اردوئے معلیٰ

Search

آج نوجوان شاعر دلاور علی آزر کا یوم پیدائش ہے

 دلاور علی آزر——
(پیدائش: 21 نومبر 1984ء )
——
عین سچ ہے کہ مدحت رسول چنیدہ لوگ ہی کرتے ہیں اور اس فہرست میں ایک خوش بخت کا نام دلاور علی آزر ہے ۔
دلاور علی آزر 21 نومبر 1984 کو سر زمین پنجاب کے ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال میں پیدا ہوئے ۔ جناب کے والدِ گرامی بشیر احمد صاحب خانیوال کے رہائشی تھے جو بعد میں حسن ابدال آ کر آباد ہوئے ۔ حسن ابدال کی خوبصورت سرزمین بادشاہوں فقیروں اور درویشوں کا مسکن رہی ہے ۔ مغل بادشاہ ہوں ، گرو نانک ہو یا زندہ پیر ولی۔۔ ان سب کے ٹھکانے اسی شہر میں رہے ، یوں اس شہر سے بین المذاہب مشاہدہ اور ایک روحانی سلسلہ بھی ان کو میسر آیا جس کے جلو میں وہ زندگی کا سفر طے کرنے لگے ۔ پھر یوں ہوا کہ ان کو شعر کے لئے چن لیا گیا اور وہ شاعری کی جملہ اصناف میں ریاضت کرنے لگے ۔ اس ریاضت میں انہوں نے نعت ، منقبت، غزل، نظم اور گیت کہے مگر غزل مرغوب ترین ٹھہری جس میں انہوں نے اپنا ایک خاص اسلوب پیدا کیا جوکہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔
2013 میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ "پانی” کے نام سے منظر پر آیا جس نے پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کی ۔ 2016 میں غزل ہی کی دوسری کتاب ” مآخذ” کے نام سے چھپی جس نے اس نوجوان کے سخن پر صاحبِ اسلوب شاعر ہونے کی مہر لگا دی ۔ وہ لفظوں کے جادوگر ہیں اور مالک نے ان کو لہجہ بھی والہانہ عطا کیا ہے یوں وہ اپنی گفتگو اور شاعر ی سے بہت جلد لوگوں کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں ۔
گزشتہ تین دہائیوں سے کسی نوجوان شاعر کی اتنی پختہ شاعری سامنے نہیں آئی تھی ۔ 2014 میں بہاولپور یونیورسٹی سے پروفیسر ڈاکٹر زوار شاہ کی نگرانی میں ان کی کتاب ” پانی” پر ایک تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو بہ عنوان ” پانی مجموعہءِ کلام دلاور علی آزر کا تجزیاتی مطالعہ ” بھی لکھا گیا ۔ حال ہی میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں "پانی” اور مآخذ” پر ایک ایم اے کا تھیسس معروف نقاد جناب طارق ہاشمی کی زیرِ نگرانی منظور ہوا ہے۔ اسی دورانیہ میں انہوں نے عہدِ حاضر کے ایک اہم شاعر جناب ظفر اقبال کی 101 غزلوں پر مشتمل ایک انتخاب ” ظفریاب” کے نام سے چھپوایا جو کافی مقبول ہوا۔ دلاور علی آزر غزل کے میدان میں مسلسل مجاہدے کرتے نظر آ رہے ہیں اور عنقریب ان کی ایک اورکتاب ” ثریا ” کے نام سے منظر پر آنے والی ہے ۔ غزل کے ساتھ ساتھ نعت کہنا ان کی روحانی سرشاری کا مونہہ بولتا ثبو ت ہے ۔ جلد ان کی کہی گئی نعتوں پر مشتمل کتاب ” ان کے حضور ” کے نام سے عاشقانِ رسول کے ہاتھ میں ہوگی۔ اس
نوجوانی میں اتنا حوصلہ مند شاعر بہت کم دیکھنے میں آیا ہے ۔ دلاور کو یہ حوصلہ ان کے امتیازی طرزِ سخن نے بخشا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : کس اوج ، کس عروج پہ رتبہ علی کا ہے
——
