اردوئے معلیٰ

Search

آج امریکہ میں مقیم اردو کے ممتاز شاعر، ادبی اور ثقافتی نقاد، ادبی ،محقق، عمرانیاتی نظریہ دان، مقالہ نگار، کہاوت نویس ،مترجم، ماہر عمرانیات اور ماہر جرمیات احمد سہیل کا یومِ پیدائش ہے

 

 

احمد سہیل(پیدائش: 2 جولائی 1953ء )
——
احمد سہیل 2 جولائی 1953ء کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سہیل احمد خان ہے۔ بی اے (امتیازی) اور ایم اے عمرانیات کی اسناد جامعہ کراچی حاصل کیں۔ جبکہ پی ایچ ڈی (تقابلی ادب) سین اینٹونیو ٹرینیٹی کالج ٹیکساس، امریکا سے حاصل کی۔
تمام ادبی تنقیدی نظریات، امریکی نیگرو شاعری اور لاطینی ادب کے تراجم، ادبی عمرانیات ،نئے مرکوز تخلیقی اور فکری تصورات و نظریات: پس رد تشکیل، ایبانک تنقید سابقہ نو آبادیاتی نیوکلیائی مخاطبہ، نئی نئی ساختیات، نو آبادیات، پس بالائی ساختیات۔
’’احمد سہیل کا انتقادی نظریہ اُردو کے دیگر ناقدین سے مختلف اور منفرد ہے وہ تنقید نگاری میں مناجیاتی تکنیک ضروری تصور کرتے ہیں۔ ان کی تنقید کا سفر جز سے کل اور کل سے جز کی سمتوں میں سفر کرتا ہے اور ایک امتزاجی نکتے پر تخلیقی تنقید خلق کرتا ہے۔ احمد سہیل نے امریکا میں اپنے عہد کے مشہور ماہر عمرانیات کے نظریہ دانوں اور ناقدین کی زیر نگرانی ’’نظریات‘‘ کا مطالعہ کیا۔ ان کی ادبی و نظریاتی تنقید میں عملیات اور نئی عقل پسندی کے محفوص فکری نظامیانے کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ ان کی تنقید میں تجربی، تجزیاتی، تقابلی اور عملی تنقید کے نمونے نظر آتے ہیں۔ جس میں عمرانیاتی اور بشریاتی آگہی کی جہات حاوی ہے۔ ان کی مناجیاتی رسائی تنقید کی نئی فکری استدلالیت کو دریافت کرتی ہے۔ احمد سہیل پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، آسٹریلیا، کنیڈا، اسپین، امریکا کے ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ کئی بین الاقوامی کانفرنسوں اور سمیناروں میں بھی شرکت کی ہے۔ ان کی شاعری کا سلسلہ شاہ نصیر، حیدر علی آتش، داغ دہلوی، سیماب اکبرآبادی اور صبا متھراوی سے ہوتا ہوا ان تک آیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : آغا سہیل کا یوم وفات
——
احمد سہیل کی شاعری اپنی جدید تر شعری حسیّات اور اداسی میں لتھٹری ہوئی یاسیت اوررجائی رموزیات سے بھری ہوئی ہے۔ جس میں تجربات، مشاہدات، تشکیک، استخراق، تمثالیت شعرانہ کلام میں نثری معنویت اور منفرد شعریات بھی خلق ہوتی ہے۔ ان کا شاعرانہ تجربہ نقطہ زمان سے تجربے اور جذبات کا وفور بہت حساس اور نازک ہے۔ ان کا شعری فہم تخیّل کا "عنصر فائق” ہے۔ اس میں علت ومعمول اور ذات کی واردات ان کی تخلیقیت کے حاوی فکری اور جمالیاتی مرکبات ہیں۔ احمد سہیل کے شعری وجدان کی کیفیت معاشرتی مزاحمت، تاریخ کی مشکوکیت، تہذیب اور ثقافتی بحران سے بے چینی کی کیفیت کی تاثر پذیری بھی ہے۔ احمد ہمیش نے لکھا ہے ۔۔۔ ” احمد سہیل کی نثری نظمیں اپنی موضوعی توسیع میں معروضی اسباب کی الٹی ہوئی بساط ظاہر کرتی ہیں۔ یہ بیک وقت ایک استہرئیہ بھی ہے۔ ” (” تشکیل”، کراچی، صفحہ 181، جنوری 93 تا جون 94)
