اردوئے معلیٰ

Search

آج پنجابی زبان کی نامور شاعرہ ، مسلمہ ادیبہ اور افسانہ نگار امرتا پریتم کا یومِ وفات ہے۔

امرتا پریتم(پیدائش: 31 اگست 1919ء – وفات: 31 اکتوبر 2005ء)
——
امرتا پریتم گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کی سو سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں شاعری کے علاوہ کہانیوں کے مجموعے، ناول اور تنقیدی مضامین کے انتخابات بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان کے بٹوارے پر ان کے ایک ناول پنجر پر اسی نام سے فلم بھی بن چکی ہے۔ وہ بھارتی ایوان ِ بالا کی رکن رہی ہیں اور انہیں پدم شری کا اعزاز بھی حاصل ہو ا اس کے علاوہ انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور دیگر اعزازات بھی حاصل ہو ئے جن میں پنجابی ادب کے لیے گیان پیتھ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
——
امِرتا پریتم کی یاد میں از سید امتیاز الدین
——
پنجابی اور ہندی کی نام ور ادیبہ اور اردو شعرو ادب کی دلدادہ امرتا پریتم 31 اکتوبر 2005 کو اس زندگی سے جسے وہ پنجرہ سمجھتی تھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لۓ آزاد ہو گئیں۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 86 سال تھی۔ 2002ء میں اپنے گھر میں ہی گرنے سےان کے کولھے کی ہڈّی ٹوٹ گئی تھی جو آپریشن کے باوجود ٹھیک نہ ہو سکی اور وہ آخری سانس تک فریش رہیں۔ امِرتا اتنی تکلیف میں تھیں کہ ان کے چاہنے والے دعا کرنے لگے تھے کہ اس تکلیف سے ان کو جلد نجات ملے۔ امِرتا کو سردیوں کا موسم پسند نہیں تھا کیوں کہ اس موسم میں ان کے جوڑوں کا درد اور بڑھ جاتا تھا۔اتّفاق سے جب ان کا انتقال ہوا تو دلیّ میں سردیوں کی آمد آمد تھی۔
——
یہ بھی پڑھیں : ساحر لدھیانوی کا یومِ وفات
——
امرتا پریتم 31 اگست 1919 کو پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ گجرانوالہ اب پاکستان میں ہے۔ تقسیم کے بعد امِرتا کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا جس کا رنج انھیں تا عمر رہا۔ یہی کرب ان کی تحریروں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ امِرتا بہت خوب صورت تھیں۔ ان کی ابتدائی تربیت ایک انتہائی مذہبی گھرانے کی سکھ لڑکی کی طرح ہوئی۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں وہ اپنے والد کے ساتھ لاہور آئیں اور یہیں ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1936 میں ’امرت لہریں‘ کے نام سے شائع ہوا۔
امرتا پریتم کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر لاہور کے انار کلی بازار کے ایک تاجر نے اپنے بیٹے پریتم سنگھ سے ان کی شادی کر دی۔اس شادی کی یادگار ایک لڑکا ہے۔ تقسیم کے بعد امِرتا اور پریتم سنگھ دہلی آ گئے۔ پریتم سنگھ نے تجارت شروع کی لیکن ناکام رہے۔ امِرتا نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کر لی اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1960 میں امِرتا نے پریتم سے طلاق حاصل کر لی لیکن شوہر سے انھوں نے بچے کے سوا کچھ طلب کرنا پسند نہیں کیا۔
