اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو اور پنجابی کے معروف مزاحیہ شاعر جناب عبیر ابوذری کا یومِ وفات ہے۔

عبیر ابوذری(پیدائش: 27 اگست 1914ء – وفات: 7 دسمبر 1997ء)
——
عبیر ابوذری مزاحیہ شاعری کے بے تاج بادشاہ تھے جو آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔
آپ کا اصل نام شیخ عبد الرشید تھا۔ وہ 1914ء میں جنڈیالہ گرو، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ آپ نے صرف پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔
تقسیمِ ہند کے بعد آپ پاکستان آ گئے اور گوجرانوالہ میں مقیم ہوئے۔
بعد ازاں انہوں نے لائلپور (موجودہ فیصل آباد) میں رہائش اختیار کی اور پھر ساری زندگی وہیں بسر کی۔ جناب عبیر ابوذری کی طبیعت میں سادگی، درویشی اور قناعت تھی جس کا عکس انکی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار میں عام لوگوں کے دکھ سکھ نظر آتے ہیں۔ عبیر ابوذری کی شاعری سن کر پہلے تو ہنسی آتی ہے مگر جب ان پر غور کریں تو آنکھیں بھیگ سی جاتی ہیں اور یہی عبیر ابوذری کی شاعری کا کمال ہے۔
انکی سب سے زیادہ مشہور غزل "مسلسل” ہے جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
آپ کی شاعری کی چار کتب "پانی وچ مدھانی”، "جلیبیاں”، "رخصتی” اور "پاپڑ کرارے” شائع ہوئیں۔
اپنی شاعری پر آپ نے 1994ء میں ‘مسعود کھدر پوش’ ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : عبیر و عنبرِ سارا کو دیدے مات کیا کہیے
——
پیرانہ سالی کے باوجود خود خوش رہنے اور دوسروں کو ہنسانے والے عبیر ابوذری 7 دسمبر 1997ء کو کبیروالا میں انتقال کر گئے اور فیصل آباد میں آسودۂ خاک ہوئے۔
——
’’پانی وچ مدھانی‘‘ اور ’’پاپڑ کرارے‘‘ کے ہر دلعزیز خالق عبدالرشید نے عبیر ابوذری کے قلمی نام سے دنیائے طنز و مزاح میں اپنا سکہ جمائے رکھا۔
زیادہ کلام پنجابی زبان میں موجود ہے لیکن اردو میں جو بھی کہا وہ مقبول ہوا۔ان کے شگفتہ اردو کلام میں پنجابی کے الفاظ و محاورات کی بے ساختہ آمد بالکل نئی طرح کا لطف دیتے ہیں۔ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کی شاعری میں مشاہدے کی گہرائی و وسعت حیران کر دیتی ہے۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید ’’پانی وچ مدھانی‘‘ کے دیباچے میں عبیر ابوذری کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں :
’سماجی تے معاشرتی برائی دی صورت وچ اونہاں نوں جتھے وی کوئی ہجھ نظر آیا اے اوہ اونہوں بدلن لئی اکھراں دی فوج لے کے میدان وچ اُتر آندے نیں۔ ارتکازِ زر وی اوہناں دا مسئلہ اے،تے رشوت خوری تے بے ایمانی نوں وی اوہ اک دائمی روگ سمجھدے نہیں۔ ایہو وجہ اے جے کِدھرے کِدھرے اوہناں دا لہجہ مٹھیاں گولیاں دین والے ہومیو پیتھ پُڑیاں ویچن والے حکیم دی بجائے اک ماہر سرجن والا ہو جاندا اے۔ ایہہ وکھ گل اے کہ ایہو جئیاں موقعیاں تے او اینستھیزیا دی انتہائی مناسب ڈوز استعمال کر کے اپریشن جیہے عمل نوں گُد گدی وچ تبدیل کر دیندے نیں۔۔۔۔‘
ان کے اشعار جتنے زیادہ مشاعروں میں داد پاتے ہیں اتنے ہی تنہائی میں پڑھتے ہوئے لطف دیتے ہیں۔ قافیوں کی جدت ان کے مداحوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی اور مشاعرہ پڑھنے کا سیدھا سادہ دیہاتی لب و لہجہ عبیر ابو ذری کی ذات کے داخلی پہلوؤں سمیت سامنے آ کھڑا ہوتا تھا۔ پاک وطن میں جو دیکھا اور محسوس کیا،اسے کاغذ پر اتار دیا۔محسوسات کی اسی کشمکش کا تسلسل اس غزل میں دیکھیے جہاں اہلِ وطن کی بے عملی، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور محنت سے جی چرانے پر نوحہ خواں ہیں :