دلاور علی آزر لفظوں کے بھیدی ہیں ، کون سا لفظ کہاں استعمال کرنا ہے انہیں خوب علم ہے شاعری میں ان کا پہلا قدم ہی پانی” پر پڑا پانی جو اولین تخلیق ہے ۔ بہت بھاگوان ہے دلاور جسے محبت، لفظ اور شعر کہنے کا سلیقہ عطا ہوا ۔ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ نعت ہر کوئی نہیں کہہ سکتا یہ توفیق کا معاملہ ہے اور نعت تو ہے بھی ایک پل صراط ۔ خدا اور رسول کے مابین فرق اور امتیاز بڑا کٹھن راستہ ہے ۔ نعت گوئی کا کمال یہ ہے کہ شاعر ہر طرح کے شرک و بدعت سے دامن بچا کر یہ فریضہ سر انجام دے ۔ مدحتِ رسول میں جدت اور تنوع کے ان گنت ستارے چمکیں گے اور بارگاہِ رسالت میں نذرانہ پیش کرتے رہیں گے ۔ اس پل صراط کی کہکشاں کا ایک روشن ستارہ دلاور علی آزر ہے۔
دیوانے کی نعت دیکھیے
——
بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دوعالم
اس واسطے بھیجے گئے سرکارِ دوعالم
وہ آنکھ بنی زاویہ ءِمحورِ تخلیق
وہ زلف ہوئی حلقہءِ پرکار دوعالم
سرکار کی آمد پہ کھلا منظرِ ہستی
آئینہ ہوئے یوں درودیوارِ دو عالم
ہر نقش ہے اس پیکرِ ذی شاں کا مکمل
آزر یہی شہکار ہے شہکارِ دوعالم
——
یقین مانیے لفظ ایسے استعمال ہوتے بہت کم دیکھے گئے ہیں ۔اس لہجہ میں نعت کہنا قسمت کے دھنی کا کام ہے ۔ اور یہ لہجہ ان کی اندرونی کیفیت ہی تو ہے ۔ ایک شعر پڑھیں اور عالمِ تصور میں چلے جائیں۔ آنکھیں آبدیدہ ہوجائیں گی اور چاہ کر بھی آپ کپکپانے سے نہیں رہیں گے۔اس شعر میں موجود کرب قیامت سے کم نہیں ۔
——
عجب وہ ہستی ہے جو اتاری گئی لحد میں
عجب خزانہ ہے جو دفینے میں اس نے رکھا
——
ایک اور کیفیت کا اظہار دیکھیے۔۔
——
ازل سے لے کر ابد کی حد پر محیط ہے وہ
جو دکھ محرم کے اک مہینے میں اس نے رکھا
——
تاریخ گواہ ہے بہت سے نامور شعرا صرف اس وجہ سے نعت نہ کہتے تھے کہ وہ اس کا حق ادا نہیں کر سکتے اور ان کے شایانِ شان الفاظ اشعار میں لانے سے قاصر ہیں۔ دلاور کے ہاں بھی یہی عقیدہ موجود ہے اور وہ لفظوں کو ان کے شایانِ شان نہیں سمجھتے بلکہ حضور کی محبت میں خود کو قربان کر دینے کو سعادت سمجھتے ہیں ۔
——
کس کی ہے مجال اتنی لکھے ان کا قصیدہ
کاغذ کے حوالے کیے میں نے دل و دیدہ
جس پر نہیں کھل پاتی رہِ سمتِ مدینہ
آنکھوں پہ ملے نقشِ کفِ پا کا ملیدہ
——
نعت گوئی میں دلاور کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے غزلیہ انداز میں نعت کے اشعار کہے ہیں گویا ان کے باطن میں جو شعر بھی اترتا ہے بنا بنایا اترتا ہے ۔ وہ قاری کو اپنی کیفیت میں لے آتے ہیں جس کے لئے ان کو دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ان کے الفاظ بتاتے ہیں کہ شعر نعت کا ہے یا غزل کا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
انہوں نے لفظ کی حرمت کو سمجھا ہے تو لفظ نے بھی انہیں معتبر کیا ہے ۔ خود ہی دیکھیے
——
جمال وحسنِ رخِ یار جب شدید ہوا
یہ آئینہ اسے تکتے ہوئے شہید ہوا
وگرنہ منزلیں مستور ہونے والی تھیں
مسافروں کو ترا نقشِ پا مفید ہوا
——
دلاور علی آزر اپنے سخن کی ذیل میں عاجزانہ رویہ رکھتے ہیں مگر وہ امتیاز سے بھی واقف ہیں۔ وہ اپنے اس امتیاز کو سراسر صدقہءِ سرکار دوجہاں گردانتے ہیں اور یہی ایک سچے مسلمان اور سخن ور کو سجتا بھی ہے ۔
——
