اردوئے معلیٰ

Search

آج پاکستان کے معروف سیاستدان ، عالم دین، جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما، مجاہد تحریک آزادی پاکستان اور مجاہد ختم نبوت مولانا عبدالستار خان نیازی کا یوم پیدائش ہے۔

مولانا عبدالستار خان نیازی(پیدائش: 1 اکتوبر 1915ء – وفات: 2 مئی 2001ء)
——
مولانا عبدالستار خان نیازی یکم اکتوبر بروز جمعتہ المبارک 1915ء بمطابق 27 رمضان المبارک کی رات اٹک پنیالہ تحصیل عیسی خیل ضلع میانوالی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد ذوالفقار علی خان زمیندار تھے۔ آپ کا تعلق عیسی خیل کے مشہور پٹھان قبیلے نیازی سے تھا۔
——
ابتدائی حالات
——
مولانا عبدالستار خان نیازی ابھی تین چار سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ ابھی تیسری جماعت میں تھے کہ والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔ آپ کی پرورش آپ کے نانا جان صوفی محمد خان اور آپ کے چچا جان ابراہیم خان نے کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کنڈل کے پرائمری اسکول میں حاصل کی پھر میٹرک کا امتحان عیسی خیل ہائی اسکول سے اچھے نمبروں میں پاس کیا۔ آپ نے میڑک کا امتحان 1933ء میں پاس کیا۔ آپ پرائمری سے میٹرک تک وظیفہ حاصل کرتے رہے۔
——
اعلیٰ تعلیم
——
میٹرک کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی جاری کردہ مشہور درسگاہ اشاعت اسلام کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔یہاں سے آپ نے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ پھر منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج میں بی اے اور 1940ء میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ قرآن پاک، حدیث پاک، فقہ، سیرت، تقابل ادیان، اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی تحریکات کے موضوع پر مبنی دو سالہ کورس مکمل کرنے پر ترجمان حقیقت علامہ محمد اقبال سے سند حاصل کی۔ اسی کالج کے توسط سے 1934ء میں علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی اور گاہے بہ گاہے حضرت علامہ اقبال کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہا. اس طرح آپ کی شخصیت پر مفکر اسلام کی علمی و فکری صحبتوں کے گہرے نقوش ثبت ہوئے۔ آپ علامہ محمد اقبال سے بہت متاثر تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : کوثر نیازی کا یومِ پیدائش
——
عالم اسلام کے اس عظیم مفکر نے مولانا عبدالستار خان نیازی کی زندگی کو انقلاب آشنا کیا اور آپ نے اقبال کے تصور شاہین کی عملی تصویر بن کر ایک مثالی مسلمان طالب علم کا کردار خوب نبھایا۔ جب ہم مولانا نیازی کے دور طالب علمی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو آپ ایک منفرد مقام کے حامل غیر معمولی حساس طالب علم دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی عمر سے زیادہ پختہ فکر اور جوش شباب کی بجائے جوش ایمانی سے بھرپور تھے.
——
معاشرتی اصلاح
——
مولانا عبدالستار خان نیازی کو دور غلامی کے اخلاقی دیوالیہ پن کا شدید احساس تھا اور اس احساس زیاں نے آپ کے دل میں کچھ کر گزرنے کی تڑپ پیدا کی۔ 1934ء میں میانوالی واپس آئے تو اپنے ضلع میں ایک اصلاحی تنظیم انجمن اصلاح قوم کی بنیاد ڈالی۔ ضلع بھر میں اس انجمن نے معاشرتی و اقتصادی اصلاح اور دینی تعلم و تربیت کے اہتمام میں زبردست تعمیری کردار ادا کیا۔ مسلمانوں کو تجارت پر مائل کیا اور دوکانیں کھولنے پر آمادہ کیا جبکہ اس زمانے میں تمام تر کاروبار ہنود کے ہاتھ میں تھا حتی کہ دودھ دہی کی دوکانیں انہی کی تھیں۔ مسلم خواتین کو کھلے منہ بازاروں میں آنے جانے سے روک دیا گیا۔ ان کی تعلیم و تربیت کے لیے درس قرآن و حدیث کے مراکز کھولے گئے۔ جن مجبور و بے سہارا خواتین کے پاس سودا سلف خریدنے کے لیے کوئی نہ ہوتا تھا ان کی مدد کے لیے رضا کار متعین کر دیے گئے۔ یوں ہندوؤں کے استحصال اور بد معاشی سے معاشرہ کو محفوظ کرنے کے سامان کیے گئے۔ جامع مسجد صدر بازار عیسی خیل میں ایک دار العلوم قائم کیا گیا۔ تبلیغی دوروں کے لیے مبلغین تیار کیے گئے اور مقدمہ بازی سے نجات دلانے نیز تھانہ کچیری کے اہل کاروں کی عیارانہ دست برد سے عوام کو بچانے کے لیے متبادل نظام عدل کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں حضرت غلام زین الدین چشتی نظامی آف ترگ شریف کو مفتی اعظم مقرر کیا گیا اور مسلمانوں کے تنازعات کو سرکاری عدالتوں سے باہر تصفیہ ہونے لگا۔ خود مولانا نیازی نے کئی الجھے ہوئے تنازعوں کا تصفیہ کرایا۔ مولانا نیازی نے کونسل کے مشورے سے انجمن اصلاح قوم کا نام بدل کر مجلس اصلاح المسلمین رکھ دیا۔
——
مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام
——
1936ء کے آخر میں مولانا عبدالستار خان نیازی تکمیل حصول تعلیم کے لیے لاہور آئے۔ انہی دنوں آپ کے ذہین رسا میں مسلم طلبہ کی ایک جداگانہ نمائندہ تنظیم کا خیال پیدا ہوا۔ آپ کے ساتھیوں میں سے بعض نے اختلاف رائے کیا تو مولانا نیازی نے تجویز پیش کی کہ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال سے اس بارے میں مشورہ کر لیتے ہیں۔ چنانچہ علامہ اقبال کے حضور جب مولانا نیازی نے اپنا موقف پیش کیا تو علامہ نے نہ صرف آپ کی تائید و حمایت فرمائی بلکہ زور دیا کہ اپنے ان ارادوں کو جلد عملی جامہ پہناؤ۔ یوں علامہ اقبال کی سرپرستی اور نگرانی میں جنوری 1937ء میں مسلم طلبہ کی ایک الگ نمائندہ تنظیم پنخاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے وجود میں آئی۔ اس طلبہ تنظیم کے بانیوں میں مولانا نیازی کے ساتھ ساتھ جناب حمید نظامی، جسٹس انوار الحق، میاں محمد شفیع، مولانا ابراہیم علی چشتی اور عبد السلام خورشید شامل تھے۔ مولانا نیازی نے 1939ء میں اس تنظیم کا دستور مرتب فرمایا اور یہ آیت کریمہ اس دستور کا زیب عنوان تھی
”کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ
(آل عمران آیت نمبر ایک سو دس)
“ترجمہ”تم سب امتوں میں سے افضل ہو جو لوگوں میں ظاہر ہو چکی ہیں کیونکہ تم نیکی کی تعلیم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہوئے اور اللہ پر یقین رکھتے ہو۔ “
اس فیڈریشن کے پہلے صدر میاں محمد شفیع دوسرے حمید نظامی اور تیسرے صدر مولانا عبدالستار خان نیازی منتخب ہوئے۔ مارچ 1941ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں لاہور میں پاکستان کانفرنس منعقد کی گئی جس میں دیہی علاقوں میں تحریک پاکستان کو منظم طور پر چلانے کے لیے پاکستان رورل پروپیگنڈا کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے مولانا نیازی سیکرٹری منتخب ہوئے۔
——
تحریک پاکستان میں کردار
——
