اردوئے معلیٰ

Search

آج استاد شاعر بہزاد لکھنوی کے پوتے عزم بہزاد کا یوم پیدائش ہے۔

عزم بہزاد(پیدائش: 31 دسمبر، 1958ء- وفات: 4 مارچ، 2011ء)
——
عزم بہزاد پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے معروف شاعر تھے۔ ان کا اصل نام مختار احمد تھا۔وہ 31 دسمبر 1958ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد افسر بہزاد بھی کراچی کے ممتاز شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے دادا کا نام بہزاد لکھنوی تھا جو اردو کے مشہور شاعر تھے۔ عزم بہزاد کی شاعری کا مجموعہ تعبیر سے پہلےکے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔ان کا انتقال 4 مارچ 2011ءکو کراچی میں ہوا۔ وہ محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی میں آسودہ خاک ہیں۔
——
دل میں ٹھہرنے والے ۔ عزم بہزاد​
——
عہدِ طفلی میں جب اسکول کی اسمبلی میں اقبال کی دعا "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری” پڑھی جاتی تھی تو میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ زندگی شمع کی صورت کیوں اور کیوں کر ہوسکتی ہے اور کامیاب زندگی کے استعارے کے لئے شمع کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا۔ اس وقت تو یہ باتیں بتانے والا کوئی نہیں تھا لیکن آہستہ آہستہ اقبال کی اس دعا کے مفاہیم آشکار ہوتے رہے اور آج بھی جب خاکسار اس حرفِ شکستہ کے توسط سے محترم عزمؔ بہزاد صاحب سے اپنے تعلقِ خاطر کے اظہار کی سعی کر رہا ہے تو عزم بھائی کےحوالے سے ذہن میں آنے والا پہلا خیال "شمع کی صورت زندگی ” کا ہی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : پاک ہوتی ہے زباں تو شاد ہو جاتا ہے دل
—–
آج سے چند برس پہلے ایک شام جب میں اپنے عمزاد بھائی اور استاد محترم عبید الرحمٰن عبیدؔ کے ساتھ محوِ گفتگو تھا تو اُنہوں نے عزم بہزاد اور لیاقت علی عاصمؔ کا ذکر بہت محبت سے کیا اور اُن کے کچھ اشعار بھی سُنائے۔ عبید بھائی کی زبانی عزم بھائی کی معروف غزل "میں عمر کے رستے میں چپ چاپ بکھر جاتا” کے کچھ اشعار سن کر بہت لطف آیا، عبید بھائی نے اس غزل کا پس منظر بھی بتایا ۔ بس یہیں سے خاکسار عزم بہزاد ؔ کی شاعری کے سحر میں گرفتار ہوگیا اور آج بھی ہے۔ پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ عزم بھائی انٹرنیٹ پر اردو کی خوبصورت محفل، محفلِ سخن پر بھی جلوہ افروز ہونے لگے اور اس طرح مجھ ایسے طفلِ مکتب کو بھی عزم بھائی کی محبت اور رہنمائی کی دولت ہاتھ آگئی ۔
جب تک عزم بھائی سے راہ و رسم نہیں تھی میرا اُن کا رشتہ ایک قاری اور اس کے پسندیدہ شاعر کا رشتہ تھا ، مختلف ذرائع سے عزم بھائی کا کلام پڑھ کر میں اُن کی شاعری کاگرویدہ ہو چکا تھا لیکن جب عزم بھائی سے راہ و رسم بڑھی اور اُن سے گفتگو اور ملاقات ہوئی تب مجھے اندازہ ہوا کہ عزم بہزاد کی خوبصورت شاعری کے پس منظر میں رہنے والی شخصیت اس سے کہیں زیادہ متاثر کن اور دل موہ لینے والی ہے۔ عزم بھائی بے حد محبت کرنے والے اور انتہائی شفیق انسان تھے۔ لہجہ بہت دھیما ، بہت میٹھا اور انداز ہمیشہ سمجھانے والا ۔