بخشا ہے اس نگاہ نے ایسا یقیں مجھے
حیرت سے دیکھتے ہیں سبھی نکتہ چیں مجھے
——
نعت میں شہرِ رسول سے محبت کا اظہار بھی اولین نعت سے چلا آ رہا ہے اور اس روایت کو دلاور نے آگے بڑھایا ہے مگر اس کاا نداز جداگانہ ہے اس کے اظہار کا زاویہ علیٰحدہ ہے۔ کون مسلمان ہے جسے مدینہ منورہ سے پیار نہیں وہاں کی خاک بھی عشاق کے ہر دکھ کی دعا ہے ۔ ایک یہی تو ایک جنت ہے جسے ہم دنیا میں رہ کر دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ شہر ہی مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے ، روضہ رسول نور اور رحمت کا سرچشمہ ہے جو عشاق کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ دلاور کے ہاں شہر نبوی اور مرکزِ انوار وتجلی گنبدِ خضریٰ سے والہانہ عقیدت کا اظہار دیکھئے۔
——
دھڑکتا دل لا کے میرے سینے میں اس نے رکھا
پھر اس کی دھڑکن کو خود مدینے میں اس نے رکھا
مری نگاہوں کو سبز گنبد کا خواب دے کر
مری محبت کو آبگینے میں اس نے رکھا
——
سستا رہا ہوں گنبدِ خضریٰ کے سائے میں
کہہ دو نہیں ہے حاجتِ خلدِ بریں مجھے
جب تک ترے روضے پہ نظر رکھے رہیں گے
ہم دیکھتے رہنے کا ہنر رکھے رہیں گے
——
مدت سے میں ہوں منتظرِ خاکِ مدینہ
پلکوں سے سمیٹوں گا زرِ خاکِ مدینہ
سر سبز رہا، آپ سے نسبت رہی جس کو
اور خاک ہوا کینہ ورِ خاکِ مدینہ
قدموں سے لپٹتا شہہِ لولاک تمہارے
اے کاش میں ہوتا خس و خاشاکِ مدینہ
اک عرض گزاری ہے جو منظور ہو آزر
ناچیز بھی دیکھ آئے کبھی جا کے مدینہ
——
عجیب یہ ہے کہ دلاور علی آزر نے جس شہر میں آنکھ کھولی وہاں کی تہذیب بھی تین بڑے ادیان سکھ ازم، ہندوازم اوراسلام کے زیرِ اثر ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : یہ دنیا اک سمندر ہے مگر ساحل مدینہ ہے
——
ایسے ماحول میں رہ کر اپنی عقیدت میں اتنا پاکیزہ ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ۔ مبارک باد دلاور علی آزر!۔۔۔ مبارک باد حسن ابدال! کہ تمہاری پہچان تمہارے ایک ہونہار بیٹے سے ہونے لگی ہے۔ دعا ہے حضور کے نعلین کے صدقے اس عاشق کو زندہ و جاوید سخن عطا ہو ۔ ”ان کے حضور“ گلہائے عقیدت کا کتابی شکل میں انتظار رہے گا۔
——
لکیر میر نے آواز میں بدل دی تھی
علی کے لحن میں ڈھل کر سخن جدید ہوا
——
آپ کے نعتیہ مجموعہ ”نقش“ کو قومی سیرت ایوارڈ اور بابا گرو نانک جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
——
بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دو عالم
اِس واسطے بھیجے گئے سرکارِ دو عالم
جس پر ترے پیغام کی گرہیں نہیں کُھلتیں
اُس پر کہاں کُھل پاتے ہیں اسرارِ دو عالم
آ کر یہاں ملتے ہیں چراغ اور ستارہ
لگتا ہے اِسی غار میں دربارِ دو عالم
توقیر بڑھائی گئی افلاک و زمیں کی
پہنائی گئی آپ کو دستارِ دو عالم
وہ آنکھ بنی زاویۂ محورِ تخلیق
وہ زُلف ہوئی حلقۂ پرکارِ دو عالم
سرکار کی آمد پہ کُھلا منظرِ ہستی
آئینہ ہوئے یوں در و دیوارِ دو عالم
آہستہ روی پر تِری قربان سبک پا
اے راہبرِ گردشِ سیّارِ دو عالم
ہر نقش ہے اِس پیکرِ ذی شاں کا مکمل
آزر یہی شہکار ہے شہکارِ دو عالم
——
تب جا کے روشنی کو نئے خال و خد ملے
خیمے میں جب امام نے گُل کر دیا چراغ
