اردوئے معلیٰ

Search

آج پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے نامور کمپیئر، کالم نگار اور مصنف دلدار پرویز بھٹی کا یومِ وفات ہے ۔

دلدار پرویز بھٹی(پیدائش: 30 نومبر 1946ء – وفات: 30 اکتوبر 1994ء)
——
دلدار پرویز بھٹی 30 نومبر 1946ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے، تاہم تقسیم ہند کے بعد والدین کے ہمراہ گوجرانوالہ میں آگئے۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور مدرس کیا تھا اور ساہیوال کے گورنمنٹ کالج میں لیکچرار تعینات ہوئے۔ وہ ٹی وی اور ریڈیو کے ہر دلعزیز کمپیئر اپنی حاضر جوابی میں بے مثال تھے۔ انہیں بیک وقت اردو، انگریزی اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ پی ٹی وی کو پنجابی میں پہلا کوئز شو شروع کرنے کا آئیڈیا دلدار پرویز بھٹی نے دیا اور ’’ٹاکرا‘‘نامی اس پروگرام سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ میلہ، یادش بخیر اور پنجند جیسے مقبول عام پروگرام بھی کامیابی سے پیش کیے۔ وہ پی ٹی وی سے 1974ء سے 1994ء تک منسلک رہے۔ انہوں نے ٹی وی پر جواں فکر کے نام سے بھی پروگرام پیش کیا اور اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے، وفات کے وقت وہ چلڈرن لائبریری لاہور میں پراجیکٹ ڈائریکٹر تھے،
اپنی زندگی میں تین کتابوں کو تحریر کیا، جن میں ‘دلداریاں، آمنا سامنا اور دلبر دلبر‘‘نمایاں ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیں
——
30 اکتوبر 1994ء کو (بروکلین) امریکا میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے فنڈز جمع کرنے کے دوران میں دماغ کی شریان پھٹ جانے سے دلدار پرویز بھٹی انتقال کر گئے تھے۔ دلدار پرویز بھٹی لاہور میں وحدت کالونی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں، پرویز بھٹی کے انتقال کے بعد شوکت خانم میموریل اسپتال اور ریسرچ سینٹر کے ایک وارڈ کا نام بھی اعزازی طور پر انہی کے نام سے منسوب کیا گیا۔
——
میرے ابّا کا یار: دلدارپرویز بھٹی از سعدیہ وقاص
——
سیالکوٹ سے پروفیسر صاب کی ٹرانسفر ہوئی تو گورنمنٹ کالج باغبانپورہ میں تعیناتی ہوئی۔ یہیں سے دلدار پرویز بھٹی سے اُن کی دوستی کا بھی آغاز ہوا۔
دونوں حضرات کی دوستی کی بنیادی وجوہات میں سب سے اہم وجہ اُن دونوں کا حسِ مزاح تھا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسی باتیں تھیں جو دونوں میں کمُبھ کے میلے میں بچھڑے بھائیوں کی مانند مشترک تھیں۔ مثلاً قدرتی خوبصورتی کے دلدادہ دونوں اکثر مستقبل میں ایک ایسی جگہ گھر بنانے کا ارادہ بھی رکھتے تھے جہاں اگر گھر میں نہ سہی تو کم سے کم گلی میں تو پھول پودے لگانے کی جگہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں دوستوں نے کئی سال بعد ایک ہی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک ہی گلی میں گھر بنائے کیونکہ وہاں کا قدرتی ماحول ابھی شہری آلودگی سے پاک تھا۔
دونوں انگریزی کے پروفیسر ہونے کے باوجود، زیادہ تر ٹھیٹھ پنجابی میں ہی بات کیا کرتے تھے۔ میں نے اپنا بچپن اسی شک میں گُزارا کہ میرے ابّا محض میرے جیسے انگریزی بیٹ بچّے کو متاثر کرنے کے واسطے اپنے انگریزی کے پروفیسر ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ مجھے پکا یقین تھا کہ دراصل وہ پنجابی زُبان کے معلم ہیں۔ اِس شک کو یقینِ مستحکم بنانے میں بہت زیادہ ہاتھ دلدار بھٹی صاب کا بھی تھا۔ جب دیکھو پنجابی ہی بولتے ہیں دونوں۔ خیر، جیسے تیسرے کرکے دِل پر بھاری پتھر رکھ کر میں خود کو دلاسہ دیتی کہ کوئی بات نہیں۔ جب دنیا والے اعتراض نہیں کرتے تو مجھے بھی صبر سے اور حوصلے سے برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