ان کے اب تک کوئی سات سو مقالات مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔
اردو کے نقاد اور محقق ڈاکٹر عامر سہیل نے احمد سہیل کی نظر یاتی تنقید اور ان کے فکری ذہن کے متعلق لکھا ہے:
"ہمارے موجودہ اردو نقاد ادبی تھیوری کے مسائل میں اُلجھے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ”ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں” اس ادبی تھیوری اور ثقافتی تھیوری نے اردو تنقید میں ایسی ہلچل مچائی جس کا حاصل تاحال کنفیوژن کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ڈاکٹر احمد سہیل اس وقت اردو دنیا کے وہ واحد تھیورسٹ ہیں جنھوں نے اس تھیوری کو خالص مغربی تصورات کی روشنی میں پڑھا اور سیکھا نیز ان تمام بنیادی مآخذ تک رسائی حاصل کی جو ادبی تھیوری کی تفہیم میں کلیدی اہمیت کے حامل تھے۔اس حوالے سے ہمارا کوئی ادبی نقاد ان کی ہمسری کا دعوا نہیں کر سکتا۔ڈاکٹر صاحب نے ادبی تھیوری کے خدوخال واضح کرنے کے لیے جہاں سوشل میڈیا اور رسائل کا سہارا لیا وہاں ان کی کچھ مستقل تصانیف بھی اس موضوع کو واضح کرنے میں معاونت کرتی ہیں میرا اشارہ” ساختیات:تاریخ،نظریہ اور تنقید” اور تنقیدی مخاطبہ” کی طرف ہے۔یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں اس وقت دنیائے ادب میں فکشن اور تھیوری کے حوالے سے جو مباحث چل رہے ہیں ڈاکٹر صاحب نہ صرف ان کے تاریخی ارتقا و مضمرات سے واقف ہیں بلکہ ان پر ایک مجتہد کی نظر بھی رکھتے ہیں۔”
"ڈاکٹر احمد سہیل اردو ادب کی تنقید میں معدودے چند نقادوں میں شمار ہوتے ہیں، جنھوں نے امریکا میں بیٹھ کر اردو ادب کی خدمت اور ترقی و ترویج میں حصہ لیا۔ ان کے ابتدائی برس یہیں کراچی میں صرف ہوئے، لیکن اپنے کام کا زیادہ حصہ انھوں نے امریکا میں بیٹھ کر مکمل کیا۔ انھوں نے بلاشبہ اپنے تنقیدی مضامین سے جہاں اردو ادب میں نئی جہات کی تلاش میں مغرب کی تھیوریز کو اردوایا، بلکہ اپنی جدید شاعری (جس میں نثری اور آزاد نظموں کا زیادہ حصہ ہے) میں نئے تجربات کیے۔ وہ بیک وقت اپنی شاعری کے ساتھ دنیا بھر کے ادب، نیگرو اور لاطینی شاعری کو اردو میں منتقل کرتے رہے ہیں، لیکن ان کا اہم کام ان کے وہ تنقیدی مضامین ہیں ، جن پر عصری عہد میں مغرب میں کام ہوا اور انہی ادبی نظریات و تحریکات کو انھوں نے اردو میں رقم کیا اور اپنے عہد کے الگ اور منفرد تنقید نگار کا درجہ حاصل کیا۔احمد سہیل ادبی عمرانی نظریات، ساختیات، جدیدیت اور مابعد جددیت، پس نو آبادیاتی نظریات، ابونک نظریہ، اردو کا قبل از متن نظریہ و دیگر مغربی تھیوریز کو اپنے اردو مضامین اور کتب کے ذریعے قارئین تک پہنچا چکے ہیں اور مسلسل اس پر کام کر تے رہتے ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : حسرت موہانی کا یوم وفات