مولانا عبدالستار خان نیازی اسلامیہ کالج لاہور سے 1938ء میں گریجویشن کر کے آپ میانوالی واپس تشریف لائے۔ اس وقت جواہر لعل نہرو نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے یہ نعرہ بلند کیا کہ ہندوستان میں صرف دو قومیں موجود ہیں ایک انگریز حکومت اور ایک کانگریس، ہندوستانیوں کو چاہیے کہ کانگریس میں شامل ہو کر حکومت سے مطالبات منوائیں اور مل کر حصول آزادی کی جدوجہد کریں۔ اس پر قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ نہرو کا بیان تعصب اور بدنیتی پر مبنی ہے ہندوستان میں تین قومیں موجود ہیں۔ ایک حکومت انگلشہ، دوسری کانگریس اور تیسری اسلامیان ہند کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ اس لیے حق خودارادیت کے حصول کے لیے مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہو کر آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس وقت تک ضلع میانوالی میں مسلمانوں کا رابطہ ملکی سطح پر کسی جماعت کے ساتھ نہ تھا۔ اس لیے انجمن اصلاح المسلمین کی جنرل کونسل کا اجلاس زیر صدارت مولانا گل شیر مسجد زرگراں میانوالی میں منعقد ہوا اس اجلاس میں مولانا نیازی نے نے رسالہ Time and tide اور روزنامہ اخبارات کے حوالے سے قائد اعظم کے محوالہ بالا بیان کا متن پیش کیا اور اس بیان کی روشنی میں کونسل سے مطالبہ کیا کہ انجمن اصلاح المسلمین میانوالی کو مسلم لیگ کے دستور و منشور کا پابند کیا جائے چنانچہ کونسل نے اس تجویز کو قبول کیا۔ ضلع میانوالی میں مسلم لیگ کی تنظیم کے لیے مولانا گل شیر کو سرپرست مولانا نیازی کو صدر اور محمد خاں خنکی خیل کو سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا گیا اور اس طرح ضلع میانوالی میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور قائد اعظم کی قیادت میں میانوالی کی عوام تحریک آزادی کی جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ اسی سال مولانا نیازی نے لاہور میں ایم اے میں داخلہ لیا اور طلبہ کی وہ تنظیم جو آپ کی تجویز اور علامہ اقبال کی تائید سے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے قائم ہوئی تھی آپ اس کے پنجاب کے صدر منتخب ہوئے۔ اس سال آپ نے اپنی مشہور خلافت اسکیم پاکستان پیش کی۔ اس وقت تک قرارداد پاکستان کے ذریعے مسلم لیگ نے حصول پاکستان کا مطالبہ نہیں کیا تھا مگر مفکر اسلام علامہ محمد اقبال کے عظیم شاگرد مولانا نیازی نے اپنے استاد محترم کے 1930ء کے الہ آباد والے خطبہ صدارت کے پیغام کو عملی شکل دینے میں مصروف تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ظفر نیازی کا یوم وفات
——
مولانا عبدالستار خان نیازی کی پیش کردہ خلافت پاکستان اسکیم میں پاکستان کا نقشہ پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان اور آزاد کشمیر سے شروع ہو کر دہلی، آگرہ، لکھنو، گنگا جمنا طاس سے ہوتا ہوا ایک خط اتصال کی صورت میں بنگال اور آسام سے مل کر مکمل ہوتا تھا اور یوں اس اسکیم سے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے دو الگ الگ ٹکڑے کرنے کی بجائے ایک عظیم الشان اسلامی مملکت پاکستان کی تکمیل ہوتی تھی اور اس جغرافیائی تجویز پر ہی بس نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس نوزائیدہ مملکت میں خلافت راشدہ کا روشن و تابناک نظام سلطنت (نظام مصطفٰی ) قائم کرنے کا عزم صمیم بھی شامل تھا۔ یہ عظیم الشان سکیم مولانا نیازی نے 1939ء میں مسلم لیگ کی ہائی کمان کو پیش کی اس اسکیم کو ایک پمفلٹ کی صورت میں مرکزی دفتر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اخبار روڈ لاہور سے شائع کیا گیا۔ اس کے علاوہ 1939ء ہی میں آپ نے اپنے ایک دیرینہ ساتھی میاں محمد شفیع کے ساتھ مل کر پاکستان کیا ہے؟ اور کیسے بنے گا؟ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ مولانا نیازی کی تجویز کردہ خلافت پاکستان اسکیم کو مسلم لیگ کی آل انڈیا متفقہ کمیٹی نے قرارداد پاکستان مرتب کرتے وقت مدنظر رکھا۔ حضرت قائد اعظم نے اس اسکیم کے بارے میں مولانا نیازی سے فرمایا:
”Mr.Niazy your scheme is very hot“
مسٹر نیازی تمہاری اسکیم بہت آتشیں ہے۔ مولانا نیازی نے جواب دیا
”Because it has out from my boiling heart“
کیونکہ یہ میرے ابلتے ہوئے دل سے نکلی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ خلافت پاکستان اسکیم اس قرارداد پاکستان کا ابتدائی خاکہ تھی جو 23 مارچ 1940ء کو اقبال پارک لاہور میں منظور ہوئی اور اسلامیان ہند کا نصب العین ٹھہری۔ مولانا عبدالستار خان نیازی نے اپنے رفقا کے ساتھ مل کر حبیبہ ہال اسلامیہ کالج لاہور میں خلافت پاکستان کانفرنس منعقد کی اور اس میں اپنی خلافت پاکستان سکیم کی وضاحت کی اور اپنا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا۔ اسی سال مولانا نیازی نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کاامتحان امتیازی حثیت میں پاس کیا۔ مارچ 1941ء میں آپ نے آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سکیرٹری منتخب ہوئے۔ اسی سال مشہور تاریخی پاکستان کانفرنس اسلامیہ کالج گراؤنڈ میں حضرت قائد اعظم کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں مرکزی قرارداد مولانا نیازی نے پیش کی۔ جب مجاہد ملت کی ولولہ انگیز آواز پاکستان کانفرنس کے پنڈال میں گونج رہی تھی تو لاکھوں فرزندان توحید کا اجتماع آپ کی آواز پر ہاتھ لہرا لہرا کر آپ کی تائید کر رہا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح پوری طرح مجاہد ملت کے خطاب کی طرف متوجہ تھے۔ تقریر کے بعد انہوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک مسلم لیگی راہنما سے فرمایا:
”After this speack I am contident that if these youngmen are with me ، we will achive Pakistan Inshaullah!“
اس تقریر کو سن کر میں پر یقین ہو کہ اگر یہ نوجوان میرے ساتھ ہیں تو ہم پاکستان حاصل کر کے رہیں گے ان شاء اللہ! اس کانفرنس میں دیہی علاقوں میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سربراہی مولانا نیازی کو سونپی گئی۔ یہیں سے مولانا نیازی کا براہ راست قائد اعظم کے ساتھ ربط و تعلق قائم ہوا اور خط کتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مولانا نیازی نے اس کمیٹی جس کا نام پاکستان رورل پراپیگنڈہ کمیٹی تھا میں زبردست کام کیا۔ دن رات ایک کر کے ملک بھر میں طوفانی دورے کیے اور دیہاتوں میں پاکستان کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کیا۔ اس دوران میں آپ کے بے پناہ جذبہ اخلاص اور سخت جدوجہد سے قائد اعظم بہت متاثر ہوئے جس کا اظہار انہوں نے مولانا نیازی کے نام اپنے خط وکتابت میں بار بار کیا۔ قائد اعظم سے ملاقاتوں اور خط کتابت کے سلسلہ میں مولانا نیازی کی تعمیری شخصیت و کردار میں رہی سہی کسر پوری کر دی۔ یوں مفکر ملت علامہ محمد اقبال کے تراشے ہوئے اس گوہر نایاب کی قدر بانی پاکستان نے فرمائی اور اس کی آب وتاب کو اور بڑھا دیا اپنے بے پناہ اعتماد سے نوازا۔ 1941ء میں کے ایل گابا کی سیٹ خالی ہونے پر مولانا نیازی نے قائد اعظم کی ایماء پر ایم ایل اے کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر مولانا نیازی کو طرح طرح کے لالچ دیے گئے، ڈرا دھمکا کر جھکانے کی کوشش کی گئیں مگر مولانا مرد میدان بن کر ڈٹے رہے۔ آپ نے فرمایا کہ سر سکندر حیات قائد اعظم سے معافی مانگے اور قائد مجھے حکم دیں تو میں اس سیٹ سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ بالآخر سر سکندر حیات کو ہی جھکنا پڑا۔ 1942ء میں مولانا نیازی اسلامیہ کالج لاہور میں شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر مقرر ہوئے۔ اسی سال آپ نے علامہ اقبال کے افکار کو عام کرنے کے لیے علامہ اقبال ڈے کمیٹی کے سیکرٹری کے فرائض سنبھالے۔ 1943ء میں صوبائی مسلم لیگ پنجاب کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اسی سال انجمن نعمانیہ ہند کے ڈپٹی سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اس طرح مولانا نیازی ایک طرف تو اسلامیہ کالج لاہور میں شعبہ اسلامیہ کے صدر کی حیثیت میں تشنگان علم کی پیاس بجھا رہے تھے اور دوسری طرف پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری بن کر تحریک پاکستان کی بنیادیں استوار کر رہے تھے۔ آپ ایک طرف نوجوان ملت کو شاہین شہ لولاک بنانے کے لیے ان کی خودی کی تربیت و استحکام کا فریضہ انجام دے رہے تھے تو دوسری طرف منجدھار میں پھنسی ہوئی کشتی ملت کو کنارے لگانے کی کوشش میں قائد اعظم کا ہاٹھ بٹا رہے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ظفر نیازی کا یوم پیدائش
