اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف ڈراما نگار ، حسن و عشق اور انقلاب کے شاعر الطاف مشہدی کا یومِ وفات ہے ۔

الطاف مشہدی(پیدائش 10 فروری 1914 – وفات 24 جون 1981 )
——
اختر شیرانی کے بعد ایک رومانی شاعر کے طور ابھرے۔ نہایت مقبول ڈرامہ نگار ، ادیب اور انقلابی شاعر الطاف مشہدی کی پیدائش 10 فروری 1914ء کو آلو مہار مشرقی سرگودھا میں ہوئی تھی۔ ان کا اصل نام سید الطاف حسین تھا اور ان کے والد کا نام سید علی حسین شاہ تھا۔ انہوں نے منشی فاضل پرائیوٹ طور پر پاس کیا تھا۔ زمینداری اور صحافت دونوں ذریعہ معاش تھے۔
24 جون 1981ء کو سرگودھا، پاکستان میں انتقال فرما گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : الطاف فاطمہ کا یوم پیدائش
——
دیباچہ از مسٹر کرشن چندر ۔ ایم ۔ اے
——
الطاف کی شاعری میں مجھے ایک نئے رنگ کی جھلک نظر آتی ہے ۔ وہ شاعری اور وہ رنگ جو متقدمین میں قطعاََ مفقود ہے ۔
اس سے میری مراد کسی شاعر کی تحقیر نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کہ ادب زندگی کی پیداوار ہے ۔ آج تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے شاعر یا ادیب نے ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہا جسے ” ادب برائے ادب ” کہا جا سکے ۔ یہ محض ایک خیالی ڈھکوسلہ ہے اور کچھ نہیں ورنہ دنیا کے ہر ایک ادب کا خمیر زندگی سے ہی اٹھا ہے ۔
ادب اچھا ہو سکتا ہے اور بُرا بھی ۔ اور اچھا یا بُرا ہونا بھی محض اضافی اصطلاحیں ہیں اور ادب کی اچھائی یا برائی کسی خاص زاویۂ نگاہ پر منحصر ہوتی ہے ۔
ادب کا منبع زندگی ہے اور اس کا منتہائے مقصود بھی زندگی ۔
الطاف مشہدی ادب میں سامراج پسندوں کی مخالف سمت میں کھڑا ہے ۔ اس کے جذبات کی ہیجانی کا ایک خاص رُخ ہے اور اس کے سرفروش جذبات میں وطنیت اور مزدور کی محبت جھانک کر ہندی عوام کو پیغامِ عمل دے رہی ہے ۔
——
نوجوانو تم کو اپنی زندگی کا واسطہ
مادرِ ہندوستان کی بے بسی کا واسطہ
واسطہ ناکتخداؤں کے پھٹے ملبوس کا
واسطہ افلاس کے روندے ہوئے ناموس کا
واسطہ اُن کا کہ فاقوں کی بدولت جو غریب
ہو رہے ہیں موت کے خونخوار جبڑوں کے قریب
برچھیوں سے قیصریت کے جگر کو چیر کر
مادرِ ہندوستان کی آبرو کی لو خبر
——
الطاف مشہدی اُن شاعروں سے کس قدر مختلف ہے جو ہر مصرعے میں انسانی اخوت اور مساوات کے راگ الاپتے ہیں ۔ اور اس طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اپنے آپکو ایک خاص جماعت کا حامی بنا لیتے ہیں ۔ الطافؔ نے جماعتی امتیاز کو اچھی طرح پہچان لیا ہے اور یہی پہچان اسے مجبور کیے دیتی ہے کہ وہ اپنی تمام تر تخلیقی قوتیں ” گل و بلبل ” کے بے سر و پا رجعتی راگ گانے کی بجائے دورِ مہاجنی کی چنگیزیوں کو عیاں کرنے میں صرف کر دے ۔
——
ہوش میں آ توڑ کر رکھدے غلامی کی کمند
ڈال آزادی کے میداں میں ترقی کا سمند
آ بدل دیں اُٹھ کے ہندی کی غلامانہ روش
آ کچل دیں زر کے بندوں کو کہ مٹ جائے خلش
آ کہ سفاکانہ فطرت کو ہی کر دیں ختم آج
آ کہ دنیا سے مٹا ڈالیں جفاؤں کا رواج
——
یہ بھی پڑھیں : الطاف علی بریلوی کا یوم وفات