——
ان کے مضامین میں عصری نظریات کا تاریک اور روشن پہلو تنقید کی صورت نمایاں رہتا ہے ۔ وہ ایک بے باک تنقید نگار کی حیثیت سے بے لاگ تبصرے کرتے ہیں اور قارئین کو عالمی اور اردو ادب میں ہونے والے نئے تجربات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ان کی کئی ایک تصانیف جس میں نمایاں ’’جدید تھیٹر‘‘، ’’ساختیات، تاریخ، نظریہ اور تنقید‘‘ و دیگر کئی ایک کتب یہاں پاکستان اور ہندوستان سے اردو میں شائع ہو چکی ہیں ۔ زیر نظر تصنیف بھی ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے منطقی اشاریت و جدید شعری ابہام ، اردو کی کلاسیکی شاعری میں مغائرت، چھٹی دہائی کے بعد اردو غزل، اردو افسانے کا ناسٹیلجیا، اردو افسانے کی مناجیاتی ساخت اور مقولے کا مسٗلہ، امداد امام اثر کا تنقیدی نظریہ، بجنوری محاسنِ کلام غالب اور اس کے نقاد، خارجی اور باطنی آگہی سے دوچار شاعر، ن، م، راشد، میرا جی اور ترجمے کی تجرید جیسے نظریات اور نقد ونظر پر فکر انگیز گفتگو کی ہے۔ ادبی جریدوں کا مطالعہ کرنے والے، سائبر سپیس اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے قارئین اور بیشتر ادیب و شاعرو تنقید نگار انھیں اس بات پر بہت بخوبی جانتے ہیں کہ وہ اکثر اپنی بات کہنے کے لیے اصول ریاضی کے مروج طریق کار کو استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ گراف بنا کر قارئین تک اپنی بات پہنچا دیتے ہیں۔” { نعیم بیگ،تنقیدی تحریریں ، از احمد سہیل: تنقیدی دست و گریباں، ” ایک روزن” یکم دسمبر 2017}
"زبان کی چاشنی ،رواں انداز بیاں ،الفاظ کی درست املا ،الفاظ کا درست استعمال سے سجی تحریر یقینا آپ کو پسند ہو گی ۔لیکن کبھی ہم نے سوچا نہیں وہ افراد جو زبان و بیاں کی اصلاح میں زندگیاں گزار دیتے ہیں کس قدر قابل قدر ہیں ۔احمد سہیل صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اردو میں ادبی تنقیدی نظریے کے قاری کم ہیں۔ اس کی وجہ اس کی پیچیدگیاں، لفظیاتی، کشافی اور اصطلاحات سے خوف آتا ہے۔
اس لیے اس کا ادراک اور اس کی تفہیم کٹھن ہوجاتی ہے۔ اصل میں یہ کوئی پیچیدگی نہیں ہوتی جو قاری نہیں سمجھ پائے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ قاری ادب کو ”لطیف”اور صحافیانہ”انداز میں پڑھنے کا عادی ہے اور وہ اسے اسی انداز میں ہی سوچتا بھی ہے۔ اس میں قاری کا عدم مطالعہ، کاہلی، سستی، وسیع النظری کا فقدان اور فکری اغماّض ہوتا ہے۔
یہ عوامل سطحیت کو جنم دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ قراتی عمل سے دستبردار ہوکر پسپائیت اختیار کرلیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ متن کی قرات، اس کی ترجیحات اور قاری کا اپنی ذہنی استعداد اور اہلیت کو جانے بغیر اس میدان میں کود پڑنا بھی ہوتا ہے۔” {اردو ادب کے مشہور تنقید نگار، مححقق اور مترجم” از ۔اختر سردار چوہدری۔ اردو پوائنٹ ۔ پیر یکم جولائی 2019}۔