1961 میں انھوں نے ملازمت چھوڑ دی اور شعرو ادب کی ہو کر رہ گئیں۔ انھوں نے اپنا رسالہ ناگ منی جاری کیا جسے وہ پینتیس برس تک نکالتی رہیں۔ تریل دھوت پھول، او گیتاں والیا، باولاں دی لالی، لوک پگرے، پنجابی دی آواز، سنہرے، اشوکا چھیتی، کستوری، ناگ منی، چک نمبر چھتّی، کاغذتے کیا نواس، کچی سڑک، انچاس دن ان کے شعری مجموعے ہیں۔ ان کا ناول پنجر اور سوانح عمری رسیدی ٹکٹ بہت مقبول ہوۓ۔ الف لیلہ ہزار داستان ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ امِرتا پریتم کو 1957 میں ساہتیہ اکیڈیمی اوارڈ دیا گیا اور 1969 میں انھیں پدم شری سے نوازا گیا۔ پچھلے سال ہی ان کو پدم وبھوشن کا خطاب دیا گیا تھا۔ 1982 میں ان کو ملک کا سب سے بڑا ادبی اعزاز گیان پیٹھ اوارڈ دیا گیا۔ فرانس اور بلغاریا کی حکومتوں نے انھیں 1987اور 1988 میں بالترتیب انعام دیا، ملک کی پانچ یونیورسٹیوں نے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی۔
خوشونت سنگھ نے ان مکے ناول پنجر کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا ۔ خوشونت سنگھ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب کی رایلٹی امِرتا کو اس شرط پر دینے کا وعدہ کیا تھا کہ امِرتا اپنے عشق کی داستان انھیں سنائیں۔ امِرتا نے وعدہ نبھایا بھی لیکن خوش ونت سنگھ کو یہ داستاں بہت مختصر لگی۔ انھوں نے امِرتا سے کہا کہ آپ کی داستان حیات تو بس ایک ڈاک ٹکٹ پر لکھی جا سکتی ہے۔ خوشونت کا خیال ہے کہ ان کی اس بات پر ہی انھوں نے اپنی سوانح کو ’رسیدی ٹکٹ‘ کا نام دیا تھا۔
امرتا پریتم کئی بار اپنی تحریروں کی بے باکی کے باعث پریشانیوں کا شکار ہوئیں۔ ایک بار ہندی کہانی کار کرشنا سوبتی نے ان پر مقدمہ کر دیا کہ امِرتا کی ایک کتاب جو ایک انقلابی کے بارے میں تھی، اس کا نام بھی امِرتا نے زندگی نامہ رکھا تھا جو کرشنا سوبتی کی سوانح عمری کا نام بھی تھا۔ کرشنا سوبتی نے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا یہ مقدمہ دائر کیا تو خوش ونت سنگھ امرتا کی طرف سے عدالت سے رجوع ہوۓ۔ وہ اپنے ساتھ ایک درجن فارسی کتابیں لے گۓ جن کا نام ’زندگی نامہ‘ تھا۔ انھوں نے عدالت کو بیان دیا کہ کئی برس پہلے گرو گوبند سنگھ کی سوانح بھی ااسی نام سے لکھی گئی تھی۔ زندگی نامہ فارسی کی ایسی عام اصطلاح ہے کہ اسے کاپی رائٹ نہیں کیا جا سکتا۔ جج نے امِرتا کے حق میں مقدمہ خارج کر دیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : میاں محمد بخش کا یوم وفات
——
اردو شعر و ادب سے انھیں گہرا لگاؤ تھا۔ وہ ساحر لدھیانوی کی شاعری اور شخصیت دونوں سے متاّثر تھیں اورت انھوں نے ساحر کے بارے میں اپنے جذبات کسی سے مخفی نہیں رکھے۔ امِرتا کے بیٹے نے ان سے پوچھا۔’ لوگ کہتے ہیں کہ میں ساحر انکل کا بیٹا ہوں‘۔ امِرتا نے جواب دیا۔ ’کاش تم ساحر کے بیٹے ہوتے‘۔