——
1944ء کا واقعہ ہے کہ حضرت قائد اعظم لاہور تشریف لائے۔ رات کو ایک جلسہ عام میں جو ان کی صدارت میں انعقاد پزیر تھا۔ مولانا نیازی نے خطاب کرتے ہوئے اپنے مخصوص بےباکانہ انداز میں حکومت پر کڑی تنقید کی اور پاکستان کی پر زور تائید و وکالت کی۔ جلسہ کے بعد قائد سے ملاقات ہوئی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:
”You are still very hot “
تم ابھی تک بہت گرم ہو مولانا نیازی نے کہا کہ حضرت ماحول کو بھی تو پگھلانا ہے قائد نے مسکرا کر فرمایا
”Good! go ahead cortireously“
بہت اچھے! مسلسل آگے بڑھتے چلو 1944ء ہی میں پنجاب مسلم لیگ کی صوبائی کونسل نے مولانا نیازی کی پیش کردہ یہ قرارداد منظور کر لی کہ پاکستان کا آئین شریعت اسلامیہ پر مبنی ہوگا۔ 1945ء میں جب قائد اعظم نے مسلمان طلبہ کو آواز دی تو مجاہد ملت مولانا نیازی تحریک پاکستان کے فیصلہ کن معرکہ میں طلبہ کو بطور ہر اول دستہ شریک کرنے کے لیے تیار کرنے لگے۔ انہوں نے طلبہ کو قائد اعظم کے پیغام کی اہمیت سمجھائی اور وقت کی نزاکت کا احساس دلاتے ہوئے تحریک پاکستان میں ہمہ تن مصروف ہو جانے کی دعوت دی۔ پھر کیا تھا شاگردان نیازی نے اپنے استاد مکرم اور اسلام کے اس نامور مجاہد کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس مشن کو سنبھالا اور ملک کے گوشے گوشے میں قائد کا پیغام مسلمان ہند تک پہنچایا۔ طلبہ نے دن رات دیوانہ وار کام کر کے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ 1946ء میں جب قائد اعظم نے راست اقدام کا اعلان فرمایا تو مجاہد ملت نے کالج کی ملازمت خیرباد کہہ کر اپنے آپ کو تحریک پاکستان کے لیے وقف کر دیا۔ اس زمانے میں جہاں جاگیردار اور وڈیرے اپنے مفادات کی خاطر مسلم لیگ میں شامل ہو رہے تھے وہاں کمیونسٹ حضرات بھی ایک خاص مقصد کے تحت مسلم لیگ میں در آئے۔ مولانا نیازی نے اپنے رفقا کے تعاون سے ان سازشی کمیونسٹ عناصر کو مسلم لیگ سے نکالنے کے لیے قرارداد پیش کی جس کے منظور ہونے پر دنیال لطیفی، شیر محمد بھٹی، ڈاکٹر ذاکر مشہدی جیسے کمیونسٹوں کی مسلم لیگ سے چھٹی ہو گئی۔ جولائی 1946ء میں مولانا نیازی کی جگہ ایک جاگیر دارانہ ذہنیت کے حامل شخص کو مسلم لیگ کا ٹکٹ دیا گیا اس پر مولانا نیازی کے سینکڑوں شاگردوں اور مسلم لیگی کارکنان نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا
”جس نوجوان نے 1941ء میں ضمنی انتخابات میں ایک اصولی جنگ لڑی اور ایثار و قربانی کا فقیدالمثال مظاہرہ کیا، اسے ٹکٹ ضرور ملنا چاہیے۔ “
اس طرح قائد کی مداخلت سے جاگیرداروں کی سازش ناکام ہوئی اور اس مرد قلندر نے 1946ء کا انتخاب مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میانوالی سے لڑا اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ 25 فروری 1947ء کو خضر وزارت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں مولانا نیازی نے ایک زبردست جلوس کی قیادت کرتے ہوئے دفعہ 144 کو توڑا اور 28 فروری کو بحثیت صدر پنجاب مسلم لیگ گرفتار ہوئے۔ 1947ء میں مولانا نیازی نے لاہور کالجز اور پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلبہ کا کنونشن بلایا۔
——
نظام مصطفٰی کے لیے کوششیں
——
قیام پاکستان کے بعد مجاہد ملت ارباب اقتدار کے پاس اپنی کوئی غرض لے کر نہ گئے۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا نیازی نے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے عظیم مشن کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کر دیں۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی مجاہد ملت نے نظام مصطفٰی کے نفاذ کی کوششیں شروع کر دیں اور اپنی خلافت سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ 1947ء میں خلافت پاکستان اخبار نکالا اور اپنی آواز پوری قوم تک موثر انداز میں پہنچائی۔ اسمبلی اسلامی آئین، اسلامی نظام اور دوسرے موضوعات پر بھرپور تقاریر کر کے حق گوئی و بیباکی کا حق ادا کیا۔ آپ نے اسمبلی میں مشہور پردہ بل پیش کیا۔ ہر آمر و جابر کے سامنے ڈٹ جانا مولانا نیازی کا شیوہ حیات ہے۔ آپ حق بات کہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ جب آپ نے دیکھا کہ مسلم لیگ ابن الوقتوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں چلی گئی ہے تو آپ نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور خلافت پاکستان گروپ قائم کر کے حصول نصب العین کی جدوجہد جاری رکھی۔ پیر صاحب مانکی شریف اور دوسرے رفقائے محترم کئی ساتھ مل کر نظام مصطفٰی کے نفاذ کی تحریک کو آگے بڑھایا۔ اسی اثنا میں مسلم لیگ مکمل طور پر افسر شاہی، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی لوںڈی بن گئی تو اس صورت حال میں مولانا نیازی نے پیر صاحب مانکی شریف اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر 1950ء میں آل پاکستان ورکرز کنونشن بلایا اور آل پاکستان عوامی لیگ کی بنیاد ڈالی۔ مولانا اس کے پہلے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ جب سہروردی جو عوامی لیگ کے صدر تھے نے نواب ممدوٹ کی جناح لیگ کے ساتھ ادغام کر لیا تو مجاہد ملت اور سہروردی شہید کی راہیں جدا ہو گئیں۔ لیاقت علی خان وزیر اعظم پاکستان نے مولانا نیازی کو دولاکھ روپے نقد ایک حبیپ اور میانوالی سے بلامقابلہ اسمبلی کی رکنیت پیشکش کی مگر مولانا نیازی نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ اگر سہروردی غلط ہو سکتا ہے تو آپ کہاں درست ہو گئے؟ چنانچہ 1951ء کے الیکشن میں آپ نے خلافت گروپ کی جانب سے اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ 1952ء میں آئین خلافت پاکستان پیش کیا۔ 1953ء میں حضرت مجدد الف ثانی کے عرس پر بھارت گئے اور ہندوازم کی دھجیاں بکھیریں جس کی پاداش میں آپ کے بھارت میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
——
یہ بھی پڑھیں : منیر نیازی کا یومِ وفات
——
تحریک تحفظ ختم نبوت
——
1953ء کی تحریک ختم نبوت’ میں تمام مکاتب فکر کے علما کرام شامل تھے جب 25 فروری کو قائدین گرفتار کر لیے گئے تو مجاہد ملت نے مسجد وزیر خان لاہور کو مرکز بنا کر 3 مارچ 1953ء کو تحریک ختم نبوت کی قیادت سنبھالی اور اپنی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں سے دم توڑتی تحریک میں اس طرح جان ڈال دی کہ ایوان حکومت میں زلزلہ آ گیا۔ لاہور میں روزانہ دو جلسے ہوتے تھے ایک عصر سے پہلے دہلی دروازہ کے باہر اور دوسرا عشا کے بعد مسجد وزیر خان میں۔ مولانا نیازی کی عشق رسول سے لبریز ایمان فروز تقاریر سے تحریک میں اس قدر شدت پیدا ہو گئی کہ حکومت اسے دبانے کے لیے تشدد کی راہ اختیار کی۔ ڈی ایس پی فردوس علی شاہ آپ کو گرفتار کرنے آیا تو رضا کاروں نے اسے دروازے پر روک لیا، تلخی بڑھی تو ایک رضا کار نے اسے چھرا مار کر قتل کر دیا۔ مجاہد ملت گرفتار ہوئے اور آپ پر دو مقدمے قائم ہوئے ایک ڈی ایس پی کو قتل کرنے کا اور دوسرا پاکستان سے بغاوت کا۔ پہلا مقدمہ تو ثابت نہ ہو سکا لیکن دوسرے مقدمے میں آپ کو سزائے موت سنا دی گئی۔ اسپیشل ملٹری کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا
”تمہاری گردن پھانسی کے پھندے میں اس وقت تک لٹکائی جائے گی جب تک تمہاری موت واقع نہ ہو جائے“
مجاہد ملت نے فرمایا
”کیا یہی سزا لائے ہو؟ اگر میرے پاس ایک لاکھ جانیں ہوتیں تو ان سب کو محمد مصطفٰی پر قربان کر دیتا“
ایک لمحے کے لیے موت کے خوف کا حملہ ہوا، معاً یہ آیت کریمہ دل میں آئی
”خلق الموت والحیوة لیبلو کم ایکم احسن عملاً“
(جس نے موت اور زندگی پیدا کی تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل والا ہے)۔
اس سے آپ نے یہ نکتہ اخذ کیا زندگی اور موت کا ملک اللہ تعالی ہے، یہ لوگ میری زندگی نہیں چھین سکتے۔ اس سے آپ کو بڑا حوصلہ ملا۔ اس کے ساتھ ہی یہ شعر آپ کی زبان پر جاری ہو گیا
——
”گشتگان خجر تسلیم را
ہر زبان از غیب جانے دیگراست“
——
آپ یہی شعر زیر لب پڑھتے ہوئے پورے اطمینان کے ساتھ کمرے سے باہر آئے تو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل مہر محمد حیات نے یہ سمجھا کہ ملٹری کورٹ نے آپ کو بری کر دیا ہے کہنے لگے: نیازی صاحب مبارک ہو! آپ بری ہو گئے۔ اس کے وہم گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ سزائے موت کا حکم سن کر کوئی شخص اتنا ہشاش بشاس ہو سکتا ہے۔ مولانا نیازی نے کہا کہ میں اس سے بھی آگے نکل گیا ہوں۔ اس نے کہا کیا مطلب؟ نیازی صاحب نے کہا اب ان شاء اللہ تعالی میرا شمار حضور پاک کے غلاموں اور عاشقوں کی فہرست میں میرا نام بھی شامل ہوگا۔ وہ پھر بھی نہ سمجھا تو مولانا نیازی نے فرمایا : فزت و رب الکعبہ (رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا) مجھے شہادت کی موت نصیب ہو گی۔ 14 مئی 1953ء میں مولانا نیازی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دی گئی بعد میں 29 اپریل 1955ء کو جیل سے رہائی ملی مگر آپ کی حق گوئی اور صداقت شعاری آپ کو بار بار اسیرزنداں کراتی رہی۔ ہر بار آپ ایک نئے جوش اور ولولہ سے اٹھتے اور باطل کے ایوانوں پر زلزلہ طاری ہو جاتا۔ 1958ء میں ایک بار پھر مجاہد ملت کو خریدنے کی کوشش کی گئی۔ پانچ لاکھ روپے کی پیشکش محض اس لیے کی گئی کہ آپ الیکشن میں حصہ نہ لیں مگر اس مرد درویش نے گھر آئی ہوئی دولت دنیا کو پائے استغنا سے ٹھکرا دیا اور ثابت کیا کہ دنیا میں کچھ مردان خدا ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو سیم وزر کے ڈھیروں سے خریدا نہیں جا سکتا۔ جو اپنا سب کچھ وقف رضائے الہی کر چکے ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کی کوئی احتیاج نہیں ہوتی۔ ملک میں 1958ء کا مارشل لا لگا تو مولانا نیازی کی جد و جہد مارشل لائی آمروں کے خلاف جاری رہی۔ 1959ء میں کراچی میں ورلڈ سیرت کانفرنس فیلڈ مارشل ایوب خان کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ مجاہد ملت نے اس میں اپنا پر مغز اور ایمان افروز مقالہ مقام رسول عقل کی روشنی میں پڑھا اور اس کے ساتھ ایوب خان کی آمرانہ حکومت پر کڑی تنقید کی جس سے گھبرا کر ایوب خان عقبی دروازے سے باہر چلے گئے اور حکام کو ہداہت کی کہ یہ دشمن بہت بےباک ہے اس پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اس طرح مولانا نیازی براہ راست ایوبی آمریت کا حذف بن گئے۔ 1962ء میں نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کے بیٹے کے خلاف الیکشن لڑا اور یہیں آپ پر قاتلانہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ متعدد بار باطل کی طاغونی قوتوں نے چاہا کہ نور حق کی اس شمع کو بجھا دیں مگر آپ کی شمع زندگی بجھانا تو ایک طرف اس کی روشنی میں کمی نہ کر سکے۔ ہر طرف سے ناکام ہو کر مجاہد ملت پر جھوٹے الزامات لگائے گئے۔ من گھڑت قصے کہانیوں سے آپ کی شخصیت و کردار کو داغدار کرنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں مگر اس چراغ نور کی آب و تاب میں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ مولانا نیازی کی زندگی اس عہد کی تاریکیوں میں ایک روشن چراغ کی طرح ہے۔ آپ پر قاتلانہ حملوں میں آپ کے کئی جانثار ساتھی آپ پر قربان ہو گئے۔ مرد مجاہد حملوں سے خائف یا حراساں ہونے کی بجائے جادہ عزم و استقامت پر گامزن رہے اور بڑی بڑی طاغونی قوت آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ لا سکی۔ کالا باغ کا دور ختم ہوا تو جنرل موسی نے مولانا نیازی کو آپ کے تمام گذشتہ تمام نقصانات کی تلافی کرنے کی پیشکش کی مگر اس مرد قلندر نے برملا کہا کہ سب سے بڑا ظالم و آمر ایوب خان تو حکومت پر موجود ہے جس نے ایک غنڈے کو گورنر بنا دیا تھا۔ جب محترمہ فاطمہ جناح نے ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد کی تو مولانا نیازی نے ان کا ساتھ دیا۔ موچی دروازہ لاہور کے تاریخ ساز جلسے میں مادر ملت کے بعد مولانا نیازی کا تاریخی خطاب ہوا جس میں آپ نے وہ تاریخی جملہ کہا تھا
”کسی کی لمبی مونچھوں سے تو بغاوت ہو سکتی ہے مگر کملی والے آقا کی مبارک پیاری زلفوں سے بغاوت نہیں ہو سکتی “
مولانا نیازی نے ہمیشہ قوم کے ساتھ وفا کی اور کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا کبھی مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ آپ محترمہ فاطمہ جناح کے ان جلسوں میں جن میں جنرل اعظم شریک ہوتا نہیں جاتے تھے یہ وہی جنرل اعظم ہے جس نے 1953ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں شمع رسالت کے پروانوں کو کچلنے کے لیے ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھائے تھے اور بیسیوں فدایان رسول کو شہید کرایا تھا زین سبب مولانا نیازی نے فرمایا
”قوم کا قاتل اور قوم کا خادم ایک سٹیج پر نہیں بیٹھ سکتے“
حالانکہ اس وقت بڑے بڑے تیس مارخان جنرل اعظم کو سینے سے لگا رہے تھے مگر مولانا نیازی نے قوم کے اس عظیم دشمن کو کبھی معاف نہ کیا اور مصلحت وقت کا شکار ہونے کی بجائے دو ٹوک فیصلہ دیا کہ میں شہدائے تحریک تحفظ ختم نبوت سے غداری نہیں کر سکتا۔
پیپلز پارٹی کے برسر آنے کے ساتھ پاکستان کو ایک عظیم سانحہ کا سامنا کرنا پڑا پاکستان کا مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا اور یہ بازو بنگلہ دیش بن گیا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا پہلا اسیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1972ء میں آپ جمیعت صوبہ پنجاب کے صدر منتخب ہوئے۔ 1973ء میں خانیوال کنونشن میں آپ کو جمیعت علما پاکستان کا مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا اور قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی صدر منتخب ہوئے اور ان دونوں عظیم قائدین کی خوبصوت جوڑی نظام مصطفٰی کے نفاذ کے لیے کام کرنے لگی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی آمریت کے دور سیاہ میں بھی مجاہد ملت کی بانگ تکبیر اسوہ شبیری تازہ کرتی رہی۔ اللہ تعالی کے اس شیر کو قید و بند کی اذیتوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی رہیں۔ 1974ء میں تحریک تحفظ ختم نبوت کا ازسر نو آغاز ہوا۔ مولانا نیازی اس تحریک کے مرکزی نائب صدر منتخب ہوئے اور مولانا نیازی اس عالم پیری میں بھی جوان جذبوں اور بلند ولولوں کے ساتھ تحریک میں جان پیدا کرتے رہے۔ آخر کار حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی اور آئین پاکستان کے رو سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔
——
سیاسی میدان
——
مولانا عبدالستار خان نیازی کو سب سے کم عمر رکن اسمبلی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ پہلی بار 24 سال کی عمر میں ایم پی اے منتخب ہوئے اور کم عمر ہونے کے باعث آپ ایم این اے کی نشست کے لیے کھڑے نہ ہو سکے۔ 1941ء میں کے ایل گابا کی سیٹ خالی ہونے پر مولانا نیازی نے قائد اعظم کی ایماء پر ایم ایل اے کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر مولانا نیازی کو طرح طرح کے لالچ دیے گئے، ڈرا دھمکا کر جھکانے کی کوشش کی گئیں مگر مولانا مرد میدان بن کر ڈٹے رہے۔ آپ نے فرمایا کہ سر سکندر حیات قائد اعظم سے معافی مانگے اور قائد مجھے حکم دیں تو میں اس سیٹ سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ بالآخر سر سکندر حیات کو ہی جھکنا پڑا۔ 1943ء میں صوبائی مسلم لیگ پنجاب کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ جولائی 1946ء میں مولانا نیازی کی جگہ ایک جاگیر دارانہ ذہنیت کے حامل شخص کو مسلم لیگ کا ٹکٹ دیا گیا اس پر مولانا نیازی کے سینکڑوں شاگردوں اور مسلم لیگی کارکنان نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا
——
یہ بھی پڑھیں : منیر نیازی کا یومِ پیدائش
——
”جس نوجوان نے 1941ء میں ضمنی انتخابات میں ایک اصولی جنگ لڑی اور ایثار و قربانی کا فقیدالمثال مظاہرہ کیا، اسے ٹکٹ ضرور ملنا چاہیے۔“
اس طرح قائد کی مداخلت سے جاگیرداروں کی سازش ناکام ہوئی اور اس مرد قلندر نے 1946ء کا انتخاب مسلم لیگ کے ٹکٹ پر میانوالی سے لڑا اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ 25 فروری 1947ء کو خضر وزارت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں مولانا عبدالستار خان نیازی نے ایک زبردست جلوس کی قیادت کرتے ہوئے دفعہ 144 کو توڑا اور 28 فروری کو بحثیت صدر پنجاب مسلم لیگ گرفتار ہوئے۔ جب مسلم لیگ مکمل طور پر افسر شاہی، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی لوںڈی بن گئی تو اس صورت حال میں مولانا نیازی نے پیر صاحب مانکی شریف اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر 1950ء میں آل پاکستان ورکرز کنونشن بلایا اور آل پاکستان عوامی لیگ کی بنیاد ڈالی۔ مولانا اس کے پہلے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ جب سہروردی جو عوامی لیگ کے صدر تھے نے نواب ممدوٹ کی جناح لیگ کے ساتھ ادغام کر لیا تو مجاہد ملت اور سہروردی شہید کی راہیں جدا ہو گئیں۔ لیاقت علی خان وزیر اعظم پاکستان نے مولانا نیازی کو دولاکھ روپے نقد ایک حبیپ اور میانوالی سے بلامقابلہ اسمبلی کی رکنیت پیشکش کی مگر مولانا نیازی نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ اگر سہروردی غلط ہو سکتا ہے تو آپ کہاں درست ہو گئے؟ چنانچہ 1951ء کے الیکشن میں آپ نے خلافت گروپ کی جانب سے اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ 1958ء میں ایک بار پھر مجاہد ملت کو خریدنے کی کوشش کی گئی۔ پانچ لاکھ روپے کی پیشکش محض اس لیے کی گئی کہ آپ الیکشن میں حصہ نہ لیں مگر اس مرد درویش نے گھر آئی ہوئی دولت دنیا کو پائے استغنا سے ٹھکرا دیا اور ثابت کیا کہ دنیا میں کچھ مردان خدا ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو سیم وزر کے ڈھیروں سے خریدا نہیں جا سکتا۔ جو اپنا سب کچھ وقف رضائے الہی کر چکے ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کی کوئی احتیاج نہیں ہوتی۔ ملک میں 1958ء کا مارشل لا لگا تو مولانا نیازی کی جد و جہد مارشل لائی آمروں کے خلاف جاری رہی۔ 1959ء میں کراچی میں ورلڈ سیرت کانفرنس فیلڈ مارشل ایوب خان کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ مجاہد ملت نے اس میں اپنا پر مغز اور ایمان افروز مقالہ مقام رسول عقل کی روشنی میں پڑھا اور اس کے ساتھ ایوب خان کی آمرانہ حکومت پر کڑی تنقید کی جس سے گھبرا کر ایوب خان عقبی دروازے سے باہر چلے گئے اور حکام کو ہداہت کی کہ یہ دشمن بہت بےباک ہے اس پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اس طرح مولانا نیازی براہ راست ایوبی آمریت کا حذف بن گئے۔ 1962ء میں نواب آف کالا باغ کے بیٹے کے خلاف الیکشن لڑا اور یہیں آپ پر قاتلانہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ نواب آف کالا باغ کے دور میں آپ پر اس وقت حملہ ہوا جب آپ پرانی انار کلی سے گزرے رہے تھے تو نو ملسح افراد نے آپ پر لاٹھیاں اور ڈنڈے برسانا شروع کر دیے مگر خدا نے آپ کو بچا لیا تھا۔ مولانا نیازی نواب آف کالا باغ کو کالی سیاست کا کالا بھوت کہا کرتے تھے۔ کالا باغ کا دور ختم ہوا تو جنرل موسی نے مولانا نیازی کو آپ کے تمام گذشتہ تمام نقصانات کی تلافی کرنے کی پیشکش کی مگر اس مرد قلندر نے برملا کہا کہ سب سے بڑا ظالم و آمر ایوب خان تو حکومت پر موجود ہے جس نے ایک غنڈے کو گورنر بنا دیا تھا۔ جب محترمہ فاطمہ جناح نے ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد کی تو مولانا نیازی نے ان کا ساتھ دیا۔ موچی دروازہ لاہور کے تاریخ ساز جلسے میں مادر ملت کے بعد مولانا نیازی کا تاریخی خطاب ہوا جس میں آپ نے وہ تاریخی جملہ کہا تھا
”کسی کی لمبی مونچھوں سے تو بغاوت ہو سکتی ہے مگر کملی والے آقا کی مبارک پیاری زلفوں سے بغاوت نہیں ہو سکتی “
مولانا عبدالستار خان نیازی نے ہمیشہ قوم کے ساتھ وفا کی اور کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا کبھی مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ آپ محترمہ فاطمہ جناح کے ان جلسوں میں جن میں جنرل اعظم شریک ہوتا نہیں جاتے تھے یہ وہی جنرل اعظم ہے جس نے 1953ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں شمع رسالت کے پروانوں کو کچلنے کے لیے ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھائے تھے اور بیسیوں فدایان رسول کو شہید کرایا تھا زین سبب مولانا نیازی نے فرمایا
”قوم کا قاتل اور قوم کا خادم ایک سٹیج پر نہیں بیٹھ سکتے“
حالانکہ اس وقت بڑے بڑے تیس مارخان جنرل اعظم کو سینے سے لگا رہے تھے مگر مولانا عبدالستار خان نیازی نے قوم کے اس عظیم دشمن کو کبھی معاف نہ کیا اور مصلحت وقت کا شکار ہونے کی بجائے دو ٹوک فیصلہ دیا کہ میں شہدائے تحریک تحفظ ختم نبوت سے غداری نہیں کر سکتا۔
