تھی جہد کی منزل سر کرنی مقسوم ہمارا کیا کرتے

طوفان سے کھیلے اے ہمدم طوفاں سے کنارا کیا کرتے پُر کر دے ہمارا جامِ تہی ساقی کو اشارا کیا کرتے ہم اپنی ذرا سے خواہش پر یہ بات گوارا کیا کرتے ہر سو تھے مقابل فتنۂ غم دل ایک ہمارا کیا کرتے کرنا ہی پڑا ان سب سے ہمیں ہنس ہنس کے گزارا کیا […]

تھی پہلے مستقل جو وہ اب مستقل گئی

حیف آرزو تری کہ جو تھی جان و دل گئی سوزِ الم میں دل بہ خیالِ گلیم پوش دوزخ میں جل رہا تھا کہ جنت بھی مل گئی دل کی کلی کھِلے تو مہک اٹھے جسم و جاں کس کام کی مرے وہ چمن میں جو کِھل گئی روحِ لطیف کی نہیں باقی لطافتیں فعّال […]

حسیں جتنی مری دنیائے دل ہے

کہاں اتنا جہانِ آب و گِل ہے سیاہی ابرِ غم کی مستقل ہے تبسم کی چمک گاہے مخل ہے ازل ہی سے معذّب ہائے دل ہے محبت اک عذابِ مستقل ہے تھی جس سے یاد وابستہ کسی کی وہ زخمِ دل بھی اب تو مندمل ہے جنابِ شیخ سے مت بولیے گا ذرا میں طبعِ […]

حوصلہ مند نہیں دل ہی تن آسانوں کے

ورنہ ساحل بھی تو ہے بیچ میں طوفانوں کے ایک دل ہے کہ ابھی ہو نہ سکا زیرِ نگیں ورنہ دنیا ہے تصرف میں ہم انسانوں کے قصے عشاقِ نبی اور نبی کے واللہ جیسے اک شمع کے اور شمع کے پروانوں کے سارے ارمان تھے پروردۂ دل یونہی تو دل کا بھی خون ہوا […]

خالی اس آستاں سے نہ دریوزہ گر پھرے

ایماں کا لے کے دامنِ دل میں گہر پھرے پیغامِ لا الٰہ لیے ہم جدھر پھرے ان بستیوں کے شام و سحر سر بسر پھرے تقدیرِ سیم و زر ہے یہی در بدر پھرے پیچھے لگیں جو ان کے وہ ناداں وہ سر پھرے ناحق یہاں ستائے گئے اہلِ حق بہت مؤقف سے اپنے وہ […]

دل ابھی گہوارۂ اوہام ہے

رشتۂ ایماں ابھی تک خام ہے کفر سے آلودہ اُف اسلام ہے جی رہا ہوں موت کا ہنگام ہے موت ہے وجہِ سکونِ زندگی ابتدا منت کشِ انجام ہے حسن محتاجِ نگاہِ عشق کب حسن اپنا آپ ہی انعام ہے خوفِ رسوائی سے نالہ کش نہیں لوگ یہ سمجھے مجھے آرام ہے بے کسی، مجبوریاں، […]

دل کو چھوڑا مجھ کو الزامِ خطا دینے لگے

وہ تو ملزم ہی کے حق میں فیصلا دینے لگے جب وہ سائل کو بنامِ مصطفیٰ دینے لگے تھی طلب جتنی اسے اس سے سوا دینے لگے دل سی شے لے کر ہمیں داغِ جفا دینے لگے کچھ نہ سوچا کیا لیا تھا اور کیا دینے لگے آخری لو پر تھا جب میرا چراغِ زندگی […]

رخ سے نقاب اٹھ گیا قہرِ تجلیات ہے

دیکھ ابھی نہ الحذر لمحۂ حادثات ہے تیری ہی ذات باعثِ رونقِ کائنات ہے تیری ہی یاد سے سجی بزمِ تصورات ہے یوں تو ہر ایک رند پر ساقی کا التفات ہے مجھ پہ ہے کچھ سوا مگر میری کچھ اور بات ہے زخم کچھ اور داغ کچھ، اور متاعِ آرزو دل کو ٹٹولتے ہو […]

رہِ صواب کو چھوڑیں کبھی نہ فرزانے

ہماری طرح سے وہ تو نہیں ہیں دیوانے چلے ہیں فلسفۂ عشق سب کو سمجھانے جنابِ شیخ کو کیا ہو گیا خدا جانے پھِرا کے سَبحۂ گرداں کے ایک سو دانے چلا ہے زاہدِ ناداں خدا کو اپنانے وہ اپنی بات سے پھرتے نہیں کبھی کہہ کر ہم اپنے دین سے پھر جائیں ایسے دیوانے […]

ساغرِ توحید وہ دے، پیرِ میخانہ مجھے

تا ابد حاصل رہے اک کیفِ رندانہ مجھے نورِ حق رہبر نہ ہوتا گر مجھے سوئے حرم لغزشِ پا لے چلی تھی سوئے میخانہ مجھے فی سبیل اللہ جاں دینے سے مجھ کو کیا گریز لکھ کے دے رکھا ہے جب جنت کا پروانہ مجھے دل کا کاشانہ کہ تھا پہلے جو گلشن آفریں ایک […]