——
ہم صورتِ حالات سے آگے نہ جا سکے
گویا کہ اپنی ذات سے آگے نہ جاسکے
مدت ہوئی ہے گولڈن دن کی تلاش میں
تاحال کالی رات سے آگے نہ جا سکے
ہم کو بھی اچھی قسم کے کھانوں کی ریجھ ہے
پر اپنے ساگ پات سے آگے نہ جا سکے
کوشش تو ہم نے بہت کی انچے مقام کی
گھر کے بنیرا جات سے آگے نہ جاسکے
غیروں نے ایجادات سے دنیا کو سُکھ دیے
ہم ہیں کہ مسئلہ جات سے آگے نہ جاسکے
آگے نہ جانے دیں گے نہ ہم خود ہی جائیں گے
ہم ان بکھیڑا جات سے آگے نہ جا سکے
چسکا پڑا ہوا ہے ہمیں شعر کا تبھی
ہم فعل و فاعلات سے آگے نہ جا سکے
——
اسی طرح کی ایک اور غزل میں چپاتی کے کاغذاتی ہونے، پارساؤں کی حکمرانی کے باوجود وارداتوں کی بھرمار، ہر بجٹ میں خسارے کے حسابات وغیرہ پر یوں تشویش ظاہر کرتے ہیں :
——
بہت دبلی بہت پتلی حیاتی ہوتی جاتی ہے
چپاتی رفتہ رفتہ کاغذاتی ہوتی جاتی ہے
ہمارے گال بھی پچکے ہوئے امرود جیسے ہیں
اور ان کی ناک ہے کہ ناشپاتی ہوتی جاتی ہے
ملی ہے حکمرانی دیس کی جب پارساؤں کو
تو اپنی قوم کیوں پھر وارداتی ہوتی جاتی ہے
بجٹ اس کا خسارے کا اور اپنا بھی خسارے میں
حکومت بھی ہماری ہم جماتی ہوتی جاتی ہے
——
یہ بھی پڑھیں : ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
——
اس غزل کا دوسرا شعر شگفتگی کے ساتھ ایک عالمگیر سچائی کو کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے کہ مہنگائی ومفلسی میں دھنسی ہوئی قوم کے افراد کے گال اس طرح اندر کو دھنس گئے ہیں جیسے کسی قحط زدہ ملک میں لوگوں کی حالت ہوتی ہے۔اس کے برعکس اسی قوم کے حکمران اور غاصب طبقہ کی ناک بھی پھولی ہوئی دکھائی دیتی ہے جیسے ناشپاتی ہو۔اسی طبقے کی وجہ سے ملک آئے روز شورشوں اور بے امنی کی دلدل میں گرتا چلا جا رہا ہے۔انسانی خصائص پر حیوانی جبلتیں غلبہ پا رہی ہیں اور ایک طرف امرا کے کتے گرم لحافوں میں سوتے ہیں تو دوسری جانب غربا کے کمسن بچے ٹھٹھرتی راتوں میں ننگے آسمان تلے زندگی کی سانسیں پوری کرنے پر مجبور ہیں۔
عبیر ابو ذری خالص مزاح گو ئی اور منفرد طرزِ تکلم میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اردو شاعری کا سب سے معتوب کردار ’’ملا ‘‘ جب عبیر کی مزاح نگاری کا نشانہ بنتا ہے توساتھ ہی اس پر شدید طنز کرتے ہیں۔اسلام میں نئے نئے مسالک کا قصور وار گردانتے ہوئے اسے نفرتیں پھیلانے کا باعث قرار دیتے ہیں۔امن و امان کی حالت پر تو ان کا یہ شعر مثل بن چکا ہے:
——
ہر روز کسی شہر میں ہوتے ہیں دھماکے
رہتی ہے مرے دیس میں شب رات مسلسل
——
۷ دسمبر ۱۹۹۷ء کو طنز و مزاح کا یہ آفتاب اپنی روشنی کی تب و تاب دکھا کر فیصل آباد میں غروب ہو گیا۔
——
منتخب کلام
——
رویا ہوں تری یاد میں دن رات مسلسل
ایسے کبھی نہیں ہوتی برسات مسلسل
کانٹے کی طرح ہوں رقیبوں کی نظر میں
رہتے ہیں مری گھات میں چھ سات مسلسل
چہرے کو نئے ڈھب سے سجاتے ہیں وہ ہر روز
بنتے ہیں مری موت کے آلات مسلسل
اجلاس کا عنوان ہے اخلاص و مروت
بد خوئی میں مصروف ہیں حضرات مسلسل
ہم نے تو کوئی چیز بھی ایجاد نہیں کی
آتے ہیں نظر ان کے کمالات مسلسل
کرتے ہیں مساوات کی تبلیغ وہ جوں جوں
بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں طبقات مسلسل
ہر روز کسی شہر میں ہوتے ہیں دھماکے
رہتی ہے مرے دیس میں شب برات مسلسل
