سر بسر آنسو، مکمل غم ھوں میں

سر بسَر آنسُو، مُکمل غم ھُوں مَیں آپ اپنے حال کا ماتم ھُوں مَیں مُجھ سے بڑھ کے کس نے جانا ھے تُمہیں ؟ اور تُم کہتی ھو نامحرم ھُوں میں ؟ ایسے یکجا ھیں، سمجھ آتی نہیں مُجھ میں ضم ھے تُو کہ تُجھ میں ضم ھُوں مَیں ؟ ٹھوکروں کے نیل ھیں مُجھ […]

نہ پُھول کی نہ کسی نافۂ غزال کی ہے

سُخن کے دشت میں خوشبو ترے خیال کی ہے زمیں سے تا بہ فلک روشنی کمال کی ہے فضا میں آج شباہت ترے جمال کی ہے نہ دیکھ بالکنی سے غُروب کا منظر جمالِ یار ! سنبھل ، یہ گھڑی زوال کی ہے ترا نہ ہونا بھی اب تو ہے تیرے ہونے سا فراق میں […]

کوئی میرے اشک پونچھے ، کوئی بہلائے مجھے

یُوں نہ ہو لوگو! اُداسی راس آ جائے مجھے عشق نے ایسے سُہانے رنگ پہنائے مجھے گُل تو گُل ہیں ، چاند تارے دیکھنے آئے مجھے ربِّ گریہ بخش! تجھ کو آنسوؤں کا واسطہ دیکھ، کافی ہو چکی، اب عشق ہو جائے مجھے کیا خبر اُس کے پلٹنے تک مرا کیا حال ہو اُس سے […]

خُدا نے تول کے گوندھے ہیں ذائقے تم میں

تمہارے جسم میں شہد اور نمک برابر ہے وہ حُسن تُم کو زیادہ دیا ہے فطرت نے جو حُسن پھول سے مہتاب تک برابر ہے ہر ایک صحن میں تو چاندنی چھٹکتی نہیں جمالِ یار پہ کب سب کا حق برابر ہے تمہارا چہرہ مجھے یاد ہو گیا ہے سو اب دکھاؤ یا نہ دکھاؤ […]

درد سوغات تھی اداسی کی

درد سوغات تھی اُداسی کی چاندنی رات تھی اُداسی کی آج چہرہ نہیں تھا پہلے سا کوئی تو بات تھی اُداسی کی آئینہ دیکھ کر کُھلا یارو یہ ملاقات تھی اُداسی کی خواہ مخواہ اشکبار ہو بیٹھے سرسری بات تھی اُداسی کی زین! مصروف ہوگئے اب تو یار کیا بات تھی اُداسی کی

گرچہ مہنگا ہے مذہب ، خدا مُفت ہے

اک خریدو گے تو دوسرا مُفت ہے آئینوں کی دکاں میں لکھا تھا کہیں آپ اندھے ہیں تو آئینہ مُفت ہے اُس نے پوچھا کہ پازیب کتنے کی ہے ؟ سارا بازار چِلّا اُٹھا : مُفت ہے آخری سانس کے بعد عقدہ کُھلا میں سمجھتا رہا تھا ہوا مُفت ہے فیصلہ کیجیے ، بھاؤ تاؤ […]

یہ کیا کہ جب بھی ملو ، پوچھ کے ، بتا کے ملو

یہ کیا کہ جب بھی ملو ، پوچھ کے ، بتا کے مِلو کبھی کرو مجھے حیران ، اچانک آ کے مِلو دُعا سلام ہے کیا شَے ، مُصافحہ کیسا تکلفات کو چھوڑو ، گلے لگا کے مِلو محبتوں میں شش و پنج سے نکالو مجھے نظر جُھکا کے ملو یا نظر مِلا کے مِلو […]

غم چھایا رہتا ہے دن بھر آنکھوں پر

فارس! اُس کے نام کا دَم کر آنکھوں پر جب دیکھو پلکیں جھپکاتا رہتا ہے اِتنا بھی اِترایا مت کر آنکھوں پر چلیے! آپ محبت کو جانے دیجے ترس ہی کھا لیجے میری تر آنکھوں پر کہیے تو جی لیں ، کہیے تو مر جائیں صاحب ! آپ کی سب باتیں سر آنکھوں پر آنسو […]

خوشی سمیٹ کے رکھ اور غم سنبھال کے رکھ

ہوا ہے عشق میں جو کچھ بہم ، سنبھال کے رکھ یہ قیمتی ہیں ، اِنہیں یوں نے بے دریغ لُٹا ان آنسوؤں کو سرِ چشمِ نم سنبھال کے رکھ ہمیں تو خیر گنوا ہی دیا ہے تو نے مگر ہماری یاد کو تو کم سے کم سنبھال کے رکھ یہ دور عرضِ سخن کا […]