——
ہم شام کی دہلیز پہ بیٹھے ہیں ابھی تک
اک قافلہ نکلا تھا مدینے سے ہمارا
چیختا ہوں کہ مدینے کوئی لے جائے مجھے
لیکن آواز گناہوں میں دبی جاتی ہے
——
جو کچھ ملا حضور کے صدقے سے ہے ملا
اور جو نہیں ہے اُس کی ضرورت نہیں مجھے
——
شعر وہ لکھو جو پہلے کہیں موجود نہ ہو
خواب دیکھو تو زمانے سے الگ ہو جاؤ
نیند میں حضرت یوسف کو اگر دیکھا ہے
عین ممکن ہے گھرانے سے الگ ہو جاؤ
——
ایک شعلے کی لپک نور میں ڈھل کر آئی
ایک کر دار بہتر سے نمودار ہوا
حق کی پہچان ہوئی خلق کو آزر اس وقت
جب علی آپ کے بستر سے نمودار ہوا
——
اُس نے پوچھا کہ کوئی آخری خواہش آزر
میں نے اک نام لکھا اور قلم توڑ دیا
——
درور پڑھتے ہوئے ڈار تک پہنچ گیا میں
نمودِ ثابتِ سیّار تک پہنچ گیا میں
خدا تک اب مجھے سرکار لے کے جائیں گے
خدا کا شکر کہ سرکار تک پہنچ گیا میں
——
چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہو چکی ہے
دِیا جلانے کا مطلب ہے شام ہو چکی ہے
——
اُسے کسی سے محبت نہ تھی مگر اُس نے
گلاب توڑ کے دُنیا کو شک میں ڈال دیا
——
بہت وسیع بہت خوب رو سمندر ہے
میں درمیاں ہوں مرے چار سو سمندر ہے
مرے لیے تو اِسی دائرے میں ہے دنیا
مرے لیے تو یہی آب جو سمندر ہے
ہمارا وصل ڈبو دے گا دشت و صحرا کو
میں ایک سر پِھرا دریا ہوں تو سمندر ہے
نمازِ حشر ادا کرنے والا ہے طوفان!
بچھی ہوئی ہیں صفیں قبلہ رو سمندر ہے
سب اپنا اپنا تعلق جتاتے ہیں اِس سے
کسی کا دوست کسی کا عدو سمندر ہے
کوئی سفینہ اُتارے بغیر بھی خود میں
لہو سے سرخ نہیں سرخ رو سمندر ہے
یونہی ندی نہ سمجھ خود کو آبِ خوش آثار
تجھے یہ علم نہیں ہے کہ تو سمندر ہے
بہانے آیا تھا پانی میں اُس کے خط اور خواب
بہا رہا ہوں مرے دو بہ دو سمندر ہے
میں مد و جزر اُٹھاتا ہوں جام سے آزر
کہ میکدے میں مرا ہم سبو سمندر ہے
——
لہجہ و لفظ کو اِک ساتھ بدل سکتا ہوں
بات کرتے ہوئے میں بات بدل سکتا ہوں
وہ بدلتا ہے اگر چاک پہ صورت اپنی
میں بھی یہ حرف و حکایات بدل سکتا ہوں
اُٹھ بھی سکتا ہے کبھی میرا یقیں تجھ پر سے
میں رخِ قبلہء حاجات بدل سکتا ہوں
ابنِ آدم ہوں مرا کوئی بھروسہ بھی نہیں
چند سکوں کے عوض ذات بدل سکتا ہوں
وہ سمجھتا ہے کہ بے چین ہوں ملنے کے لیے
اور میں وقتِ ملاقات بدل سکتا ہوں
مجھ کو تصویر بنانے میں رعائیت جو ملے
نقشہء ارض و سماوات بدل سکتا ہوں
——
یہ بھی پڑھیں : اردو دنیا کے شہنشاہ ظرافت دلاور فگار کا یوم پیدائش
——
درونِ خواب نیا اک جہاں ، نِکلتا ہے
زمیں کی تہہ سے کوئی آسماں ، نِکلتا ہے
بھلا نظر بھی وہ آئے تو کس طرح آئے
مرا ستارہ پسِ کہکشاں ، نِکلتا ہے
ہوائے شوق یہ منزل سے جا کے کہہ دینا
ذرا سی دیر ہے بس کارواں ، نِکلتا ہے
مری زمين پہ سورج بوقتِ صبح و مسا
نکل تو آتا ہے ليکن کہاں ، نِکلتا ہے
مقامِ وصل اک ایسا مقام ہے کہ جہاں
یقین کرتے ہیں جس پر گماں ، نِکلتا ہے
یہ جس وجود پہ تم ناز کر رہے ہو بہت
یہی وجود بہت رائگاں ، نِکلتا ہے
بدن کو چھوڑ ہی جانا ہے روح نے آزر
ہر اک چراغ سے آخر دھواں ، نِکلتا ہے
——
شعری انتخاب از فیس بک صفحہ : دلاور علی آزر
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