ہر روز وہ ملتے ہیں نئے روپ میں مجھ کو
پڑتے ہیں مری صحت پر اثرات مسلسل​
——
یہ بھی پڑھیں : پنجابی زُبان کے معروف عوامی شاعر استاد دامن کا یومِ پیدائش
——
ہم صورتِ حالات سے آگے نہ جا سکے
گویا کہ اپنی ذات سے آگے نہ جاسکے
مدت ہوئی ہے گولڈن دن کی تلاش میں
تاحال کالی رات سے آگے نہ جا سکے
ہم کو بھی اچھی قسم کے کھانوں کی ریجھ ہے
پر اپنے ساگ پات سے آگے نہ جا سکے
کوشش تو ہم نے بہت کی انچے مقام کی
گھر کے بنیرا جات سے آگے نہ جاسکے
غیروں نے ایجادات سے دنیا کو سُکھ دیے
ہم ہیں کہ مسئلہ جات سے آگے نہ جاسکے
آگے نہ جانے دیں گے نہ ہم خود ہی جائیں گے
ہم ان بکھیڑا جات سے آگے نہ جا سکے
چسکا پڑا ہوا ہے ہمیں شعر کا تبھی
ہم فعل و فاعلات سے آگے نہ جا سکے
——
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
پرے سے پرے سے پراں اور بھی ہیں
ابھی تو تجھے ایک پھینٹی لگی ہے
ابھی تو ترے امتحاں اور بھی ہیں
وہ اِک نار ہی تو جلاتی نہیں ہے
محلّے میں چنگاریاں اور بھی ہیں
وہ کھڑکی نہیں کھولتے تو نہ کھولیں
نظر میں مرے باریاں اور بھی ہیں
یہ شیعہ یہ سنّی یہ حنفی وہابی
علاوہ ازیں فرقیاں اور بھی ہیں
سمگلنگ کی شوگر سٹاکنگ کا کینسر
وڈیروں کو بیماریاں اور بھی ہیں
یہاں صرف تھانے ہی بکتے نہیں ہیں
یہاں پر کئی ایسے تھاں اور بھی ہیں
وہ کہتے ہیں انصاف سستا ملے گا
تو ثابت ہوا پیشیاں اور بھی ہیں
ہوا تیل کا ہی نہیں مول دُگنا
بہت قیمتاں ایسیاں اور بھی ہیں
عبیرا تجھے وہ بھی سہنی پڑیں گی
مقدر میں جو سختیاں اور بھی ہیں
——
سخی سیٹھ
اِک دن اک وچاری مائی
وڈھے سیٹھ دی کوٹھی آئی
آکھن لگی کُڑی جوان ایں
میں آں بیوہ ، بُڈھڑی جان ایں
بھانڈے مانجاں کراں مجوری
روٹی دال نئیں ہوندی پُوری
کُڑی نوں بوئیوں کویں اٹھاواں
پیسہ دھیلا کتھوں لاواں
ڈُونگھیاں سوچاں ڈُبی ہوئی آں
غم دے کھوہبے کھبی ہوئی آں
مدد کر کے بھار ونڈاؤ
اجر ثواب خدا توں پاؤ
اللہ تہانوں ہور ودھاوے
کیتا دان نہ ورتھا جاوے
سیٹھ نے سنیاں دُ کھ دیاں گلاں
سینے وجیاں گجھیاں سلاں
ہنجو آگئے اکھاں اندر
جیوں چنگھاڑے ککھاں اندر
دکھڑے سن کے رہ نہ سکیا
ہوڑے ہوکے سہہ نہ سکیا
رب دے خوفوں کمیا ڈریا
لماں سارا ہوکا بھریا
اوسے ویلے چابی کڈھی
کھولی اک تجوری وڈھی
نوٹاں دے سَن تھئیاں تھبے
بھرے بھرائے خانے سبھے
سوچیا بلہہ تے انگل دَھر کے
عینک ذرا کواسی کر کے
ویکھیا ، جاچیا چار چوفیرا
کِھچیا فیر دراز وڈیرا
کر کے جگرا بھر مردانہ
کڈھ کے دِتا وڈا آنہ
——
یہ بھی پڑھیں :
——
پنجابی زبان میں تیکھی شاعری کرنے والے مشہور لائل پوری شاعر عبیر ابو زری نے 1958ء میں اس وقت کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد کے آٹھ بازاروں اور گھنٹہ گھر کے بارے میں ایک طویل نظم لکھ کر یہاں کی روز مرہ زندگی کو اپنی شاعری کے ذریعے بیان کیا تھا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کے فیصل آباد اور 60 سال پرانے لائل پور میں کیا مختلف تھا۔ یقیناَ یہ تجربہ آپ کے لئے بہت دلچسپ رہے گا۔
بھوآنہ بازار
ایس بازار بھوانے دے وِچ بوٹ، پریس تے وان
فوٹو، سہرے، گرم مصالحے، بجلی دے سامان
نار کلی چوں سودا لیندے ہاناں کولوں ہان
ہیرے ہرن شکاریاں ہتھوں پُج کے کھاندے بان
چَنداں ورگیاں چمکاں والے وِکدے ایتھے تارے
لالیاں ویچ کے کردے مُڑ کے سرخیاں نال گزارے
جھنگ بازار
ایہہ ای جھنگ بازار تے ہُن تُوں نوٹ لویں سنبھال
ایتھے اکثر جیباں، کِھیسے ہُندے اوورل ہَال
آٹا کاٹا، شکر چینی، سبزی، گوشت، دال!