پیپلز پارٹی کے برسر آنے کے ساتھ پاکستان کو ایک عظیم سانحہ کا سامنا کرنا پڑا پاکستان کا مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا اور یہ بازو بنگلہ دیش بن گیا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا پہلا اسیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1975ء میں متحدہ جمہوری محاذ کے ملک گیر کنونشن کے لیے آپ کو کنوینر مقرر کیا گیا۔ آپ کو کنونشن کے انعقاد سے قبل گرفتار کر کے ساہیوال جیل میں نظر بند کر دیا گیا۔ 1975ء کے انتخابات میں مولانا عبد الستار خان نیازی نے جمعیت علما پاکستان کے نمائندہ کی حثیت سے حصہ لیا مگر زبردست دھاندلی کے ذریعے آپ کی یقینی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں پاکستان عوامی اتحاد کے قیام میں مولانا نیازی نے مرکزی کردار ادا کیا اور آپ کی مخلصانہ مساعی سے نو جماعتیں بھٹو آمریت کے خلاف متحد آمریت کے خلاف متحد ہو کر صف آرا ہوئیں۔ آپ نے قومی اتحاد کی طرف سے ان انتخابات میں میانوالی سے قومی اسمبلی کی دونوں نشتوں پر حصہ لیا مگر آمر حکومت نے تاریخ کی بد ترین دھاندلی کرائی جس کا اعتراف بعد میں آنے والی مارشل لا حکومت کے شائع کردہ قرطاس ابیض میں برملا کیا گیا ہے۔ آپ پر بھٹو کے دور میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا مگر آپ محفوظ رہے۔ آپ پر چار پانچ مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے لیکن آپ گھبرائے نہیں۔ اس ملک گیر دھاندلی کے خلاف پورے ملک کی عوام نے احتجاج کیا اور پھر یہ احتجاج تحریک نظام مصطفٰی کی صورت اختیار کر گیا۔ مولانا نیازی اور آپ کی جماعت جمعیت علما پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اس عظیم عوامی احتجاج کو رخ اسلامی انقلاب کی سمت متعین کر کے اسے تحریک نظام مصطفٰی بنا دیا۔ اس تحریک کے نتیجہ میں بھٹو آمریت کے خاتمہ کے بعد آنے والے حکمرانوں کا اقتدار نفاذ اسلام کے وعدوں کے ساتھ مشروط ہو گیا۔ تحریک نظام مصطفٰی میں مجاہد ملت کا پھر پور مجاہدانہ اور قائدانہ کردار رہا۔ اپنی بزرگی کے باوصف آپ نے پولیس تشدد اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جنرل ضیاء الحق کی نام نہاد اسلامی دور میں جبکہ بڑے بڑے سیاسی لیڈران اور صاحبان جبہ و دستار اپنی وفاداریاں اسلام آباد میں چند ٹکوں کے عوض بیچ رہے تھے اور وزارتوں پر اپنا ضمیر و ایمان فروخت کر رہے تھے۔ ایسے میں مولانا نیازی اپنی غیرت فقر پر قائم رہے اور گورنری کی پیشکشوں کو بے نیازی سے ٹھکرا دیا کہ یزید کی بیعت کر کے ابن زیاد بننا بندہ مومن کا شیوہ نہیں۔ آپ 1988ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور آپ نے نفاذ شریعت کے لیے بے حد کوششیں کیں۔ مولانا نیازی کو کرنل قذافی کا پیغام ملا کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کرو اگر آپ کی جماعت نے پیپلز پارٹی کی سربراہ کو وزیر اعظم کے لیے ووٹ دیا تو آپ کو صدارت کے لیے نامزد کیا جاسکتا ہے۔ آپ بے نظیر کو بیٹی بنالیں۔ اس پر آپ نے کہا تھا کہ قوم کی ساری بیٹیاں میری بیٹیاں ہیں۔ بے نظیر کو چاہیے کہ وہ سیاست اسلامی اصولوں میں رہ کر کریں۔ 1990ء کے الیکشن میں پھر قومی اسمبلی کے ارکان بنے اور ساتھ ہی وزیر بلدیات کا عہدہ آپ کو تقویض ہوا۔ مولانا نیازی نے نواز شریف کے دور میں بلدیات اور دیہی ترقی کی وزارت چھوڑ دی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ اسلامی شریعت نافذ کی جائے۔ آپ نے سابق صدر غلام اسحاق خان پر بھی زوردیا تھا کہ شریعت نافذ کرو، جس پر آپ کو بتایا گیا کہ اگر آرڈیننس نافذ کر دیا گیا تو دو ماہ میں ختم ہو جائے گا آپ اسمبلی سے بل منظور کروائیں۔ آپ نے جواب دیا کہ آرڈیننس نافذ دو دن کے لیے بھی نافذ کر دیا جائے اسمبلی اسے منظور کرنے پر مجبور ہو گی۔ آپ کہتے تھے کہ میری آخری خواہش یہی ہے کہ پاکستان میں شریعت کو نافذ ہوتا ہوا دیکھوں اور اگر میاں نواز شریف یہ شریعت نافذ کر دیتے ہیں تو میں اپنے حلقے کے عوام کو مطمعن کر سکوں گا ورنہ میرے لیے ان کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ایک مرتبہ جب آپ نے ایک بل تیار کر کے نواز شریف کو دیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس کو سرکاری طور پر نافذ کراؤں گا۔ مگر پھر بات ختم ہو گئی۔ آپ شریعت بل کے نفاذ سے متعلق کمیٹی کے چیرمین بھی تھے مگر جب اسمبلی میں ایک بل آپ کی منظوری کے بغیر پیش کیا گیا تو آپ اس سے بھی مستعفی ہو گئے۔ مولانا نیازی 1994ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔
——
1962ء کے الیکشن میں انتخابی منشور
——
انتخابی منشور سات نکتے
——
پہلا نکتہ
——
میرے انتخابی منشور کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان اسلام کی عالمگیر انقلابی تحریک کو ہمارے وطن کی سرزمین سے شروع کرنے کے عزم کا نام تھا۔ ہم نے ابھی فقط بیرونی غلامی سے سیاسی نجات حاصل کی ہے۔ صنعتی طور پر بھی کچھ ترقی ہوئی ہے۔ لیکن اقتصادی، معاشرتی، اخلاقی، ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی لحاظ سے اس انقلاب کی تکمیل باقی ہے۔ جو علامہ اقبال اور قائد اعظم کی قیادت میں کفرستان کو پاکستان بنانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ میں پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہو گیا تو جس طرح گذشتہ پچیس سال سے اس انقلاب کی تکمیلی میں سر دھڑ کی بازی لگائی ہے اسی طرح آئندہ بھی اسلام کے عالمگیر انقلاب کی علمبرداری کی کوشش کروں گا۔ اسی اصول کو پاکستان کی تاریخ میں تحریک خلافت پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔
——
دوسرا نکتہ
——
میرے انتخابی منشور کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں فقط ایک ہی اسلام ہے جو آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات، زندگی کے ہر پہلو ہر لحاظ سے اخیر مشروط طور پر تعلیم کرنے کا نام ہے۔ حضور علیہ اسلام کی تعلیمات کے متعلق ہر اختلاف سلف صالحین کی فقہی راہنمائی میں موجودہ امت کے اجماع سے طے کرنا واجب ہے۔ قرآن مجید یا اسلام کی کوئی ایسی تعبیر قبول نہیں جو پیغمبر اسلام یا اسلامی فقہ سے انحراف کر کے پیش کی جائے۔
——
تیسرا نکتہ
——
میرے انتخابی منشور کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین قانون یا کسی ملکی ضابطہ کا کوئی حکم اس وقت نافذ نہیں ہونا چاہیے۔ جس وقت تک کہ وہ اسلام کی مذکورہ بالا تعریف کے ماتحت واجب ثابت نہ ہو جائے اور عدالت میں کوئی شخص جج یا مجسٹریٹ نہ ہو نا چاہیے جب تک کہ وہ مفتی یا قاضی کی شرعی شرائط پر پورا نہ اترتا ہو۔ جو موبودہ عہدے دار اس شرط پر پورے نہیں اترتے ان کی تربیت اور تعلیم کا سرکاری انتظام عبوری زمانے کے لیے ہونا چاہیے اور اس کے لیے خاص امتحانات ہونے چاہیں جن میں عملی قابلیت کے علاوہ اسلامی کردار کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
——
چوتھا نکتہ
——
میرے انتخابی منشور کا چوتھا نکتہ یہ ہے کہ میں پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہو گیا تو ایسے قانون منظور کروانے کی کوشش کروں گا جس سے سودی کمائی اور شرعی لحاظ سے دیگر تمام اقسام کی حرام آمدنی بند ہو جائے۔ تمام حرام ذرائع سے حاصل کردہ جائداد، املاک یا دولت بیت المال کے حق میں ضبط کی جائے اور فقط شرعی لحاظ سے حلال ملکیت اور جائداد پاکستانی شہری کے قبضہ اور تصرف میں رہ سکے۔ نیز کوئی مسلمان حلال کسب کے موقع سے محروم نہ رہے۔ محتاجگان کی رہائش، پوشاک، خوراک اور ثقافتی و تعلیمی تربیت اور نگہداشت بیت المال کے ذمہ ہو۔
——
پانچواں نکتہ
——
میرے انتخابی منشور کا پانچواں نکتہ یہ ہے کہ کوئی مسلم کنبہ کسی قسم کا رشتہ دار یا کسی قسم کا ورثہ مذکورہ بالا اسلامی کے خلاف قائم نہ کر سکے۔ انسانی ضروریات کی شرعی کفالت کے بعد جرائم کی شرعی سزائیں نافذ کی جائیں۔ عورتیں اور مرد اور اولاد سب شرعی حجاب اور تقوی کی پابندی کریں۔
——
یہ بھی پڑھیں : فلسفی شاعر اور طرح دار نثر نگار ظفر نیازی کا یوم پیدائش
——
چھٹا نکتہ
——