امِرتا پریتم پاکستان کے ادیبوں شاعروں میں بھی بہت مقبول تھیں۔ پاکستانی شاعرہ سارہ شگفتہ کو وہ بہت عزیز رکھتی تھیں۔ انھوں نے سارہ کے لۓ ناگ منی کا خصوصی شمارہ بھی نکالا۔ ذہنی طور پر نا آسودہ اس شاعرہ کو امِرتا نے بہت دلاسہ دیا لیکن یہ بد نصیب شاعرہ جب پاکستان واپس گئی تو اس نے ریل کی پٹریوں پر لیٹ کر خود کشی کر لی۔ فلم ’پنجر‘ جسے چندر پرکاش دویدی نے امِرتا کی کتاب پر بنایا تھا، ایک ایسا گیت استعمال کیا جانا تھا جو پاکستانی شاعرہ زہرہ نگاہ کا لکھا ہوا تھا۔ ان دنوں کارگل کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ ان حالات میں بھی فلم ساز نے زہرہ نگاہ سے ربط پیدا کیا تو انھوں نے کہا کہ ار یہ گیت امِرتا پریتم کی فلم کے لۓ ہے تو اسے میری طرف سے تحفہ سمجھۓ۔
امرتا پریتم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جیوتی سبھروال سے کہا تھا کہ ’میری تحریروں کا انتخاب بھی تم ہی مرتب کرو اور اس کا نام ’نواں پھول‘ رکھو۔‘ جب سبھروال نے ان سے پوچھا کہ ’نویں پھول سے آپ کی مراد کیا ہے‘ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’پوجا میں دیوی دیوتاؤں کے لۓ آٹھ پھول چڑھاۓ جاتے ہیں۔ میں یہ نواں پھول الفاظ کی نذر کر رہی ہوں جن سے میری تحریریں معنی کا لباس بنتی ہیں۔‘
امرتا پریتم بہت منکسر المزاج تھیں۔ اپنے انعامات بھی وہ ڈرائنگ روم میں سجا کر نہیں رکھتی تھیں۔ وہاں ان کے رفیق حیات امروز کی پینٹنگس لگی تھیں۔ امِرتا نے کبھی انعامات کے حصول کی کوشش بھی نہیں کی حالاں کہ اندرا گاندھی انھیں بے حد عزیز رکھتی تھیں۔ ایک بار اندرا جی نے ان سے کہا تھا کہ میں خود کو بہت تنہا محسوس کرتی ہوں۔ امِرتا نے جواب میں بڑی بے باکی سے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ خود غرض لوگوں سے گھری ہوئی ہیں۔
امرتا پریتم کو حقیقی محبت امروز سے تھی جو ان کے رفیق حیات تھے۔ امِرتا کی کتابوں کے سرورق بھی انھوں نے بناۓ ہیں۔ امروز امِرتا کے عاشق، رفیق، خدمت گار، چارہگر، نگہبان سبھی کچھ تھے۔ انھوں نے آخر وقت تک امِرتا کی خدمت کا حق ادا کیا۔
اپنی سوانح عمری کی دوسری قسط ’الفاظ کے ساۓ‘ میں وہ کہتی ہیں:
——
’’آج میں کنارے کو چھوڑ کر دریا میں اترنا چاہتی ہوں
اور اس دریا کو عبور کر کے سدارے سوالوں کے جواب کھوجنا چاہتی ہوں
شاید ان سوالں کے جوابوں میں میرے دکھ کا مداوا ہے‘‘
——
یہ بھی پڑھیں : استاد دامن کا یومِ پیدائش
——
آج یہ بے مثال شاعرہ اپنے سوالوں کا جواب ڈھونڈھنے کے لۓ بہت دور نکل گئی ہے۔
——
منتخب کلام
——
میں تینوں فیر ملاں گی
کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نہیں
شاید تیرے تخیل دی چھنک بن کے
تیرے کینوس تے اتراں گی
یا ہورے تیرے کینوس دے اُتے
اک رہسمئی لکیر بن کے
خاموش تینوں تکدی رواں گی
یا ہورے سورج دی لو بن کے
تیرے رنگاں اچ گھُلا گی
یا رنگاں دیاں باہنواں اچ بیٹھ کے
تیرے کینوس نو ولاں گی
پتا نئیں کس طرح، کتھے
پر تینوں ضرور ملاں گی
یا ہورے اک چشمہ بنی ہوواں گی
تے جیویں جھرنیاں دا پانی اڈ دا
میں پانی دیاں بُونداں