——
یہ بھی پڑھیں : احتشام حسین کا یوم وفات
——
*کینیڈا میں مقیم اردو کے شاعر اور ادیب ولی محمد شاہیں رقمطراز ہیں۔۔۔ "احمد سہیل صاحب اپنے عمیق مطالعے اور افہام و تفہیم کے پیچ و خم سے گزرتےہوئے بلندی اور پھیلاؤ دونوں انداز میں ادب ، ادب کی تحریکوں، متعلقہ شخصیات، اور علوم و فنون سے وابستہ تصورات سے روشناس کراتے ہیں-
وہ اپنی ذات میں ایک متحرک انجمن ہیں جو عمودی اور افقی فاصلے طے کرتی ہے اگرچہ زمین کی گردش کی طرح ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا-”
” سہیل صاحب۔ ایک نیا موضوع ایک انوکھا انداز پڑھنے والوں کے اذہان تک رسائی حاصل کرنے والا ایک دلکش اسلوب اور جدید فلسفیانہ خیالات رکھنے والی شخصیات کے نظریات کی شاندار تشریح۔ ماشاللہ آپ کے وسیع اور گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ آپ کی قلم اور تحریر کے ساتھ فکری اور گہری وابستگی آپ کے ذوق کی بھر پور عکاسی کرتی ہے بہت خوب لاجواب ۔ دعا گو ہوں کہ آپ کی تحریریں يوں ہی ہمیشہ دوسروں کے لیے باعث مسرت رہیں۔امین”
{فقیر گولڑہ شریف امین اللہ خان}
"احمد سہیل کی کتاب ’’ساختیات، تاریخ، نظریہ اور تنقید‘‘ ہے مگر پروفیسر ستیہ پال آنند نے صفحہ ۱۲ پر لکھا ہے، ’’یہ تنقید کی کتاب نہیں ہے۔‘‘ اس کے باوجود میں اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اردو زبان میں یہ پہلی مکمل کتاب ’’ساختیات‘‘ کے بارے میں ہے۔ اس میں بھی کم ازکم سو کتابوں کے حوالے مصنف اور کتابوں کی اشاعت کی تاریخیں دی گئی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس پر اب تک ہندوستان میں کہیں بھی تبصرہ نہیں ہواہے گوکہ پروفیسر آنند پروفیسر نارنگ کے ہم نوا ہیں۔ اس میں ترجمے کے ساختیاتی نظریے کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں بیشتر مفکرین اور اہم شخصیات کی مختصراً تعارفی زندگی بھی لکھی ہوئی ہے۔ یہی نہیں اس میں اردو کے ایک قدیم ڈرامے ’’گل بہ صنوبر چہ کرد‘‘ اور ساختیات کا باب بھی ہے۔ یہ ڈراما ۲۴ فروری ۱۸۹۰ء میں پہلی بار منچ پہ پیش کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا پلاٹ حاتم طائی سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب اردو قارئین کو ضرور پڑھنا چاہئے۔ { باقر مہدی ، ” تین رخی تنقیدی کشمکش "{ آخری قسط} یکم ستمبر 2020 ۔وائی اے آر۔ الف }
——
تصانیف
——
جدید تھیٹر، 1985، ثقافت پاکستان، اسلام آباد
ساختیات، 1999ء تاریخ نظریہ اور تنقید، نئی دہلی بھارت
تنقیدی تحریریں، 2004ء، ممبئی، بھارت
تنقیدی مخاطبہ، 2017ء، ممبئی بھارت
——
یہ بھی پڑھیں : آغا سہیل کا یوم پیدائش
——
منتخب کلام
——