میرے انتخابی منشور کا چھٹا نکتہ یہ ہے کہ چین اور روس کے مسلمانوں سے لے کر کشمیر اور فلسطین اور الجزائر اور تکام دنیائے عرب اور افریقہ اور تمام دنیا کے مسلمان ایک امت ہیں ایک عالمگیر برادری ہیں کمیونزم یا سرمایہ پرستی یا قوم پرستی کی جاہلانہ اور کافرانہ طاقتون سے ہمارے تعلقات اسی عالمگیر اتحاد کے اراکین کی حثیت سے استوار ہونے چاہئیں۔
——
ساتواں نکتہ
——
میرے انتخانی منشور کا ساتواں نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی تحریک کے تین بنیادی مقاصد یہ تھے کہ دولت اور اقتدار میں ہر پاکستانی برابر کا حصہ دار ہے۔ اسلام برترین فرمانروا ہے اور حکمران جھوٹے وعدے اور نعرے بلند نہ کر سکیں۔ اب پاکستان کے آئین میں ان تینوں نکات کی تکمیل شامل ہونی چاہیے یا دوسرے الفاظ میں فرعونیت، قارونیت اور یزیدیت کی ممانعت ہو۔
آپ کا مخلص
عبد الستار خان نیازی ایم اے
——
دینی و علمی خدمات
——
مولانا عبد الستار خان نیازی ایک متبحر عالم دین اور عارف حق شناس ہیں۔ آپ رموز شریعت و طریقت ہر دو سے واقف ہیں اور اس عہد بے ثمر میں ان کا دم غنیمت ہے۔ مولانا نیازی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین مصطفٰی کی تبلیغ و خدمت اور اسلام کے احیا و سربلندی کے لیے صرف ہوا ہے۔ مقصد کی لگن سے سرشار یہ مرد حق ساری زندگی اقلیم لا میں آباد رہا ہے۔ اسے دنیا داری، شادی بیاہ، بیوی بچوں کے جھنجھٹ میں پڑنے کی فرصت بھی نہیں ملی۔ مولانا نیازی اسلام کے ایک ایسے انتھک مبلغ ہیں جن کا کردار اس کی گفتار کی تائید کرتا ہے۔ مولانا نیازی کی ذات سراپا تبلیغ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض کی ادائیگی میں دنیا کی کوئی طاقت ان کے لیے رکاوٹ نہ بن سکی۔ ان کی تبلیغی خدمات کا دائرہ پورے عالم انسانی پر محیط ہے۔ وہ بسلسلہ تبلیغ بیرون ملک کئی دورے فرما چکے تھے اور کئی بین الاقوامی کانفرنسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں سے برطانیہ کے مسلمانوں کی دعوت پر عید میلاد النبی کے موقع پر جلوس میلاد کی قیادت کے لیے تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ آپ نے پوری دنیا میں اسلامی نظریات و عقائد کا دفاع کیا اور اسلام کی حقانیت کا اثبات کر کے بین الاقوامی طور پر عظمت اسلام کا پرچم بلند کیا۔ آپ کے خطبات و تقاریر اسلامی معلومات کا بیش بہا خزانہ ہوتے ہیں۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کی تقاریر بندگان حق کی دلوں میں جوش ایمانی بھڑکانے اور غیرت و حمیت جگانے والی اور خرمن باطل کے لیے برق خاطف کی طرح ہوتی ہیں۔ مولانا نیازی نے کچھ عرصہ اسلامیہ کالج لاہور میں شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر کی حثیت سے علمی خدمات سر انجام دیں۔ اس کے بعد زندگی بھر ایک مصلح کی حثیت سے مسلمانوں کی علمی و فکری راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ 2 جون 1968ء کو مجلس صداقت اسلام لاہور کی طرف سے پہلی بار موثر انداز میں یوم رضا منایا گیا جس میں مجاہد ملت نے بھی پرزور مقالہ مقالات یوم رضا پڑھا۔ مارچ 1982 میں بعض فتہ پرور لوگوں کی سازش کی بنا پر بعض عرب ممالک نے امام احمد رضا خان بریلوی کے ترجمہ کنزالایمان اور مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیر خزائن العرفان پر ناروا پابندی عائد کی تو مجاہد ملت نے متحدہ عرب امارات، کویت اور سعودی عرب کے سفیروں کو اصلاح احوال کے لیے تفصیلی خط لکھے۔ 5 مئی 1985ء کو ورلڈ اسلامک مشن، برطانیہ کی طرف سے ویملے ہال لندن میں حجاز کانفرنس منعقد کی گئی جس میں سعودی حکمرانوں سے اپیل کی گئی کہ اہل سنت و جماعت کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ 1983ء کی بات ہے کہ مجاہد ملت نے علامہ مفتی محمد عبد الحکیم شرف قادری کو ٹیلی فون کیا اور فرمایا کہ سمن آباد میں پروفیسر طاہر القادری کی رہائش گاہ پر ایک ضروری میٹنگ ہے آپ بھی اس میں شرکت کریں۔ عبد الحکیم شرف قادری اور مولانا نیازی اکھٹے سمن آباد پہنچے تو وہاں پر پہلے سے طاہر القادری اور مفتی محمد خان قادری موجود تھے۔ وہاں پر موضوع احسان الہی ظہیر کی کتاب البریلویت تھی جس میں اس نے غلط بیانیوں کے انبار لگا دیے تھے اور بریلوی بزرگوں کی کردار کشی کی گئی تھی۔ اس کے جواب کے لیے عبد الحکیم شرف قادری کے ذمہ داری لگائی تھی جس کے لیے شرف قادری نے دو کتابیں لکھیں ایک اندھیرے لے اجالے تک اور دوسری شیشے کے گھر۔
——
وصال
——
مولانا نیازی اپنے وصال سے تین چار روز قبل میر پور آزاد کشمیر تشریف لے گئے تھے جہاں تاجدار بریلی کانفرنس تھی جس میں سینکڑوں علما و مشایخ تشریف فرما تھے۔ نیازی صاحب باوجودیکہ علیل تھے مگر شدت کی گرمی، دور دراز کا سفر اس عاشق رسول کے سد راہ نہ بنا۔ مولانا نیازی کی وفات 7 صفر 1422ھ بمطابق 2 مئی 2001ء کو بروز بدھ بعارضہ قلب ہوئی۔ آپ کا نماز جنازہ ہاکی سٹیڈیم میانوالی میں پڑھا گیا۔ کثیر تعداد میں علما، مشایخ اور عوام نے جنازے میں شرکت کی تھی اور آپ مجاہد ملت کمپلیکس روکھڑی موڑ میانوالی میں آسودہ خاک ہوئے۔ آپ نے چونکہ شادی نہیں کی تھی اور مجردانہ زندگی بسر کی تھی اس لیے صرف اور صرف آپ کے عقیدت مند ہی تھے جو آپ کو اولاد کی طرح پیارے تھے۔
——
مجاہد ملت کا اثاثہ
——
مولانا نیازی جیسی بلند پایہ شخصیت جس نے بہت سے اعلیٰ ترین عہدوں پر کام کیا ان کا اثاثہ 4 جوڑے کپڑے، 3 اچکن، 4 کلا اور ایک عصا تھی۔ کوئی بینک بیلنس نہیں تھا یہ لمحہ فکر ہے ان کے لیے جو آج کل کے سیاست دان ہیں۔
——
بیعت و خلافت
——
مولانا نیازی کی بیعت حضرت فقیر قادر بخش سجادہ نشین آستانہ عالیہ میبل شریف ضلع بھکر سے تھی لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ایک بڑی روحانی شخصیت مولانا ضیاء الدین مدنی جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کے خلیفہ تھے نے آپ کو تمام سلاسل میں خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔ مولانا نیازی نے صرف محمد صادق قصوری صاحب کو بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔
——
اعزازات
——
14 اگست 2003ء کو مولانا نیازی کی تحریک پاکستان میں خدمات کے اعتراف میں ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا۔ 1987ء میں آپ کی انہی خدمات کے صلے میں حکومت پنجاب نے آپ کو گولڈ میڈل بھی عطا کیا گیا تھا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کی خدمات کے اعتراف میں عیسی خیل کے کھگلانوالہ روڈ کا نام بدل کر مجاہد ملت روڈ اور ایک چوک کا نام مجاہد ملت چوک رکھ دیا گیا ہے۔
——
تصانیف
——
مولانا عبدالستار خان نیازی اپنی مصروف تحریکی زندگی میں ایک سراپا انقلاب شخصیت تھے اور ایک سراپا انقلاب شخصیت کو اگرچہ تصنیف و تالیف کا وقت بہت کم ملتا ہے مگر پھر بھی مجاہد ملت نے اہم دینی و علمی موضوعات پر بے شمار پر مغز مقالات و کتب تصانیف فرمائیں۔ چند کے نام بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں :  کیفِ دل کب سخن وری سے ملے
——
اتحاد بین المسلمین (تمام فرقوں کے علما کو چار نکاتی فارمولے پر اتحاد کی دعوت)
اسلام یا سوشلزم
پیغمبر اسلام (مقام رسول عقل کی روشنی میں)
پاکستان کیا ہے؟ اور کیسے بنے گا؟ (تحریک پاکستان میں مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے)
پاکستان بچانے کے لیے تحریک کی ضرورت
خلافت پاکستان
مسودہ آئین خلافت پاکستان
سوشلزم
نعرہ حق
تحریک ختم نبوت 1953ء
نظریہ پاکستان اور ہم
نقاب الٹ جانے کے بعد!