تیرے پنڈے تے مَلاں گی
تے اک ٹھنڈک جئی بن کے
تیری چھاتی دے نال لگاں گی
میں ہور کج نئیں جاندی
پر اینا جاندی آں
کہ وقت جو وی کرے گا
اے جنم میرے نال ٹُرے گا
اے جسم مُکدا اے
تے سب کج مُک جاندا
پر چیتیاں دے تاگے
کائناتی کنا دے ہوندے
میں انہاں کنا نو چناں گی
تاگیاں نو ولاں گی
تے تینوں میں فیر ملاں گی
——
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُوں لکھ لکھ مارے بین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتا اے زہر ملا
تے اونہاں پانیاں دھرت نوں دتا زہر پلا
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون
اج پریت دیاں شہزادیاں ، وچ مزاراں رون
اج سبھے قیدی بن گئے، حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائیے لب کے، وارث شاہ اک ہور
——
افسانہ شاہ کی کنجری سے اقتباس
——
سامنے۔۔۔ اس نے ہر ے رنگ کا لہر دار غرارہ پہنا ہوا تھا۔ گلے میں سوہے لال رنگ کی قمیض تھی۔ اور سر سے پاؤں تک ڈھلکتی ہرے رنگ کی چنری۔ ایک جھلمل سی ہوئی۔ شاہنی کو ایک پل کے لیے تو ایسے ہی لگا جیسے ہرا رنگ سارے دروازے میں بھر گیا ہو، بکھر گیا ہو۔۔۔
پھر کچ کی چوڑیوں کی چھن چھن ہوئی۔ تو شاہنی نے دیکھا۔ ایک گورا گورا ہاتھ اٹے ہوئے ماتھے سے چھوکر اسے سلام دعا سا کچھ کہہ رہاتھا۔ اور ساتھ ہی ایک کھنکتی آواز، ’’بڑی مبارکاں شاہنی۔۔۔ بہت مبارکاں۔۔۔‘‘
وہ بڑی پتلی چھمک سی تھی۔۔۔ شاہ بھی تھا، اس کے دوست بھی تھے۔ رشتہ داروں میں سے کچھ مرد بھی تھے۔ اس چھمک چھبیلی عورت نے اس کونے کی طرف دیکھتے ہوئے بھی ایک بار سلام کیا اور پھر دوسری طرف گاؤتکیے سے ٹیک لگائے ٹھمکتی ہوئی بیٹھ گئی۔ بیٹھتے وقت اس کی کانچ کی چوڑیاں پھر کھنک اٹھیں۔ شاہنی نے ایک بار پھر اس کے بازوؤں کی طرف دیکھا۔ اس کی ہری کانچ کی چوڑیوں کی طرف بھی۔ اور پھر وہ سہج سبھاؤ سے اپنے بازوؤں میں پڑے سونے کے چورے کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
کمرے میں ایک چکاچوند سی چھاگئی۔ ہر ایک کی نگاہیں صرف ایک طرف کو ہی جھک گئیں۔ شاہنی کی آنکھیں بھی، لیکن صرف اپنی آنکھوں کو چھوڑ کر باقی سب کی آنکھوں پر اسے غصہ ساآگیا۔ وہ ایک بار پھر کہنا چاہتی تھی، ’’نی بدشگنی کیوں کرتی ہو؟ گھوڑی کے گیت گاؤنا۔‘‘ لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں رک گئی۔ کمرے میں ایک چپ سی چھاگئی۔ وہ کمرے کے بیچوبیچ پڑی ڈھولکی کی طرف دیکھنے لگی۔ اور اس کا دل کیا کہ وہ بڑے زور سے ڈھولک بجائے۔
خاموشی اسی نے توڑی۔ جس کی وجہ سے خاموشی چھائی تھی۔ کہنے لگی۔ میں تو سب سے پہلے گھوڑی گاؤں گی۔ لڑکے کا شگن کروں گی، کیوں شاہنی؟ اور شاہنی کی طرف دیکھتے اور ہنستے ہوئے گھوڑی کا گیت شروع کردیا،
چھوٹی چھوٹی بوندیں
بیٹا مینہ رہے برسے
تیری ماں رہے سہاگن
تیرے شگن کرے۔۔۔
شاہنی کو اچانک کلیجے میں ٹھنڈسی پڑگئی۔ شاید اس لیے کہ گیت میں آنے والی ’’ماں‘‘ وہی ہے اور اس کا مرد بھی صرف اسی کا مرد ہے۔ تبھی تو ماں سہاگن ہے۔۔۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