شہر کو چھوڑ دو اور گاؤں کو جاؤ تم بھی
اس تعلق کے تکلف کو اٹھاؤ تم بھی
آگ جنگل میں بھڑک جائے گی کل شام تلک
آج بادل کو اداؤں سے لبھاؤ تم بھی
دوسرے چہرے مجھے کم ہیں رفاقت کے لیے
میری خاطر کوئی چہرہ تو سجاؤ تم بھی
میں کہیں سبزۂ خود رو کی طرح اگ آؤں
اور وہیں پھول کی صورت نکل آؤ تم بھی
میرے ہاتھوں میں ترے نام کی کوئی ریکھا
تیرے ہاتھوں میں نہ آئی ہو دکھاؤ تم بھی
چاند کو روک دیا میں نے ان ہاتھوں میں سہیلؔ
تم مجھے روک لو جادو یہ دکھاؤ تم بھی
——
جلتا تھا رات ہی سے دل یاسمن تمام
رخصت تھی صبح تک یہ بہار چمن تمام
جذبہ یہ رشک کا ہے اے عشاق کش مجھے
بازار سے خرید لئے ہیں کفن تمام
دل جل رہا ہے وحشت یاد غزال سے
روشن ہیں اس چراغ سے دشت و دمن تمام
مدت سے ہیں پڑے ہوئے چوکھٹ پہ یار کی
پامال ہو چکے ہیں مرے روح و تن تمام
کمزور ہے بہت دل بے ساختہ مرا
اور شہر میں حکومت یک بت شکن تمام
قتل بہار ہو گیا پھولوں کے دیس میں
غنچوں نے چاک چاک کئے پیرہن تمام
کس کی شب سیاہ بجھی کوہ طور پر
کس آفتاب حشر پہ آیا گہن تمام
——
ہر ایک آن وہ ہم سے جدا سا کچھ تو ہے
ہماری ذات کے اندر خدا سا کچھ تو ہے
وہ کیا ہے کچھ بھی نہیں اک ذرا سا کچھ تو ہے
کبھی دعا تو کبھی بد دعا سا کچھ تو ہے
لہو ہے برف ہے رقص شرر ہے کیا ہے یہ
یہ جسم و جاں میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
سمجھ سکا نہ کوئی اب تلک کہ وہ کیا ہے
وہ آئینہ نہ سہی آئینہ سا کچھ تو ہے
تمام رنگ وہ موسم اڑا گیا لیکن
کہیں تو شاخ پہ اب تک ہرا سا کچھ تو ہے
——
شکستہ دل ہیں مگر مسکرائے جاتےہیں
جہاں میں ایسے بھی انسان پائے جاتے ہیں
ہجومِ یاس میں اکثر سکونِ دل کے لیے
ہوا کے دوش پہ ایوان بنائے جاتے ہیں
تیرے وجود کی لو چل رہی ہے چاروں طرف
انہی سے گھر میں ستارے جلائے جاتے ہیں
یہی ہے شہر میں موضوعِ گفتگو اب تک
کہ یوں بھی نقش پرانے مٹائے جاتے ہیں
——
پتھر کا دل
——
محبت کو بد دعا نہ دو
جشن جدائی دل ناصبور کی تجدید ہے
بچھڑ جانا حادثہ ہے
شب دلبری تمہیں کھو دینے کا سوگ ہے
جہاں تقدیر کی تصویریں مٹا دی جاتی ہیں
محبت کا انکشاف کہانی بن کر
ہمیں برباد کر دیتا ہے
بے بسی ہمیں جدا کر دیتی ہے
محبت دلوں کے عقوبت خانے میں محفوظ رہتی ہے
جب کوئی محبت میں سسکا سسکا کر مار دیا جاتا ہے
جدائی کا صدمہ وہی جانتا ہے
جس کے خوابوں سے گلاب چھین لئے جاتے ہیں
خدا تمہیں میری یاد میں نہ ترسائے
تم میری سوچوں میں آباد رہو
سانحے آتے ہیں اور جاتے ہیں
جدائی کی ختم ہونے والی زندگی
محبت نہ ختم ہونے والا سفر ہے
ازل سے ابد تک خوابوں سے حقیقت تک
دل سے روح تک
دل سمجھوتہ نہیں کرتا
خواب باغی ہوتے ہیں
جیسے ہمارا صدیوں کا مرا ہوا لمحوں کا پیار
تنہائیوں میں راستے کہیں کھو جاتے ہیں
خوابوں کی سنسان گلیوں میں
ہاتھوں میں لئے پھرتا ہوں
آگ میں بجھا ہوا پتھر کا دل
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