عزم بہزاد بھائی سے میری ملاقاتیں تو بہت کم رہیں لیکن محفلِ سخن کے توسط سے اُن سے گفتگو کا سلسلہ ضرور رہا یہ گفتگو زیادہ تر محفل کے اراکین (بشمول خاکسار) کے کلام پر ہوتی تھی یا کبھی کبھی ذاتی پیغامات کے ذریعے۔ عزم بھائی کسی بھی دوست کے کلام کے محاسن پر خصوصی توجہ دیتے تھے اور اچھے کلام پر دل کھول کر داد دیا کرتے تھے لیکن جہاں کہیں اصلاح اور بہتری کی گنجائش نکلتی اُس کی نشاندہی ضرور کرتے تاہم اصلاح میں بھی عزم بھائی کا انداز اتنا نرم اور عاجزانہ ہوتا کہ کسی کو بھی گراں نہیں گزرتا تھا۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے عزم بھائی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ساتھ ساتھ میری نالائقی بھی کہ میں عزم بھائی کی محافل سے بہت ہی کم فیضیاب ہو سکا۔
——
یہ بھی پڑھیں : زنجیر کس کی ہے کہ قدم شاد ہو گئے
——
جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا عزم بہزاد بھائی کا مزاج شمع کی مانند زندگی والا ہی تھا، سب کے لئے مشعلِ راہ اور اپنی جان گھلانے والا۔ اُن کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ نوجوان شاعر بہتر سے بہتر لکھنے کی کوشش کریں اسی لئے وہ رہنمائی اور مثبت تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور صرف ستائشِ باہمی کے لئے منعقد کی جانے والی محافل کے بے حد خلاف تھے۔ نئے آنے والوں سے اُن کا رویّہ کیسا تھا اس کی ایک جھلک آپ کو اُن کی اس نظم میں ملے گی۔
——
مجھے تم سے محبت ہو گئی تھی
کہ تم اپنے اکیلے پن کا دکھ لے کر
مرے رستے میں آئے تھے
تمھاری آنکھ سے تنہائی کا آزار بہتا تھا
سو میں نے تم کو اُن چہروں کی قربت بخش دی
ایسے مناظر تم پہ روشن کردئیے
جن پر بصارت ناز کرنے کے بہانے ڈھونڈ تی ہے
تمھاری گفتگو مایوس سناٹوں کا جنگل تھی
سو میں نے تم کو ایسی محفلوں کی اولیں صف میں بٹھایا
ایسے لوگوں سے ملایا
جہاں ہونٹوں کی جنبش نو جواں قصوں میں ڈھلتی ہے
قہقہوں کی رسم چلتی ہے
تمھیں اپنی سماعت سے بھی شکوہ تھا
کہ تم نے نغمگی کے دن نہیں دیکھے
حرف کو آواز کے پہلو میں خوابیدہ نہیں پایا
سو میں بھی گنگاتی صبح کی مانند لہجوں کو
تمھارے ذوق کی محروم خلوتوں میں بلا لایا
کئی رس گھولتی شامیں تمھاری روح میں بیدار کر ڈالیں
مگر ہونا وہی تھا
مگرہونا وہی تھا
جو تعلق جوڑنے والوں کا دیرینہ مقدر ہے
گذشتہ رات تم نے مجھ کو بے مصرف سمجھ کر
پنے ہنگاموں کی جانب ہی نظر رکھی
لہٰذا اب اجازت دو
مرے رستے کی جانب غور سے دیکھو
وہ دیکھو ایک درماندہ مسافر
میری قربت کے لئے بے چین لگتا ہے
تم اس کی آنکھ سے تنہائی کا آزار بہتا دیکھ سکتے ہو
اور اس کی گفتگو مایوس سناٹوں کا جنگل ہے
اسے اپنی سماعت سے بھی شکوہ ہے
مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے
——
اس نظم کا انجام شاید کچھ لوگوں کے لئے عجیب ہو لیکن اگر شمع کی مانند زندگی والی بات ذہن میں رکھی جائے تو یہی فطری انجام ہے۔ یہ ہی اچھے لوگوں کی پہچان ہے کہ وہ چاہیں بھی تو بھلائی کرنا نہیں چھوڑ سکتے۔ کیا خوب کہا ہے غلام محمد قاصر صاحب نے کہ:
——
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
——
یہ بھی پڑھیں : بہم جو دست و گریباں یہ بھائی بھائی ہے
——
