میں عشق عشق کی گردان میں پڑا ہوا تھا

پرانا جسم کہ سامان میں پڑا ہوا تھا تمھارے ساتھ کئی دن گزارنے کے بعد خیال رات کو دالان میں پڑا ہوا تھا ہمارے مسئلے سارے نمٹ چکے تھے مگر معاملہ کوئی تاوان میں پڑا ہوا تھا میں ساری رات اسی کشمکش میں سو نہ سکا نظارا دن کا بیابان میں پڑا ہوا تھا قلم […]

نہ کوئی دھول نہ منزل نہ راستہ دل کا

نظر سے پار کہیں دور سلسلہ دل کا مرے دماغ نے مجھ کو جگا دیا لیکن اُس ایک خواب میں چہرہ ہی رہ گیا دل کا ایام تلخ ہیں مجھ کو سمجھ نہیں آتا کہ درد کوئی بتائے گا ذائقہ دل کا یہ رات کون مرے ساتھ جاگتا رہا ہے یہ رات کس سے ہوا […]

وفا کے جرم میں اکثر پکارے جاتے ہیں

ہم اہل ِ عشق ، محبت میں مارے جاتے ہیں ہماری لاش تو گرتی ہے جنگ لڑتے ہوئے مگر جو پیٹھ پہ برچھے اُتارے جاتے ہیں عمامہ سجتا ہے آخر امیرِ شہر کے سر ہمارے جیسے عقیدت میں وارے جاتے ہیں میں روک سکتا نہیں خاک کو بکھرنے سے سمندروں کی طرف چل کے دھارے […]

کہاں سے لاتا ادائیں وہ لڑکیوں جیسی

سو آئینے میں بھی حیرت ہے پتلیوں جیسی ہمارے بیچ اٹھائی ہے وقت نے دیوار میں جگنوں کی طرح ہوں ، وہ تتلیوں جیسی اور اس کے بعد کا موسم بیان سے باہر ہے میں دھوپ سرد دنوں کی، وہ کھڑکیوں جیسی ہوا بھی چلتی ہوئی اورچراغ جلتا ہوا وہ بولتی ہوئی ،آواز تلخیوں جیسی […]

کر دیا زار غم عشق نے ایسا مجھ کو

موت آئی بھی تو بستر پہ نہ پایا مجھ کو کبھی جنگل کبھی بستی میں پھرایا مجھ کو آہ کیا کیا نہ کیا عشق نے رسوا مجھ کو دشمن جاں ہوا در پردہ مرا جذبۂ عشق منہ چھپانے لگے وہ جان کے شیدا مجھ کو روز روشن ہو نہ کیوں کر مری آنکھوں میں سیاہ […]

باشندے حقیقت میں ہیں ہم ملک بقا کے

کچھ روز سے میہمان ہیں اس دار فنا کے دل خوں ہو شب وصل بھی حسرت میں نہ کیوں کر دیکھیں نہ وہ خلوت میں بھی جب آنکھ اٹھا کے فرمائیے ہم سے تھی یہی شرط محبت خوب آپ نے رسوا کیا غیروں میں بلا کے کوچے میں نہ آئے کوئی میں جان گیا ہوں […]

تیغ نگہ دیدۂ خوں خار نکالی

کیوں آپ نے عشاق پہ تلوار نکالی بھولے ہیں غزالان حرم راہ خطا سے تم نے عجب انداز کی رفتار نکالی دھڑکا مرے نالہ کا رہا مرغ سحر کو آواز شب وصل نہ زنہار نکالی ہر گھر میں کہے رکھتے ہیں کہرام پڑے گا گر لاش ہماری سر بازار نکالی آخر مری تربت سے اگی […]

جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے

قطرۂ اشک دیدۂ تر ہے ابروئے یار دل کا خنجر ہے مژۂ یار نوک نشتر ہے چشم عاشق سے دو بہے دریا ایک تسنیم ایک کوثر ہے خانۂ دل ہے غیر سے خالی شوق سے آؤ آپکا گھر ہے قطعی آج فیصلہ ہوگا تیری تلوار ہے مرا سر ہے اب تو دھونی رما کے بیٹھے […]

واہ کیا حسن کیسا جوبن ہے

کیسی ابرو ہیں کیسی چتون ہے جس کو دیکھو وہ نور کا بقعہ یے پرستان ہے کہ لندن ہے عبث ان کو مسیح کہتے ہیں مار رکھنے کا ان میں لچھن ہے حسن دکھلا رہا ہے جلوۂ حق روئے تاباں سے صاف روشن ہے رسم الٹی ہے خوب رویوں میں دوست جس کے بنو وہ […]

وہ مسیحا قبر پر آتا رہا

میں موے پر روز جی جاتا رہا زندگی کی ہم نے مر مر کے بسر وہ بت ترسا جو ترساتا رہا واہ بخت نارسا دیکھا تجھے نامہ بر سے خط کہیں جاتا رہا راہ تکتے تکتے آخر جاں گئی وہ تغافل کیش بس آتا رہا دل تو دینے کو دیا پر ہم نشیں ہاتھ میں […]