چار چوفیرے کرِکنَ کباّں پھسنّ بٹیرے جال!
بوہتے ایتھے ای ویکھے جاندے آوارہ بے کار
پُلس بتھیرا بَنھ کے کھڑ دی ٹِک دے نئیں سرکار
منٹگمری بازار
منٹگمری بازار دے اندر بیکریاں بھئی واہ
سوتر لئی دی ایتھے آ کے ترلے لین جلاہ
لوہڑیاں، جوگیاں، ملاں ایتھے توبہ توپ کپاہ
مونہہ چماں تے ٹک نہ دیواں بڑیاں ایں بچہ کھاہ
کارخانہ بازار
کارخانے بازار دے اندر کھدّر دے بَھنڈار
سوپ، سٹونی، سیلی کیٹڈ صابن ہون تیار
ہلدی مرچاں والیاں اُتے جَم دا نئیں اعتبار
اونائیں لوُن تے اونائیں سوڈا ہم وزن مقدار
ریل بازار
آہ اِی ریل بزار کہ جِتھے پاون لوگ مُراد
کھپھن والے مُردے ایتھے ہو گئے زندہ باد
دریاں گہنے کج کے بہہ گئے دولت مند افراد
مِٹھیاں مِٹھیاں بولن والے کسباں دے جَلاد
اوہ وی ایتھوں بچ نئیں سکدا موت نہ جنہوں مارے
ایتھے نے پلٹا کے سپاں روپ بشر دے دھارے
کچہری بازار
چل بزار کچہری چوں ہن کھائیے بطخ پلاو
پرجے کھنگ دی کھان توں پہلوں لیئے لبھ دوا
سُنیاں ایتھے سائیکل جُڑ دےپُرزیاں نوں بدلا
پیڑاں والے مجبوری نُوں لیندے داڑھ کڈھا
بوٹ، جراباں، چشمے، گھڑیاں، ریڈی میڈ غرارے
گاہک وچارے ہذا من فضلاں تے کرن گزارے
چنیوٹ بازار
چل چنیوٹ بازار وکھاواں لائل پور دی شان
تکڑیاں تے تُل کے وِکدی آدمیت دی آن
ایتھے پنچھی پنجریاں دے وِچ جھورن تے کرُلان
ایتھے آ کے شاہبازاں نوں جاندی بھُل اُڑان
ایتھے آ کے وچھڑی ہوئی کونج نئیں رَلدی ڈارے
منڈے وی کئی ایتھے پھردے لاریاں وِچ کوارے
امین پور بازار
ایس امین پور بازار اندر بھنگ، چرس، نسوار
چنڈو، مَدھک، مارفیا تے پیمانے گلنار
ایتھے ای پولیس دے ڈیرے سرکل روڈوں پار
مندیں کِمیں نانک جِتھے جدُ کدُ پیندی مار
وگڑے تگڑے بندے جاندے ڈنڈے نال سدھارے
میلے کپڑیاں دیا میلاں لوہندے سوڈے کھارے
گھنٹہ گھر
چلو جی ہُن گھنٹے گھر دا گیڑا اِک لگائیے
چکر دے وچ پا کے تہانوں سدھا راہ وکھائیے
مقصد سب دا اِکو منزل، آون کسے بزارے
ایتھے کھڑ کے دیکھ عبیرا سدِھے راہ نے سارے
——
حوالہ جات
——
تحریر از محمد شعیب ، کتاب : اُردو شاعری میں طنز و مزاح
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