تحریک پاکستان کی اہم دستاویز
ہوتا ہے جادہ پیما (خودنوشت سرگذشت حیات)
فلسفہ شہادت حسین
شہریت اور ملت
مقالات نیازی
مکاتیب نیازی
ارشادات
مال کا غلط استعمال قارونیت ہے۔
طاقت کا غلط استعمال فرعونیت ہے۔
مذہب کا غلط استعمال یزیدہت ہے۔
——
اعتراف عظمت
——
جس قوم کے پاس عبدالستار خان نیازی جیسے پیکران یقین و صداقت اور صاحبان عزم و ہمت ہوں اس کے پاس پاکستان کو کون روک سکتا ہے۔ (قائد اعظم محمد علی جناح)
——
خود آئینہ کی طرح صاف و شفاف دل، روشن دماغ، بلند خیال اور عالی ظرف ہونے کی وجہ سے دوسروں پر بھروسا ان کا شیوہ زندگی ہے۔ سفر حیات میں انہوں نے آزمائش و امتحان کے کئی ایک مراحل طے کیے۔ (یہ دیوانہ محمد )
——
عظمت رسول کے لیے تختہ دار تک جا پہنچا۔ عشق محمد سے سرشار نیازی عزم و استقلال اور بلندی سیرت و کردار کے طفیل منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے اور اپنی راہ میں رکاؤٹ بننے والی کسی ظالم و جابر شخصیت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کسی بڑے سے بڑے صاحب جبروت کی خفگی ان کے قدموں کو نہ ڈگمگا سکے گی۔ (چوہدری حبیب احمد مصنف تحریک پاکستان اور نیشلسٹ علما)
——
مجاہد ملت مولانا عبد الستار خان نیازی کو میں 1936ء سے جانتا ہوں اور ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوا ہوں۔ میں نے ان سے زیادہ مخلص، بے لاگ، بے خوف اور اسلام کا شیدائی انسان شاید ہی اور کوئی دیکھا ہو۔ (میاں محمد شفیع م ش)
——
تحفظ ناموس ختم نبوت کی جدوجہد میں ہماری ساری زندگی گزر گئی ہماری داڑھیاں سفید ہو گئی لیکن ناموس مصطفٰی کے لیے دواروسن کی منزل تک پہنچنے کا جو مقام مولانا عبد الستار خان نیازی کو حاصل ہوا وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکا۔ (سید عطاءاللہ شاہ بخاری)
——
دور حاضر میں جس نے سید جمال الدین افغانی کو دیکھنا ہو تو مجاہد ملت مولانا عبد الستار خان نیازی کی زیارت کرے۔ (کرنل معمر قذافی)
——
آج بہت سے لوگ حضرت قائداظم کے رفیق اور ساتھی ہونے کا دعوی کر رہے ہیں جبکہ ان کا دعوی درست نہیں ہے۔ قائد اعظم تو پنجاب میں صرف مولانا ظفر علی خان، ملک برکت علی، میر غلام بھیگ نیرنگ، نواب افتخار حسین ممدوٹ اور مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی ہی کو جانتے تھے۔ (احمد سعید کرمانی)
——
صدر ایوب اور نواب کالا باغ نے میری ڈیوٹی لگائی تھی کہ مولانا عبدالستار نیازی کو ہموار کیا جائے۔ میں نے پوری کوشش کی مگر یہ مرد قلندر نہ جھکا نہ بکا ہے۔ (حبیب اللہ خان سابق وزیر داخلہ)
——
مولانا عبدالستار خان نیازی اس پاکستان کی جیتی جاگتی تصویر ہیں جس کا خواب حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال نے دیکھا اور جسے قائد اعظم نے پروان چڑھایا۔ (چوہدری نذیر احمد سابق مرکزی وزیر)
——
مولانا عبدالستار خان نیازی زاد شرفہ، اس فقیر کے اس وقت سے واقف ہیں جب وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے فعال کارکن اور خلافت الہیہ پاکستان کے علمبردار تھے، اسلام کے لیے ان کی تڑپ شک و شبہ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہے۔ (بابائے صحافت وقار انبالوی)
——
مولانا عبدالستار خان نیازی جو بریلوی مکتب فکر کے جید و متجر نوجوان ہیں۔ مارشل لا کی عدالت سے پھانسی کے مستحق گردانے گئے۔ انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ جو عمر بھر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ انہوں نے اپنی رہائی کے بعد ختم نبوت کے تقریری محاذ کو ٹھنڈا نہ ہونے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا عبد الستار خان نیازی عشق رسالت میں قرن اول کے مسلمانوں کا سا مزاج رکھتے ہیں۔ (شورش کاشمیری، چٹان تحریک ختم نبوت نمر)
——
فرد کی صورت میں اسلام کی عظمت کا ثبوت درکار ہو تو بغیر کسی تردد کے حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ بلند و بالا، وجیہ، خوش پوش، خوش گفتار، خوش خلق و خوش فکر، ذہین و دماغ دینی و دنیاوی علوم سے روشن اور دل حب اسلام کے جذبے سے آباد ! بہت اچھے مقرر، بالغ نظر مصنف اور ان تمام صفات میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ مجاہد فی سبیل اللہ ! اگر یہ کہا جائے تو کسی قسم کا مبالغہ نہ ہو گا کہ انہوں نے اسلام کی آغوش میں آنکھ کھولی اور اپنے آپ کو اسلام کے لیے وقف کر دیا۔ (سید نظر زیدی)
——
مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں نے حضرت مجاہد ملت کو بڑی بڑی شخصیات، سیاسی قائدین، علما مفکرین اور قدآور شخصیات سے کئی اعتبار سے منفرد اور ممتاز پایا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی مدظلہ کی زندگی ایک کھلی کتاب اور مرد مومن کی زندگی یے۔ آپ ایک قلندرانہ شان رکھنے والے قائد ہیں۔ (پروفیسر محمد طاہر قادری)
——
اگر کوئی پاکستانی سیاست میں مولانا عبدالستار خان نیازی کو ولی نہ مانے تو میں اسے مردم ناشناس کہوں گا۔ (چوہدری رفیق احمد باجوہ)
——
عالم عرب کو مولانا نیازی جیسے قائد کی ضرورت ہے۔ (کرنل قذافی)
——
مولانا نیازی کی گفتگو سے ایک صحیح مرد مومن کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کے خیالات عالم اسلام کے وقار کی ضمانت ہیں۔ (صدام حسین)
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