——
یہ بھی پڑھیں : آج پروازِ تخیل سوئے آں دلدار ہے
——
بہرحال۔ ایک روز سرکار نے اّبا کو نائجیریا بھیجنے کے لئے مُنتخب کر لیا۔
بچے کو یہ تو یقین آگیا کہ اس کے والد صاب انگریزی کے ہی پروفیسر ہیں پر اّبا سے جُدائی کا خیال اس کی چھوٹی سی دنیا اجاڑ گیا۔ سچ میں اُجاڑ گیا۔
اّبا کو اندازہ ہونے لگا۔ لیکن ترقی کا ایک نادر موقع ہاتھ سے گنوا دینا بھلا کہاں کی دانشمندی تھی۔ پھر پورے خاندان اور برادری کا دباؤ بھی تھا۔
نائجیریا تو گئے مگر اپنی بیٹی سے جب بھی بذریعہ ٹیلیفون بات کرتے تو وہ صرف اپنے ابا کی واپسی کا ہی مطالبہ کرتی۔
لہذا ابا سال پورا ہونے سے پہلے ہی پاکستان لوٹ آئے۔ اُن کے اس اقدام سے خاندان والے جہاں سخت نالاں تھے وہیں یار دوست بھی حیرت زدہ تھے۔ شروع شروع میں تو ابا نے حقیقت بتانی چاہی کہ بھیا میں بیٹی کی خاطر لوٹا ہوں پر لوگ اس بات کو ماننے کو تیار نہ تھے۔ بھلا کوئی شخص محض بچے کے پیار میں، اور وہ بھی بیٹی، ترقی کا ایسا سنہری موقع ہاتھ سے گنواتا ہے! پھر اّبا نے مختلف توجیہات پیش کرنی شروع کیں کہ جن سے دنیا والے مطمئن ہو سکیں۔
ایک بار ایسی ہی ایک دوستوں کی محفل میں دلدار بھٹی صاب نے یہی سوال اپنے مخصوص لب و لہجے اور پسندیدہ کلام، پنجابی، میں پوچھ لیا، ’عباس علی، یار، لوکی بار جان دے ترلے لیندے نے تے تو نائجیریا توں اینی چھیتی واپس ٹُر آیا۔ کیوں؟ ”
اّبا کو بھٹی صاب کا درخت، پھول، پودوں سے لگاؤ یاد تھا، تو اّبا نے، بھٹی صاب کے سوال کا جواب یہی سب مدِنظر رکھتے کچھ یوں دیا کہ، ”رہ تے میں جاندا پر بھٹی صاب، او زمین بڑی بنجر جئی اے۔ سبزہ ناں دا وی نئی۔ “
دلدار بھٹی صاب جن کی وجہ ء شہرت ہی ان کی برجستگی تھی، اس پر گویا ہوئے، ”عبّاس صاب، اے تُسی اودر نوکری کرن گئے سی یا کاہ چرن گئے سی! “ (آپ وہاں نوکری کرنے گئے تھے یا گھاس چرنے گئے تھے؟)
ان کے اس جملے سے محفل کشتِ زعفران بن گئی۔
——
یہ بھی پڑھیں : اک وہی اللہ کا دلدار ہے
——
دلدار بھٹی صاب یوں تو ہنستے ہنسانے والے لوگوں میں سے تھے پر ایک بار وہ بھی آزردہ ہو گئے۔ کسی کولیگ نے انہیں ان کے کسی مذاق کے جواب میں بے اولادی کا طعنہ دیا۔
مجھے اپنے ابا کا یہ جملہ یاد ہے جو وہ کفِ تاسف ملتے کہتے رہے، ”بے اولادی، طعنہ نہیں! “
اس واقعہ نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ دلدار بھٹی صاب نے اپنے انتہائی برجستہ مذاق کے باوجود کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔ کوئی کیسے اتنا بے حس ہوسکتا ہے کہ اس قسم کی گھٹیا طعنہ زنی پر اتر آئے!
اسی طرح ایک بار ان کے ٹی وی پروگرام، جس کا نام غالباً میلہ تھا، میں شرکت کا دعوت نامہ مِلا۔ ابا تو اپنی روایتی جھجک کے باعث نہ گئے لیکن والدہ اور ان کی بہنیں بڑے اہتمام سے اس مقبول ٹی وی شو میں شریک ہوئیں۔
بھٹی صاب کو شایداپنے دوست کی طبیعت کا اندازہ تھا۔ اور یہ بھی معلوم تھا کہ بھابھی شو میں مہمان کے طور پر سب سے آگے بیٹھی ہیں تو ان سے سوال بھی ضرور کرنا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی بتاتے چلے کہ بھابھی ہونے کے ناطے وہ اس قسم کا مذاق کرنے کی جسارت کر رہے تھے۔ سو گُفتگو کا آغاز یوں کِیا: عباس علی میرا پراہ اے، تے اے اونا دی مسز، میری پرجائی ہوری اج میرے شو دے خاص پروہنے۔ اک سوال جیہڑا میں ہمیشہ اپنے پائی نوں پُچھنا چاہندا سی۔ پر کدی پُچھیا نئیں۔ اج پرجائی نوں پٌچھدے آں۔ شادی تواڈی پسند دی اے۔ ؟
اماں : نہیں جی۔ گھر والوں نے طے کی۔
دلدار بھٹی: لگدا بڑی کالیاں دے کم سی!
ان کی جملہ برجستگی کے باعث، محفل ہمیشہ کی طرح کشتِ زعفران تھی۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