عزم بہزاد بھائی کیسے تھے ؟ کیا سوچتے تھے ؟ کیا خیالات تھے، کتنے مجلسی اور کتنے تنہائی پسند تھے یہ بات تو وہ لوگ ہی بتا سکیں گے جو اُن کے بہت زیادہ قریب تھے لیکن اس سے کہیں زیادہ اُن کی شاعری اُن کے بارے میں بتاتی ہے۔ وہ کیا سوچتے تھے۔ کتنے مجلسی تھے ،کتنے تنہائی پسند تھے، اقدار سے کتنی محبت تھی، روایت سے کتنا لگاؤ تھا اور روایت میں رہتے ہوئے جدت کے کیا انداز تھے۔ساتھ ساتھ مختلف سماجی معاملات پر اُن کے ہاں کیا ردِ عمل رہا۔ یہ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کہ سچی شاعری شاعر کے دُروں کی آئنہ دار ہوتی ہے ۔ اُن کے کچھ شعر دیکھتے ہیں۔
——
مجھے کل اچانک خیال آگیا آسماں کھونہ جائے
سمندر کو سر کرتے کرتے کہیں بادباں کھو نہ جائے
——
تہذیبِ غم کے ساتھ عزم بھائی کی وابستگی دیکھیے کہ یہ ایک شاعر کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتی ہے۔
——
یہ ہنستا ہوا شور سنجیدگی کے لیے امتحاں ہے
سو محتاط رہنا کہ تہذیبِ آہ وفغاں کھو نہ جائے​
——
دوستوں سے محبت کا انداز:
——
میں اپنے ارادوں کی گٹھری اٹھائے کہیں جا نہ پایا
ہمیشہ یہ دھڑکا رہا محفلِ دوستاں کھو نہ جائے​
——
اُن کی محافل کا ایک عکس:
——
یہ قصّوں کی رم جھم میں بھیگا ہوا حلقہِ گفتگو ہے
یہاں چپ ہی رہنا کہ تاثیرِ لفظ و بیاں کھو نہ جائے
——
اور یہ نصیحت نئے آنے والوں کے لئے۔
——
یہ بازار ِ‌نفع و ضرر ہے یہاں بے توازن نہ ہونا
سمیٹو اگر سود تو دھیان رکھنا زیاں کھو نہ جائے
——
کچھ اور اشعار دیکھیے:
——
میں خزاں کا آئینہ تھا اپنی ویرانی سے خوش
تم نے مجھ میں باغ ڈھونڈا، میرا صحرا جل گیا
——
خواب میں دیکھا تھا خود کو راکھ ہونے کے قریب
نیند سے چونکا تو باہر کا تماشا جل گیا
——
حکم تھا آنکھیں کھلی رکھّوں کہ شمعیں بجھ نہ جائیں
میں بھی اس خوبی سے جاگا جس نے دیکھا جل گیا
——
اور کچھ اشعار دیکھیے:
——
یہ رفتگاں کا نوحہ ہے، وہ جو ہر حال میں اعلٰی اقدار کی بقا کے لئے کوشاں رہے۔
——
کہاں گئے وہ لوگ جنہیں ظلمت منظور نہیں تھی
دیا جلانے کی کوشش میں‌خود جل جانے والے
——
ایک بار خاکسار نے عزم بہزاد بھائی سے محفلِ سخن میں عدم حاضری کی بابت دریافت کیا تو اُنہوں نے فراق گورکھپوری کا یہ خوبصورت شعر سنایا:
——
ماتم کی انجمن ہو کہ بزمِ نشاط ہو
شامل ہیں اک ادائے کنارہ کشی سے ہم
——
یہی رنگ آپ کو عزم بھائی کے ان شعروں میں بھی نظر آئے گا۔
——
کسی تماشے میں رہتے تو کب کے گم ہوجاتے
اک گوشے میں رہ کر اپنا آپ بچانےو الے
——
ہمیں کہاں ان ہنگاموں میں تم کھینچے پھرتے ہو
ہم ہیں اپنی تنہائی میں رنگ جمانے والے
——
یہ بھی پڑھیں : اگر ہے زندگی مقصود بھائی
——
​کچھ اور اشعار:
——
اس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے
اپنی لے سے غافل رہ کر ہجر بیاں کرتے ہیں
آہوں سے ناواقف ہیں یہ شور مچانے والے
عزم یہ شہر نہیں ہے نفسا نفسی کا صحرا ہے
یہاں نہ ڈھونڈو کسی مسافر کو ٹھیرانے والے
——
یہ غزل عزم بہزاد بھائی کے اسلوب اور طرز کی نمائندہ ہے:
——
وسعتِ چشم کو اندوہِ بصارت لکھا
میں نے اک وصل کو اک ہجر کی حالت لکھا
میں نے لکھا کہ صفِ دل کبھی خالی نہ ہوئی
اور خالی جو ہوئی بھی تو ملامت لکھا
یہ سفر پاؤں ہلانے کا نہیں آنکھ کا ہے
میں نے اس باب میں رکنے کو مسافت لکھا
لکھنے والوں نے تو ہونے کا سبب لکھا ہے
میں نے ہونے کو نہ ہونے کی وضاحت لکھا
اشک اگر سب نے لکھے میں نے ستارے لکھے
عاجزی سب نے لکھی میں نے عبادت لکھا
میں نے خوشبو کو لکھا دسترسِ گمشدگی
رنگ کو فاصلہ رکھنے کی رعایت لکھا
زخم لکھنے کے لئے میں نے لکھی ہے غفلت
خون لکھنا تھا مگر میں نے حرارت لکھا
میں نے پرواز لکھی حدِ فلک سے آگے
اور بے بال و پری کو بھی نہایت لکھا
حسنِ گویائی کو لکھنا تھا لکھی سرگوشی
شور لکھنا تھا سو آزارِ سماعت لکھا
——
اس کے باوجود انکساری دیکھیے۔
——
اتنے دعوؤں سے گذر کر یہ خیال آتا ہے
عزم کیا تم نے کبھی حرفِ ندامت لکھا
——
​مزید کچھ اور اشعار دیکھیے:
——
جو بات شرطِ وصال ٹہھری، وہی ہے اب وجہِ بدگمانی
ادھر ہے اس بات پر خموشی، ادھر ہے پہلی سے بے زبانی
کسی ستارے سے کیا شکایت کہ رات سب کچھ بجھا ہوا تھا
فسردگی لکھ رہی تھی دل پر، شکستگی کی نئی کہانی
عجیب آشوبِ وضع داری، ہمارے آعصاب پر ہے طاری
لبوں پہ ترتیبِ خوش کلامی، دلوں میں تنظیمَ نوحہ خوانی
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے، کئی رویّوں کی خاک چھانی
——
یہ بھی پڑھیں : عزم لازم ہے نئے عہدِ وفا سے پہلے
——
اور آخر میں وہ خوبصورت غزل جس سے اس مضمون کا عنوان مستعار لیا گیا ہے جو میری پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ایک ہے ۔
——
اب کہاں ہیں نگہِ یار پہ مرنے والے
صورتِ شمع سرِ شام سنورنے والے
رونقِ شہر انہیں اپنے تجسس میں نہ رکھ
یہ مسافر ہیں کسی دل میں ٹھہرنے والے
کس قدر کرب میں بیٹھے ہیں سرِ ساحلِ غم
ڈوب جانے کی تمنا میں اُبھرنے والے
جانے کس عہدِ طرب خیز کی اُمید میں ہیں
ایک لمحے کو بھی آرام نہ کرنے والے
عزم یہ ضبط کے آداب کہاں سے سیکھے
تم تو ہر رنگ میں لگتے تھے بکھرنے والے
——
ایسے بے شمار خوبصورت اشعار آپ کو جا بجا عزم بھائی کے کلام میں ملیں گے جنہیں طوالت کے خوف سے میں نے اس مضمون میں شامل نہیں کیا ہے۔
۴ مارچ ۲۰۱۱ سے پہلے کبھی اس بات کا خیال تک نہ آیا تھا کہ عزم بھائی یوں اچانک ایک دن ہم سے ایسے روٹھ جائیں گے کہ پھر کبھی ملاقات کا سوال ہی نہیں رہے گا۔ اُس صبح جب عبید بھائی کی زبانی جب یہ خبر سُنی کہ عزم بھائی اب ہم میں نہیں رہے تو کافی دیر تک تو سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا بات ہو رہی ہے لیکن ہونی بہر کیف ہو چکی تھی ۔ دو چاردن تو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا کریں اور کیا نہیں، کیا کہیں اور کیا نہ کہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اب بھی اس بارے میں کچھ کہنے کا یارا نہیں ہے ۔
——
کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے
آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے
——
بس یوں سمجھ لیجے کہ جو خاکسار کی سمجھ میں آیا لکھ دیا ورنہ عزم بھائی سے جو محبت اور شفقت ہمیں ملی اُسے دیکھا جائے تو "حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا”۔
رہی بات اُن کی شاعری کی سو اُس پر بات کرنا میرا مقام ہی نہیں ہے۔
دعا ہے اللہ رب العزت عزم بھائی کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ (آمین)
——
اے ہم نفسانِ محفلِ ما
رفتید ولے از نہ دلِ ما
——
یہ بھی پڑھیں : جن پر تری نگاہ پڑی وہ سنور گئے
——
منتخب کلام
——
کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں
ایک نگاہ کا سناٹا ہے اک آواز کا بنجر پن
میں کتنا تنہا بیٹھا ہوں قربت کے ویرانے میں
آج اس پھول کی خوشبو مجھ میں پیہم شور مچاتی ہے
جس نے بے حد عجلت برتی کھلنے اور مرجھانے میں
ایک ملال کی گرد سمیٹے میں نے خود کو پار کیا
کیسے کیسے وصل گزارے ہجر کا زخم چھپانے میں
جتنے دکھ تھے جتنی امیدیں سب سے برابر کام لیا
میں نے اپنے آئندہ کی اک تصویر بنانے میں
ایک وضاحت کے لمحے میں مجھ پر یہ احوال کھلا
کتنی مشکل پیش آتی ہے اپنا حال بتانے میں
پہلے دل کو آس دلا کر بے پروا ہو جاتا تھا
اب تو عزمؔ بکھر جاتا ہوں میں خود کو بہلانے میں
——
میں عمر کے رستے میں چپ چاپ بکھر جاتا
اک دن بھی اگر اپنی تنہائی سے ڈر جاتا
میں ترک تعلق پر زندہ ہوں سو مجرم ہوں
کاش اس کے لیے جیتا اپنے لیے مر جاتا
اس رات کوئی خوشبو قربت میں نہیں جاگی
میں ورنہ سنور جاتا اور وہ بھی نکھر جاتا
اس جان تکلم کو تم مجھ سے تو ملواتے
تسخیر نہ کر پاتا حیران تو کر جاتا
کل سامنے منزل تھی پیچھے مری آوازیں
چلتا تو بچھڑ جاتا رکتا تو سفر جاتا
میں شہر کی رونق میں گم ہو کے بہت خوش تھا
اک شام بچا لیتا اک روز تو گھر جاتا
محروم فضاؤں میں مایوس نظاروں میں
تم عزمؔ نہیں ٹھہرے میں کیسے ٹھہر جاتا
——
کہیں گویائی کے ہاتھوں سماعت رو رہی ہے
کہیں لب بستہ رہ جانے کی حسرت رو رہی ہے
کسی دیوار پر ناخن نے لکھا ہے رہائی
کسی گھر میں اسیری کی اذیت رو رہی ہے
کہیں منبر پہ خوش بیٹھا ہے اک سجدے کا نشہ
کسی محراب کے نیچے عبادت رو رہی ہے
یہ ماتھے پر پسینے کی جو لرزش تم نے دیکھی
یہ اک چہرے پہ لا حاصل مشقت رو رہی ہے
عجب محفل ہے سب اک دوسرے پر ہنس رہے ہیں
عجب تنہائی ہے خلوت کی خلوت رو رہی ہے
یہ خاموشی نہیں سب التجائیں تھک چکی ہیں
یہ آنکھیں تر نہیں رونے کی ہمت رو رہی ہے
جو بعد از ہجر آیا اس کو کیسے وصل کہہ دوں
شکایت سے گلے مل کر ندامت رو رہی ہے
اسے غصہ نہ سمجھو عزمؔ یہ میرے لہو میں
مسلسل ضبط کرنے کی روایت رو رہی ہے
——
اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا
میں جاگتے رہنے کی تدبیر اٹھا لایا
میں نیت شب خوں سے خیمے میں گیا لیکن
دشمن کے سرہانے سے شمشیر اٹھا لایا
وہ صبح رہائی تھی یا شام اسیری تھی
جب میں در زنداں سے زنجیر اٹھا لایا
آوارہ مزاجی پر حرف آنے سے پہلے ہی
دل تیرے تغافل کی تصویر اٹھا لایا
اے خواب پذیرائی تو کیوں مری آنکھوں میں
اندیشۂ دنیا کی تعبیر اٹھا لایا
وہ سنگ ملامت تھا جس کو ترا دل کہہ کر
اس کوچے سے مجھ جیسا رہگیر اٹھا لایا
اس شخص سے میں سب کو عجلت میں ملا بیٹھا
اور اپنے لیے کیسی تاخیر اٹھا لایا
میدان شکایت سے کیا اپنے سوا لاتا
اک رنج تھا میں جس کی تعمیر اٹھا لایا
اس بزم سخن میں ہم کیا پہنچے کہ شور اٹھا
لو عزمؔ کوئی زخمی تحریر اٹھا لایا
——
جو بات شرط وصال ٹھہری وہی ہے اب وجہ بد گمانی
ادھر ہے اس بات پر خموشی ادھر ہے پہلی سے بے زبانی
کسی ستارے سے کیا شکایت کہ رات سب کچھ بجھا ہوا تھا
فسردگی لکھ رہی تھی دل پر شکستگی کی نئی کہانی
عجیب آشوب وضع داری ہمارے اعصاب پر ہے طاری
لبوں پہ ترتیب خوش کلامی دلوں میں تنظیم نوحہ خوانی
ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی رویوں کی خاک چھانی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