——
وہ اس زندگی میں مساوات کا قائل ہے قبر میں نہیں ۔ اور جب اپنے ارادوں کو علی جامہ پہنتے ہوئے نہیں دیکھتا تو چیخ اُٹھتا ہے ۔
——
کس طرح مانوں میں ایسے قاضیٔ حاجات کو
خونِ بیکس کی حنا سے جو سجائے ہات کو
اس لیے مانوں کہ میری نوجوانی کی بہار
دم زدن میں اُس نے کر دی ہے خزاں سے ہمکنار
اس لیے مانوں کہ میری زندگی بھر کا رفیق
مونس و غمخوار و ہمدرد و بہی خواہ و شفیق
بیکسی کے زرد ہونٹوں کا پیالہ بن گیا
موت کے خونخوار جبڑوں کا نوالہ بن گیا
——
یا پھر جب کثرتِ آلام سے تھک جاتا ہے اور شدتِ احساس اور معاشی مصائب کا انبوہِ عظیم اس جان پہ بھاری ہو جاتا ہے تو اپنی مجبوریوں اور ناکامیوں کو مئے باقی کی تلخیوں میں گُم کرنا چاہتا ہے ۔
——
اس غلام آباد میں کچھ روز جینے کے لیے
دوست ہر خوددار ہے مجبور پینے کے لیے
الٰہی ! گر مجھے اس ہند میں کچھ روز جینا ہے
تو میری قوتِ احساس مُردہ ہو کے رہ جائے
دلِ خود دار بارِ ذلتِ افلاس سہہ جائے
جبھی میں رہ سکوں گا شاد محکوموں کی بستی میں
لیکن ہر سیاست عرصہ تک قائم نہیں رہتی
——
الفاط مشہدی کے کلام میں سوز اور درد ہے اور جوش اور ولولہ ۔ لیکن ان جذبات کی وسعت محبت ہی تک محدود نہیں ۔ اُس نے خود رہنے کے لیے محبت کا دائرہ وسیع کر لیا ہے ۔
بجائے ایک خیال یا اصلی محبوب کے اُسے عوام سے محبت ہے ۔ وہ ایک پھول سے محبت نہیں کرتا بلکہ سارے چمن سے ۔
اُسے ایک پھول کے مرجھا جانے سے افسوس نہیں ہوتا ۔ اسےافسوس تو یہ ہے کہ سارے چمن پر خزاں چھا گئی ہے ۔
الطاف مشہدی کی شاعری کھاتے پیتے متوسط طبقہ اور اُمرا کے لیے ہر گز مفید نہیں ہے ۔ اس میں گل و بلبل کے قصے ، عیش و نشاط کی طربناکیاں ، ہجر و وصال کی پر لطف رنگین داستانیں بہت کم ہیں ۔ الغرض اربابِ نشاط کی جنسی تسلی کا کوئی سامان نہیں ہے ۔
ہاں اس کی شاعری میں مزدوروں اور کسانوں کی تکالیف کا احساس شدت کے ساتھ موجود ہے ۔
اس کے نغموں میں مظلوموں کی حمایت کا چشمہ اُبل رہا ہے اور اس کے شباب کی سرمستیاں اور رعنائیاں وطنی جذبات کی لہروں کے ریلے میں مدغم ہو گئی ہیں ۔
وہ دورِ جدید کا شاعر ہے اور آنے والے انقلاب کی ہنگامہ خیزیوں کا علمبردار ۔
——
منتخب کلام
——
اے اہلِ بزم اور بھی ہاں اور بھی شراب
بس ایک گُونج باقی ہے تارِ رُباب میں
——
پھر دیار ہند کو آباد کرنے کے لئے
جھوم کر اٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے
——
الطافؔ داستانِ محبت ہے اور آنکھ
خاموش ہے زبان کہے جا رہا ہوں میں
——
کروٹیں لیتا ہے شب کو جب فضاؤں میں سرُور
نیند کی پریوں کو ہم آغوش جب پاتا ہوں میں
چپکے چپکے دوش پر مُرغِ تخیل کے سوار
آسمانوں سے ستارے توڑ کر لاتا ہوں میں
——
یہ بھی پڑھیں : خالق کے شاہکار ہیں خلقت کے تاجدار
——
جہانِ تلخ میں جو لذتِ گناہ نہ ہو
لبوں کی ساغرِ مے کی طرف نگاہ نہ ہو
شرابِ ناب کے چھلکے ہوئے سبُو کی قسم
بشر کا زیست سے اک آن بھی نِباہ نہ ہو
——
مرے افکار کی قندیل سے کونین روشن ہیں
مرے تخیل سے شمس و قمر نے ہے ضیا پائی
——
وادیٔ حسن ہے دامن کو بچا کر الطافؔ
دیدۂ دل پہ ذرا پردہ گرا کر الطافؔ
——
زندگی پردہ دارِ غم نہ ہوئی
ہر طرح آزما کے دیکھ لیا
——
آ چل کے بسیں ہمدم دیرینہ کہیں اور
میں ڈھونڈھ نکالوں گا فلک اور زمیں اور
بچتی ہوئی نظروں سے ٹپکتے ہیں فسانے
ایجاد تکلم کی ہوئی طرز حسیں اور
گلہائے تبسم پہ نظر ڈالنے والے
ان ہونٹھوں میں پنہاں ہیں کئی خلد بریں اور
ضو بار و درخشاں ہے یہ انوار خودی سے
سجدوں کی سیاہی کو ہے مطلوب جبیں اور
اک اشک میں تبدیل ہوا اپنا سراپا
کچھ مانگ لے الفت سے مری جان حزیں اور
زلفوں کو ذرا اور بھی آنکھوں پہ جھکا دو
میخانے سے بادل کو کرو کچھ تو قریں اور
الطافؔ مجھے جس نے دیا درد محبت
اس آنکھ میں کیا ایسی کوئی چیز نہیں اور
——
غم سے معمور ہواؤں سے لپٹ کر رو لوں
ان المناک فضاؤں سے لپٹ کر رو لوں
کون بازار میں اس جنس کا گاہک ہو گا
آپ ہی اپنی وفاؤں سے لپٹ کر رو لوں
پھر خدا جانے کہاں کیسی بہاریں گزریں
باغ کی مست ہواؤں سے لپٹ کر رو لوں
جامِ مے ، ابر ، گلستاں ، مگر آغوش تہی
جی میں آتا ہے گھٹاؤں سے لپٹ کر رو لوں
جن کی دنیا میں مہ و مہر نہیں ہوتے طلوع
ایسے بیمار خداؤں سے لپٹ کر رو لوں
ان کے دامن پہ نہیں حرص و ہوا کے دھبے
تیرے کوچے کے گداؤں سے لپٹ کر رو لوں
رات کے بعد سحر ہوتی ہے الطافؔ اگر
کیوں نہ میں ان کی جفاؤں سے لپٹ کر رو لوں
——
دل کو ہے عشق کا آزار چلا جاؤں گا
تیری بستی سے میں بیمار چلا جاؤں گا
چھن گئی جن سے ترے سایوں کی ٹھنڈی چھاؤں
دُور ان گلیوں سے ناچار چلا جاؤں گا
جس کا حاصل ہے فقط چند گُھٹی سی سانسیں
ایسے جینے سے ہوں بیزار چلا جاؤں گا
پڑھ کے ماتھے پہ ترے آگ اگلتی شکنیں
وادیٔ زیست کے اُس پار چلا جاؤں گا
اُونگھنے والی نگاہوں سے چُرایا تھا جنہیں
ہو کر ان خوابوں سے بیدار چلا جاؤں گا
حوصلے آہ بلب اور ارادے بیمار
اب مرا کون ہے غمخوار چلا جاؤں گا
نطق پر پہرے ہیں الطافؔ لبوں پر تالے
جبر ہے درپئے آزار چلا جاؤں گا
——
وطن آزاد کرنے کے لیے
——
ہند کا اجڑا چمن آباد کرنے کے لئے
درد کے مارے ہوؤں کو شاد کرنے کے لئے
اک نیا عہد جہاں آباد کرنے کے لئے
قصر استبداد کو برباد کرنے کے لئے
جھوم کر اٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے
صفحۂ ہستی سے باطل کو مٹانے کے لئے
خرمن اعدا پہ اب بجلی گرانے کے لئے
اہل زر کی بے کسی پر مسکرانے کے لئے
یعنی ارواح‌ سلف کو شاد کرنے کے لئے
جھوم کر اٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے
پھر سے بھڑکاؤ دلوں میں غیرتوں کی آگ کو
رزم کی جانب بڑھاؤ جرأتوں کی باگ کو
پاؤں کے نیچے کچل دو سیم و زر کے ناگ کو
زندگانی کو سراپا شاد کرنے کے لئے
جھوم کر اٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے
مستئ صہبائے آزادی سے لہراتے چلو
ابر کی صورت بلند و پست پر چھاتے چلو
قہقہوں سے لیلیٔ مغرب کو شرماتے چلو
پھر دیار ہند کو آباد کرنے کے لئے
جھوم کر اٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے
——
حوالہ جات
——
تحریر : کرشن چندرؔ از تصویرِ احساس ، مصنف : الطاف مشہدی
شائع شدہ 1939 ، صفحہ نمبر 13 تا 21
شعری انتخاب از داغ بیل ، تصویرِ احساس : متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