشندہ ہے شاید کسی دنیائے دگر کا
——
پھولی ہے شفق گو کہ ابھی شام نہیں ہے
ہے دل میں وہ غم جس کا کوئی نام نہیں ہے
کس کو نہیں کوتاہیٔ قسمت کی شکایت
کس کو گلہ گردش ایام نہیں ہے
افلاک کے سائے تلے ایسا بھی ہے کوئی
جو صید زبوں مایۂ آلام نہیں ہے
چھلکوں کے ہیں انبار مگر مغز ندارد
دنیا میں مسلماں تو ہیں اسلام نہیں ہے
ایماں نہیں مومن کا مکافات عمل پر
امید کرم کیا طمع خام نہیں ہے
مسجد ہو خرابات ہو یا کوئے بتاں ہو
اس قلب تپاں کو کہیں آرام نہیں ہے
اے ماہ وشو لالہ رخو وصل کی ہم کو
خواہش تو ہے بے شک مگر ابرام نہیں ہے
کیفی ہیں مئے ناب خم مہر شدہ کے
ہم کو طلب درد تہ جام نہیں ہے
لفظوں کے در و بست پہ ہر چند ہو قادر
شاعر نہیں جو صاحب الہام نہیں ہے
ہر بات ہے خالدؔ میں پسندیدہ و مطبوع
اک پیرویٔ رسم و رہ عام نہیں ہے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