سختیِ مرحلۂ دار تک آ پہنچا ہے

طالبِ حق کسی معیار تک آ پہنچا ہے ساقی اک جرعہ کے اصرار تک آ پہنچا ہے شیخ انکار سے اقرار تک آ پہنچا ہے نالۂ درد مرا عرش رسا ہے شاید رحم اب قلب ستمگار تک آ پہنچا ہے بزم کی بزم پہ طاری ہے سکوتِ مستی ذکر شاید نگہِ یار تک آ پہنچا […]

شگفتہ، دلنشیں، سادہ رواں ہے

یہ اپنا اپنا اندازِ بیاں ہے لگی ہے آگ، شعلے ہیں، دھواں ہے چمن میں میرے خیریت کہاں ہے خدنگِ ناز اُدھر اور تیغِ ابرو اِدھر دونوں کی زد پر میری جاں ہے ذرا میں خوش، ذرا میں ہے کبیدہ بہت نازک مزاجِ گل رخاں ہے لگا دے آگ جب چاہے دلوں میں خطیبِ شہر […]

طلسمِ شامِ خزاں نہ ٹوٹے گا دل کو یہ اعتبار سا ہے

طلوعِ صبحِ بہار کا پھر نہ جانے کیوں انتظارسا ہے ترے تصور میں غرق ہوں میں ترا ہی قرب و جوار سا ہے خزاں صفت شامِ غم کو میں نے بنا لیا خوشگوار سا ہے فریبِ دنیا عیاذ باللہ غمِ زمانہ کی سازشیں اف قرار کی صورتوں میں بھی اب مرا یہ دل بے قرار […]

عمرِ عزیز اپنی چلے ہم گزار کے

آئے نہیں پلٹ کے مگر دن بہار کے چھاؤں میں زلفِ پر شکن و تابدار کے بھولا ہوا ہوں سیکڑوں غم روزگار کے دورِ خزاں میں نغمے ہیں فصلِ بہار کے قربان جائیں گردشِ لیل و نہار کے اس رات کی سحر ہی نہیں ہم سے پوچھ لو مارے ہوئے ہیں ہم بھی شبِ انتظار […]

غم گیا لذتِ حیات گئی

ہائے جینے میں تھی جو بات گئی جاں گئی حسن کی زکات گئی کون سی کوئی کائنات گئی حالتِ غم بدل سکی نہ مری آبروئے تغیرات گئی کہہ تو دوں عرضِ مدعا لیکن کیا کروں گا مری جو بات گئی اے غمِ عشق تیری عمر دراز فکرِ آلام و حادثات گئی موجِ یادِ حبیب جب […]

فتنہ زا فکر ہر اک دل سے نکال اچھا ہے

آئے گر حسنِ خیال، اس کو سنبھال اچھا ہے میرے احساسِ خودی پر نہ کوئی زد آئے تو جو دے دے مجھے بے حرف سوال اچھا ہے آپ مانیں نہ برا گر، تو کہوں اے ناصح صاحبِ قال سے تو صاحبِ حال اچھا ہے بے خیالی نہ رہے، خام خیالی سے بچوں دل میں بس […]

فیضیابِ حال ہے نے فکرِ مستقبل میں ہے

آدمی ہوش و خرد کی کون سی منزل میں ہے بات کر سکتے نہیں گو حشر برپا دل میں ہے تیری محفل میں ہیں جب تک دل بڑی مشکل میں ہے آخرت سے بے نیازی کیوں تمہارے دل میں ہے کون سا ایسا مزہ دنیائے آب وگل میں ہے ہر قدم طوفانِ غم ہے ہر […]

قدم ڈگمگائے خیالات بھٹکے

تصور سے تیرے رہا دل جو ہٹ کے بری بات جینا تھا موقف سے ہٹ کے بُرا کیا ہوا جو سرِ دار لٹکے مجھے منتقل کر کے شہرِ خموشاں نہ پھر حال پوچھا کسی نے پلٹ کے جسے وسعتِ دو جہاں بھی نہیں کچھ مرے دل میں کیسا سمایا سمٹ کے مرا کوئی مونس شبِ […]

لغزشِ پا ترے کہنے پہ نہ چلنے سے ہوئی

ساری تکلیف مجھے راہ بدلنے سے ہوئی رات رو رو کہ کٹی شمع کی اللہ اللہ غم زدہ کیسی یہ پروانوں کے جلنے سے ہوئی نزع دم دیکھنے آئے مجھے طوعاً کرھاً ایک راحت تو طبیعت نہ سنبھلنے سے ہوئی مجھ کو تکلیف نہ پہنچی اسی باعث شاید ان کو راحت مرے جذبات کچلنے سے […]

محوِ دیدارِ بتاں تھے پہلے

ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے خود بھی خود پر نہ عیاں تھے پہلے وہ بھی آئے ہی کہاں تھے پہلے اتنے کب شعلہ بجاں تھے پہلے ہم کو غم اتنے کہاں تھے پہلے دور تر ہم سے ہوئی ہے منزل اب وہاں کب کہ جہاں تھے پہلے اب تو ہیں خود ہی معمہ ہم […]